بطور صحافی میں نے ایوانِ اقتدار کے اندر بہت عرصہ گزارا ہے۔ مولانا کوثر نیازی میرے ذاتی دوست تھے۔ ان کے ہمراہ بے شمار اعلیٰ سطحی میٹنگوں اور غیر رسمی تقریبات میں شریک ہوتا رہا۔ بھٹو صاحب کے لئے تقریروں کے نکات لکھا کرتا تھا۔ اس سلسلے میں ان سے بھی اکثر ملاقات ہو جاتی۔ اس کے بعد ضیاالحق کا سیاہ دور آیا۔ وہ چلے گئے‘ تو بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی۔ میں اس حکومت کا حامی نہیں تھا۔ جب نوازشریف وزیراعظم بنے‘ تو ان سے قریبی تعلقات استوار ہو چکے تھے۔ ان کے لئے غیر سرکاری سپیچ رائٹر کی ذمہ داریاں مل گئیں۔ پرویزالٰہی وزیراعلیٰ بنے‘تو کوئی سرکاری ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔ وہ اکثر اوقات مجھے اپنی کابینہ میٹنگ میں بھی بٹھا لیتے۔ ایک بار میں ٹی وی کوریج میں بیٹھا دکھائی دیا‘ تو قیاس آرائیاں ہونے لگیں ۔ میں نے فوراً ہی شعیب بن عزیز سے کہہ دیا کہ آئندہ ٹی وی کیمرہ مجھ پر نہ آئے۔ میری حیثیت ایک مہمان کی ہوتی تھی۔ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے حکومت کا حصہ سمجھ لیا جائے جبکہ یہ حقیقت نہیں تھی۔تفصیل اس لئے بیان کی کہ میں نے ایوان اقتدار کے اندر‘ موسموں کی تبدیلی کے بے شمار مناظر دیکھے ہیں۔ جب بھی کسی تبدیلی کے آثار دکھائی دینے لگتے‘ تو نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو بھی ‘میں نے سلام پھیرنے سے پہلے‘ نئے معبود کی طرف رخ کرتے دیکھا ہے اور یہ مجھی سے خاص نہیں‘ ہر پرانا صحافی نہ صرف یہ مناظر دیکھتا ہے بلکہ وہ اشاروں کنایوں میں آنے والے دور کی جھلکیاں بھی دکھا دیتا ہے۔ پاکستان کے وزرائے اعظم میں‘ میاں نوازشریف واحد لیڈر ہیں‘ جنہیں ایسے مناظر ایک سے زیادہ مرتبہ بطور وزیراعلیٰ اور وزیراعظم دیکھنے کو ملے۔بطور وزیراعظم‘ان کا یہ تجربہ سب سے زیادہ تلخ تھا۔ بے نظیرشہید کی حکومت تھی۔ منظور وٹو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ستلج کے کناروں کے باسی‘ پرانے زمانے میں جانگلی کہلاتے تھے۔ یہ بڑے سخت گیر مشہور تھے۔
میاں یٰسین وٹو بھی انہی میں سے تھے ۔وہ خود بتایا کرتے تھے کہ ہم جانگلی بہت بیدرد ہوتے ہیں اور پھر ایسا وقت آیا کہ انہوں نے خود ہی مثال بھی دی۔ بقول ان کے‘ انہوںنے میاں منظور وٹو کو اوکاڑہ کی سیاست میں متعارف کرایا۔ پھر ایک وقت آیا کہ میاں یٰسین وٹو اوکاڑہ کی سیاست چھوڑ کر وفاق تک محدود ہو گئے۔ اس دور میں وہ باہمی تعلقات کے بدلتے رنگوں کی مثالیں دے کر‘ مجھے یاد دلایا کرتے کہ اپنی جانگلی برادری کے متعلق جو میں بتایا کرتا ہوں‘ اب اس کا مشاہدہ کرتے رہیے اور پھر میں نے یہ مشاہدہ ‘ میاں نوازشریف کے ساتھ کیا۔ انہوں نے گھر کے باہر خالی جگہ پر اپنے ملاقاتیوں اور گارڈز کے لئے ایک انتظار اور آرام گاہ تعمیر کرا لی تھی۔ میاں منظور وٹو کو موقع ملا‘ تو انہوں
نے شدید گرمی کے دنوں میں ان تعمیرات پر بلڈوزر چلوا دیئے۔ میں اس وقت گھر کے ڈرائنگ روم میں‘ میاں صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ یہ وہ دن تھے‘ جب سہیل ضیابٹ اور میرے سوا‘ شاذونادر ہی کوئی ملاقاتی ان کے پاس آیا کرتا۔ کئی دن تو میں نے رات کو بھی وہیں قیام کیا۔ دن کے وقت میاں صاحب کے ڈرائنگ روم میں‘ ان کے ساتھ بیٹھا رہتا اور رات کو سہیل ضیابٹ کے گھر جا کر سو جاتا۔ یہ تھا تصویر کا دوسرا رخ‘ جو گنتی کے چند لوگوں نے دیکھا ہو گا۔ یہاں میں میاں صاحب کاایک قابل ذکر واقعہ دہرائوں گا۔ جب بلڈوزروں سے تعمیرات گرائی گئیں‘ تو گھر کی بجلی کے تار کٹ گئے اور گیس کے پائپ بھی ٹوٹ گئے اور جو گرد‘ تعمیرات گرانے سے اڑ رہی تھی‘ وہ پورے گھر میں چھائی ہوئی تھی۔ یہ بڑا تکلیف دہ وقت تھا۔ میں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا ‘ بہتر ہو گا ‘آپ فیملی کو لے کر کسی ہوٹل میں شفٹ ہو جائیں۔ ان کا جواب تھا''مجھ پر جو امتحان آیا ہے‘ میں اس میں فیل نہیں ہونا چاہتا۔‘‘ بجلی اور گیس کئی گھنٹے بند رہے‘ مگر میاں صاحب نے یہ سارا وقت گھر کے اندر گزارا۔ اس کے بعد جب اچھا وقت آیا‘ تو ان کے گرد منڈلانے والے پروانے‘ جس طرح قربت کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے‘ اکثر مجھے بھی ان کا شکار بننا پڑتا اور میاں صاحب پلٹ کراپنے گارڈز کو اشارہ کرتے کہ مجھے ہجوم کے شکنجے سے نکالا جائے۔ آپ کو یہ تفصیل غیرموزوں نظر آئے گی۔ مگر آج سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقریبِ حلف برداری کے اختتام پر صحافیوں نے جو منظر کشی کی‘ وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ خبر ہمارے اسلام آباد کے رپورٹر طارق عزیز کی ہے۔ اب اس کا اقتباس ملاحظہ فرمایئے: ''تقریب حلف برداری کے بعد چائے کی میز پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مداحوں نے گھیر لیا۔ آرمی چیف کو ملنے اور تصاویر بنوانے والوں میں وزراء اور ارکان پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ جنرل راحیل شریف سب سے خندہ پیشانی سے ملے اور ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے‘ سب سے درخواست کرتے نظر آئے کہ ''دعائوں میں یاد رکھیے گا۔‘‘ یہ وہ جملہ تھا جو انہوں نے ہر ملنے والے سے کہا۔ ہر ملنے والا بلا تفریق مردوخواتین‘ جنرل راحیل اور پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیا۔ دلچسپ اور منفرد تحسین ‘وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کی طرف سے آئی۔ وفاقی وزیر نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''میں آپ کا خصوصی طور پر شکرگزار ہوں کہ آپ نے میرے والد کے قاتلوں کو ٹھکانے لگایا۔ میرے والد کی روح آپ کو دعائیں دے رہی ہو گی۔‘‘ وفاقی وزیرنے کہا ''میری عالمی برادری سے درخواست ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے لئے نوبل انعام کا اعلان کرے۔‘‘ ان ریمارکس پر آرمی چیف نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ''یہ سب آپ کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ریاض پیرزادہ کو چونکہ موجود وزارت بھی مطلوب ہے‘ لہٰذا انہوں نے آخر میں کہا ''وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کو تاریخ یاد رکھے گی۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان کو امن کے راستے پر ڈال دیا ہے۔‘‘ دلچسپ امر یہ دیکھنے میں آیا کہ تقریب کے شرکاء‘ جنرل راحیل شریف سے اپنے مسائل بیان کرتے نظر آئے۔ جواباًانہوں نے سب کی دلجوئی کرتے ہوئے مدد کی یقین دہانی کرائی۔ عملی طور پر تقریب اختتام پذیر ہو گئی تھی‘ لیکن آرمی چیف سے مداحوں کی ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی تقریب حلف برداری جونہی اختتام پذیر ہوئی‘ وزیراعظم نوازشریف چائے پئے بغیر چلے گئے۔ صدر ممنون حسین نے انہیں مرکزی دروازے پر وداع کیا۔ چیف جسٹس نے بعد ازاں صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ چائے پی۔ تقریب کے اختتام پر گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے آرمی چیف کو سلام کیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ''میں پنجاب کا گورنر ہوں۔‘‘ جنرل راحیل شریف نے خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اورکہا ''آپ سے جلد چائے پر ملاقات ہو گی۔‘‘ اس کے بعد کیا مزید کچھ لکھنے کی گنجائش رہ گئی ہے؟میرا خیال ہے کالم مکمل ہو گیا۔
پارٹی ختم ہونے کے بعد کی منظرکشی‘ رپورٹر نے تو نہیں کی‘ مگر میں قیاس کر سکتا ہوں کہ بعد کا منظر کیا رہا ہو گا؟ یہ قیاس آپ بھی کر سکتے ہیں ۔ مثلاً گورنر پنجاب کا آگے بڑھ کر یہ بتانا کہ ''میں گورنر ہوں۔‘‘ یا ریاض حسین پیرزادہ کے وہ الفاظ ‘ جن سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ''پارٹی ابھی باقی ہے۔‘‘ انہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔
مجھے حسن سے بھی لگائو ہے
مجھے زندگی سے بھی پیار ہے
جتنے لوگ وزیراعظم کے رخصت ہونے کے بعد‘ جنرل راحیل شریف کے گرد جمع رہے‘ وہ سب جانتے تھے کہ ''پارٹی ابھی باقی ہے۔‘‘ ایسے لوگ بہت سمجھدار ہوتے ہیں۔وہ پارٹی ختم ہونے کے بعد ہی گھروں کو جاتے ہیں۔ جن کو بروقت سمجھ آ گئی‘ وہ پاکستان چھوڑ کر کبھی کے دبئی میںگھر میں جا بیٹھے۔ اپنے پیاروں کو بھی بلا لیا۔ نوازشریف طبعاً ایک فائٹر ہیں۔ کتنی ہی گرمی اور گردوغبار کیوں نہ ہو؟ وہ بجلی اور گیس کا انتظارکریں گے۔ میں نے انہیں ایساہی کرتے دیکھا ہے۔