آج سے تین سال پہلے جب روزنامہ ''دنیا‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا ‘ تو میاں عامر محمود سمیت‘ ہم سب فکرمند تھے۔ سب کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ہماری محنت کو ثمر آور فرمائے ۔اردو صحافت کی برادری میں ''دنیا‘‘ کو عزت کی جگہ مل جائے۔ چند سینئر صحافیوں کے سوا ''دنیا‘‘ کی ساری ٹیم نئی تھی۔ نیوز روم میں عبداللہ طارق سہیل‘ اپنے تجربے اور مہارت کے ساتھ موجود تھے۔پورا اخبار تیار کرنا‘ ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہی حال رپورٹنگ روم کا تھا۔سرمد بشیر انگریزی صحافت سے آئے تھے‘ اردو کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ زیادہ تر رپورٹر نوآموز تھے۔ سلمان غنی کی مصروفیات کا زیادہ حصہ نیوز چینل کے لئے وقف تھا۔ لیکن انہوں نے ہمارا پورا ساتھ دیا اور آج تک دے رہے ہیں۔ تمام اخباروں کے پاس‘ سب کچھ وہی ہوتا ہے جو ہمارے پاس تھا لیکن ایک فرق بہت بڑا ہے‘ وہ ہیں میاں عامر محمود۔گزشتہ چالیس پچاس سال کے عرصے میں بہت سے نئے اردو اخبار شائع ہوئے لیکن ان میںسے بیشتر راستے میں دم توڑ گئے۔ کسی کے پاس میاں عامر محمود نہیں تھے۔یہی وہ فرق ہے جو گزشتہ نصف صدی میں نمودار ہونے والے دیگر اخباروں اور روزنامہ''دنیا‘‘ میں ہے۔ اردو صحافت میںآج صرف ‘دو اخبار ہی نصف صدی سے پہلے کے ہیں۔ یہی دو ہم سے آگے ہیں۔اعدادو شمار میں میری یہ رائے مستند نہیں مگر کچھ باتوں میں دل حقائق کو قبول نہیں کرتا۔ ''نوائے وقت‘‘ کا پیچھے رہ جانا‘ ذہن و دل کے لئے قابل قبول نہیں۔ہر کاروبار ہندسوں کا کھیل نہیں ہوتا۔صحافت تو بالکل نہیں۔ہم اللہ تعالیٰ اور اپنے قارئین کے شکر گزار ہیں کہ روزنامہ''دنیا‘‘ ہندسوں کے کھیل میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔اب ایک ہی دعا باقی رہ گئی ہے۔پوری ہو گئی تو انشا اللہ ہمیں اکیلا کر دے گی۔ بعض شعبوں میں اکیلا ہو جانا اعزاز کی بات ہوتی ہے اور ہم اس اکیلے پن سے چند ہی قدم پیچھے ہیں ۔ جلد نصیب ہو جانے والی کامیابی اچھی نہیں ہوتی۔ اچھی وہی ہوتی ہے‘ جو دیر سے ملے اور ہمیشہ رہے۔ہمارے سفر کا تو ابھی تیسرا قدم ہے ۔ صرف چوتھا آگے بڑھانا ہے۔ خدا نے چاہا تو بھر لیں گے۔
ہم سب آغازِ سفر کے لمحات کو یاد کرتے ہیں۔وہ رفقا بہت یاد آتے ہیں جو سفر پہ نکلتے وقت ہمارے ساتھ تھے۔ اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر وہ بچھڑ گئے۔بچھڑ گئے‘ مگر جدا نہیں ہوئے۔کھن کھن کرتے کھرے‘ حسن نثار کو ہم دعائوں میں یاد کرتے ہیں۔ اوریا مقبول جان‘ کہیں بھی ہوں ان کی کاٹ وہی رہتی ہے۔ آج تین سال کے بعد بھی‘ ان دو کے سوا بیشتر ہم سفر ہمارے ساتھ ہیں۔ اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوتی ہے؟ عبداللہ طارق بھی ہمارے ساتھ نہیں رہے‘ مگر وہ ساتھ ہی کب تھے؟ جو رفاقتیں آغازِ سفر میں میسر تھیں‘ وہ آج بھی ہمارا فخر ہیں۔ حفظِ مراتب میں دیکھا جائے تومجیب الرحمن شامی کا نام آتا ہے لیکن بشرط استواری کے معیار پر‘ ہارون الرشید کی تصویر ہی ہمارے ادارتی صفحے پر سرفہرست رہتی ہے۔رئوف کلاسرا نے بطور کالم نویس جو شہرت اور عزت حاصل کی‘ روزنامہ''دنیا‘‘ اسے اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتا ہے۔خالد مسعود خان کے بارے میں ''میرے دل میرے مسافر‘‘ کے سوا کیا لکھوں؟باقی دنیا کے لئے تو ظفر اقبال‘ دورِ رواں کے سب سے بڑے شاعر ہیں لیکن ہمارے کالم نویسوں میںتومیر مجلس ہیں۔کس کس کا ذکر کروں؟ جو نام بھی یاد کروں۔یادوں کے چراغوں میں‘ ایک سے ایک کی لو بلند ہے۔شمشاد احمد‘ جو پاکستان کی وزارت خارجہ کے سیکرٹری رہے۔ ہمارے لکھنے والوں میں سرکردہ ہیں۔کس کس کا نام لکھوں؟ ڈاکٹر لال خان‘ محمد اظہار الحق‘ خورشید ندیم‘ منیر احمد بلوچ‘ جاوید حفیظ‘ ڈاکٹر رشید احمد خان اور جید علمائے کرام میں مفتی منیب الرحمن‘ ابتسام الٰہی ظہیر اور امیر حمزہ کی تحریریں شائع کرنا‘ ہمارا خصوصی اعزاز ہے ۔ ڈاکٹر بابر اعوان‘ دیر سے آئے مگر خوب آئے۔ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک اور افتخار گیلانی‘بھارت کے ممتاز صحافی ہیں جن کی تحریریں شائع کرنا ہمارے لئے باعث امتیاز ہے۔الیاس شاکر‘ کہنہ مشق صحافی ہیں‘ خود اخبار کے مالک اور ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے دیرینہ رفاقت کا حق ادا کرتے ہوئے‘ ہمارے لئے کالم لکھنا پسند کیا۔ کنور دلشاد‘ڈاکٹر اکرام الحق‘ انجم نیاز‘ نسیم احمد باجوہ ‘ عرفان حسین‘ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی تحریریں‘ ہمارے قارئین کو بے حد پسند ہیں۔نو واردان میں بریگیڈئر(ر) صولت رضا‘افتخاراحمد‘ریحام خان ‘ارشاد احمد عارف میں سے بیشتر سینئر قلم کار ہیں۔ ارشاد احمد عارف صحافت میں وسیع تجربہ اور ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ ہماری عزت افزائی کے لئے چند ماہ پہلے شریک سفر ہوئے۔ ہم سب کو ان سے بڑی توقعات ہیں۔عامر خاکوانی ہمارے سینئر ساتھیوں میں ہیں اور روزنامہ''دنیا‘‘ کا سنڈے میگزین مرتب کرتے ہیں‘ جو ان کا خصوصی شعبہ ہے۔کالم نگاری میں منفرد اسلوب رکھتے ہیں۔نوجوانوں میں عمار چوہدری ‘بلال الرشید اور محمد کامران خان ‘اپنے قارئین کی تعداد میں تیز رفتاری سے اضافہ کر رہے ہیں۔ جس طرح فلمی ستاروں کی فہرست میں‘ سب سے بڑے اداکار کا نام علیحدہ لکھا جاتا ہے جیسے'' اور دلیپ کمار اور امیتابھ بچن‘‘۔ اسی طرح اکمل علیمی جیسے سینئر اور مثالی صحافی کا نام لکھ رہا ہوں۔ میرے دیرینہ اور مخلص ترین دوستوں کی جو چھوٹی سی محفل تھی‘ اس میں شاید‘ ہم دو ہی باقی رہ گئے ہیں۔ میرے لئے دعائے صحت اور اکمل علیمی کے لئے درازی عمر کی دعا مانگ لیں تو میںشکر گزار ہوں گا۔ ہم اپنی باقی ماندہ چند سانسوں کی پونجی میں سے کسی کو کیا دے سکتے ہیں؟ ہمارے ساتھیوں کی فہرست ما شا اللہ اتنی طویل ہے کہ ایک مضمون میں سب کا ذکر کرنا آسان نہیں۔روزنامہ''دنیا‘‘ کے انتظامی امور کے سربراہ ‘ نوید کاشف کی حیثیت ''بابا ڈانگ والا‘‘ کی ہے جو ہر شعبے پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ڈانگ کا استعمال نہیں کرتے۔ ان کی مثال ایسے منتظم کی ہے‘ جس نے اپنے دفتر کے سارے عملے کی تعریف کرتے ہوئے بتایا تھا ''یہاں سب کارکن شریف اور قابل اعتمادہیں‘ ‘۔پوچھا گیا '' پھر یہ ڈانگ کیوں پکڑ رکھی ہے؟‘‘ جواب ملا ''سب کو شریف اورقابل اعتماد رکھنے کے لئے‘‘۔
ہمارے دفتر میں بھی سب کے سب شریف اور قابل اعتماد ہیں۔کہیں کمی تھی تو اسے پورا کرنے کے لئے امجد نیاز‘ نوید کاشف کے ساتھ آملے۔ یک نہ شد دو شد۔ان دو کی موجودگی سے اطمینان ہو جاتا ہے کہ انتظامی اعتبار سے ہمارا ادارہ انتہائی محفوظ اور متحرک رہے گا‘انشا اللہ۔اخبار میں تمام ذمہ داریاں ایڈیٹر کے سپرد ہوتی ہیں۔ اس میں ایک ہی قباحت ہے کہ ہر اچھے کام کے متعدد دعوے دار ہوتے ہیں اور ہر غلطی کا جواب ایڈیٹر کو دینا پڑتا ہے مگر کیا کیا جائے؟ پھر بھی ہر صحافی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ ایڈیٹر بنے۔ ندیم نثار ہمارے ایڈیٹر ہیں یعنی وزیراعلیٰ۔ جس کا مطلب ہے‘ سب سے زیادہ بوجھ اٹھانے والا ۔ ان کے بارے میں یہی لکھ سکتا ہوں ۔''ابھی بھی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں‘‘۔روزنامہ''دنیا‘‘ میں میاں عامر محمود حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس تحریر میں بھی و..ہی حرفِ آخر ہیں۔ان کی طاقت نیک نیتی اور نیک دلی ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں فراوانی سے عطا فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب نوازا ہے اور وہ ہر کسی کو نوازتے ہیں۔
نوٹ۔ ''دنیا ‘‘ ما شا اللہ بہت بڑا ادارہ ہے‘ جس میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے سب کے نام لکھنا ممکن نہیں تھا۔ جن کا ذکر نہیں کر پایا‘ ان سب سے دست بستہ معذرت خواہ ہوں۔
----------------------