مولانا فضل الرحمن کی آئین پسندی کوسارا پاکستان مانتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کریں‘ آئین کے تحت کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو وہ اس وقت قومی اسمبلی سے نکالنے پر بضد تھے‘ جبکہ ضوابط کے مطابق ان کے استعفے منظور کرنا سپیکر کے اختیار میں نہیں تھا۔ اس وقت ضابطوں کی سختی سے پابندی کر رہے تھے۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی صرف دو شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ رکن اسمبلی اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ بنفس نفیس سپیکر کو پیش کرے اور دوسرے یہ کہ سپیکر کے سوال پر ''کیا وہ یہ استعفیٰ کسی دبائو کے تحت تو نہیں دے رہا؟‘‘ اگر وہ اقرار کر لے کہ وہ استعفیٰ کسی دبائو کے تحت نہیں دے رہا‘ تو اسی وقت استعفیٰ موثر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر دفتری کارروائی ہے۔ جسے پورا کر کے‘ الیکشن کمیشن کو یہ اطلاع بھیج دی جاتی ہے کہ مذکورہ ممبر کی رکنیت ختم کی جا چکی ہے۔ وہ ضوابط کے مطابق اس خالی نشست پر ضمنی انتخاب کا بندوبست کرے۔ تحریک انصاف کے استعفے‘ ضابطے کی شرائط پر پورے نہیں اترے تھے‘ اس لئے ان کی نشستیں برقرار رہیں۔ یہ ان اراکین کی مرضی تھی کہ وہ ایوان میں نہیں گئے۔ وہ ایسا کرنا چاہتے‘ تو کوئی روکنے والا نہیں تھا‘ لیکن مولانا چونکہ بہت ہی آئین پسند ہیں‘ لہٰذا انہوں نے یہ نکتہ نکالا کہ تحریک کے اراکین چونکہ 40دن بغیر اطلاع کے غیرحاضر رہے‘ اس لئے ان کی رکنیت ازخود ختم ہو چکی ہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ تحریک انصاف کے اراکین بلاوجہ غیرحاضر نہیں ہوئے تھے۔ ان کا سپیکر کے ساتھ ایک معاملہ چل رہا تھا۔ سپیکر ان کے استعفے منظور نہیں کر رہے تھے اور وہ بضد تھے کہ ان کے استعفے منظور ہو چکے ہیں۔ ان کی غیرحاضری کا سبب یہ تھا کہ سپیکر فیصلہ کریں‘ تو وہ اپنے حاضر یا غیرحاضر ہونے کے بارے میں سوچیں۔
ضابطے کی اس بحث کی وجہ سے‘ سپیکر فیصلہ نہیں دے رہے تھے اور تحریک کے اراکین فیصلے کے انتظار میں باہر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان پر بلاوجہ غیرحاضری کا الزام نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ مولانا انتہائی آئین پسند انسان ہیں۔ انہیں اس قضیے میںآئین کی یقینی خلاف ورزی دکھائی دی اور انہوں نے ان 342 نشستوں میں اپنے 13بھاری بھرکم اور ایم کیو ایم کے 24ہلکے پھلکے ووٹوںکو جمع کر کے‘ نعرہ فتح بلند کیا اور یہ قرارداد ایوان میں پیش کر دی کہ تحریک انصاف کو مولانا کے 13 اور ایم کیو ایم کے24 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ ایوان سے نکال باہر کیا جائے۔ مولانا اورایم کیو ایم دونوں نے خود ہی فیصلہ کیا اور قوم کو یقین دلانا شروع کر دیا کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے فارغ ہو چکی ہے۔ اس وقت مولانا کا اضطراب دیدنی تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی بہترین تقریر اس موضوع پر کی کہ تحریک انصاف والے فارغ ہو چکے ہیں۔ نامحرموں کو ایوان میں آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی آئین پسندی اس وقت دھری رہ گئی‘ جب حکمران جماعت
نے یہ سوچ کر تحریک انصاف کو نامحرم قرار دینے سے انکار کر دیا کہ اگر تین صوبوں کے اندراتنی بڑی تعداد میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہو گئے‘ تو عام انتخابات کا ماحول پیدا ہو جائے گا اور پھر نہ جانے نتیجہ کیا نکلے؟ تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں زیادہ ووٹ لے گئی‘ تو اسے عام انتخابات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔مولانا نے حکومت سے بہت کچھ لے رکھا ہے‘ ان کے پاس کشمیر کمیٹی کی سربراہی ہے‘ اسلامی نظریاتی کونسل ہے‘ متعدد وزارتیں ہیں‘ بلٹ پروف گاڑی ہے‘ محافظوں کا پورا دستہ ملا ہوا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی یہ قرارداد بھی مسترد ہو گئی‘ تو پھر مولاناکیا کریں گے؟ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔ یہ اور بات ہے کہ مولانا کو ضمنی انتخابات میں شکست بھی ہو گئی‘ تو وہ اپنے دفاع میں اتنی ہی مدلل تقریر کر دیں گے۔ اسی طرح دلائل و براہین کے کشتوں کے پشتے لگا کر‘ سننے والوں کو اپنے نئے موقف پر قائل کر لیں گے۔ ان کا یہ نیا موقف کیا ہو گا؟ مولانا کے سوچنے کی بات ہے۔ وقت آنے پر وہ خود ہی ظاہرکر دیں گے۔ میں کیوں اپنا سر کھپائوں؟
بہرحال حکومت کا اشارہ ہی کافی تھا۔ مولانا نے قرارداد واپس لینے کا فیصلہ کیا اور اپنی پہلی تقریر کی مخالفت میں اتنی ہی دلپذیر تقریر جھاڑ دی‘ جتنی کہ قراردادوں کی حمایت میں کی تھی۔ پھر مسئلہ یہ آن پڑا کہ ایم کیو ایم استعفے دے گئی۔ حکومت کو اسی مشکل کا سامنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کے استعفے منظور ہو جائیں‘ تو اسے پھر 48 صوبائی اور 24قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کا سامنا کرنا پڑتا اور جہاں ایم کیو ایم کی نشستیں ہیں‘ وہاں سے حکمران جماعت ‘ساری کی ساری نشستیں ہار جاتی۔ مخالفین اسے عوام کی طرف سے عدم اعتماد قرار دے کر‘ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیتے۔ حکومت نے پھر مولانا سے کہا کہ اب اس کا الٹ موقف اختیار کیجئے‘ جو آپ نے تحریک انصاف کے معاملے میں کیا تھا۔ آپ یہ کہیے کہ ایم کیو ایم کو اسمبلیوں سے باہر نہ کیا جائے۔ مولانا کی زنبیل میں ہر وقت ‘ ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ ایم کیو ایم کو استعفے واپس لینے پر آمادہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ ایک دوسرے کی ضد ہے۔ تحریک انصاف کے استعفے تو ضابطوں پر پورے ہی نہیں اترتے تھے۔ جبکہ ایم کیو ایم نے ساری کارروائی بڑی احتیاط سے کی تھی۔ ہر ممبر نے اپنا استعفیٰ بذات خود سپیکر کے
سامنے پیش کیا‘ اقرار کیا کہ استعفیٰ اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور یہ بھی مانا کہ اس نے استعفیٰ کسی دبائو پر نہیں دیا۔ سپیکر صاحب پر لازم کر دیا کہ وہ استعفے منظور کریں۔ وزیراعظم کی فرمائش آ گئی کہ استعفے منظور نہ کریں۔ مولانا کے مطابق‘ نامنظور شدہ استعفوں والی پارٹی کو نکالنا آئین کے تحت لازم تھا۔ اب انہوں نے اصلی استعفے نامنظور کرنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ تحریک انصاف کو اسمبلیوں سے نکالنے کا کنٹریکٹ لینا ان کی مجبوری تھی۔ حکومت کی طرف سے کرائے جانے والے اللے تللے کیسے چھوڑے جا سکتے ہیں؟ اب پہلے سے برعکس موقف اختیار کرنے کی ڈیوٹی ملی‘ تو مولانا کے خیالوں میں سیرسپاٹے کے بے شمار مواقع جھلکیاں دینے لگے۔ کراچی کی سیر‘ ایم کیو ایم کا حلیم اور پھر آہ! حلوہ‘ ح سے حلیم ‘ح سے حلوہ‘ مزے ہی مزے۔ بات کراچی پر ہی ختم نہیں ہونا تھی‘ حتمی فیصلے کے لئے مولانا کو لندن کا ٹکٹ ملتا۔ کراچی جا کر انہیں بلاول ہائوس کی بلٹ پروف کار پیش کر دی گئی تھی۔ لندن میں الطاف بھائی کی طرف سے زبردست پروٹوکول کا نذرانہ پیش ہونا تھا‘ مگر رشیدگوڈیل پر قاتلانہ حملے کا افسوس ناک واقعہ ہو گیا۔ مولانا کو بلٹ پروف کار بھی چھوڑنا پڑی۔ لندن کا دورہ بھی غیریقینی ہو گیا اور انہوں نے وہاں جا کر خدا کی شان دیکھنے کے جو پروگرام بنائے تھے‘ وہ بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اوپر سے مسلم لیگ(ن) کے لیڈر سیدظفر علی شاہ نے عدالت کا رخ کر لیا ہے ۔ انہوں نے وہی آئینی موقف اختیار کیا‘ جو پہلے مولانا کا تھا۔ اب شاہ جی‘ عدالت عظمیٰ میں مولانا کے دلائل دہرا رہے ہوں گے اور مولانا کو تحریک انصاف والوں کے دلائل اختیار کرنا پڑیں گے۔ مولانا ماشاء اللہ ہر فن مولا ہیں۔ وہ جو کام ہاتھ میں لیتے ہیں اسے پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو انگریزی میں"Jack of all trades, master of none"کہا جاتا ہے۔ مولانا نے کتنے کام ہاتھ میں لئے۔ تحریک انصاف کو اسمبلیوں سے نکلوانے کی ذمہ داری اور ایم کیو ایم کو اسمبلیوں میں رکھنے کی ذمہ داری‘ ابھی تک دونوں کام ادھورے ہیں‘ لیکن مولانا گانٹھ کے پورے ہیں۔ آہ! ح سے حلیم۔ ح سے حلوہ اور پھر لندن میں خدا کی شان۔ مگر مجھے یقین ہے کہ مولانا سب کچھ ہی کر لیں گے۔ ایک پرانی پنجابی فلم میں کامیڈین ‘گائوں کا خودساختہ چوہدری بنا پھرتا ہے۔ چارپائی اس کے کندھے پر ہوتی ہے۔ جہاں کوئی تنازع اس کے سامنے رکھا جاتا ہے‘ وہ چارپائی کو گلی میں رکھ کر اپنی عدالت لگا دیتا ہے۔ دو فریقوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔ بھٹیارن ایک جگہ بھٹی لگا رہی تھی اور محلے والے اسے بھٹی نہیں لگانے دے رہے تھے۔ دونوں طرف کا موقف سن کر‘ عدالت نے فیصلہ دیا ''تم بھٹی بناتی جائو۔ تم بھٹی گراتے جائو۔‘‘دیکھئے! اب مولانا‘ تحریک انصاف کو اسمبلی سے نکالتے کیسے ہیں اور ایم کیو ایم کو اسمبلیوں کے اندر ‘ رکھتے کیسے ہیں؟ سید ظفر علی شاہ کو عدالت سے فیصلہ کیا ملتا ہے؟ اور حکومت آئین سے نمٹتی کیسے ہے؟