عمران خان کے دھرنے‘ عوام کو سڑکوں پر نہ لا سکے۔ پیپلزپارٹی ویسے ہی فرینڈلی اپوزیشن تھی۔ اب وہ کیا بنے گی؟ فی الحال میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف‘ امریکہ کے دورے پر جا رہے ہیں۔ وہاں وہ کیا کریں گے؟ پاکستانی قوم کے ترجمان اور نمائندے کی حیثیت سے‘ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف ‘ امریکہ کا سیر حاصل دورہ کر کے آ چکے ہیں۔ سٹریٹیجک امور میں دوسرے ملکوں کے ساتھ سودے بازی کے لئے امریکہ کی سیاسی انتظامیہ محض ڈیکوریشن گیلری ہے۔ ورنہ جو کچھ طے ہونا تھا‘ وہ اسی دورے میں ہو گیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مخصوص رقم جو روک رکھی تھی‘ جنرل راحیل شریف نے اس کا اجراء کرا دیا تھا۔ حال ہی میں امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ 300ملین ڈالر کی جو رقم روک لی گئی تھی‘ اسے سوچ بچار کے بعد جاری کیا جائے گا۔ اندرونی اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ یہ رقم جاری کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے‘ لیکن ہمارے وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے دوران یا بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ راحیل شریف ہوں یا نوازشریف‘ دونوں پاکستانی شریف ہیں اور دونوں ہمارے عوام کے نمائندے ہیں۔ ایک کم‘ ایک زیادہ۔بات تو پاکستان کی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے خاندان نے ‘جس طرح پاکستان کو اپنا مقبوضہ علاقہ سمجھ رکھا ہے‘ اس وجہ سے ہر شہری ایک دوسرے سے پوچھتا ہے ''تیرا کیا بنے گا کالیا؟‘‘ ملک میں ہر طرف راوی چین لکھتا تھا ۔ خورشیدشاہ‘ رائیونڈ کے زائرین کی طرح‘ دھماکہ خیز وفادار تھے۔ جس طرح عمران خان اور طاہرالقادری‘ مشترکہ عوامی طاقت لے کر اسلام آباد گئے تھے‘ اکیلے نوازشریف اس سے ٹکر نہیں لے سکتے تھے۔ یہ خورشیدشاہ ہی تھے‘ جنہوں نے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے بھی‘ حزب اقتدار سے عہدوفا اس طرح نبھایا‘ جس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ خودنوازشریف کی پارٹی میں ایسا جیالا مقرر دستیاب نہیں‘ جس طرح خورشیدشاہ نے نوازشریف کے تحفظ کی جنگ لڑی۔ جو لوگ پاکستانی سیاست سے واقف نہیں ‘ انہوں نے تو یہی سمجھا ہو گاکہ خورشید شاہ‘ مسلم لیگ(ن) کے جاں نثار لیڈر ہیں اور اگر کسی نے نوازشریف کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا‘ تو وہ اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ اس روز شاہ جی کا موڈ دیکھنے والا تھا۔ عمران خان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس دن ایوان کے اندر موجود نہیں تھے‘ ورنہ اندیشہ تھا کہ شاہ جی‘ عمران خان پر جھپٹ کر‘ اسے ایوان کے اندر ہی فرش پر گرا دیتے اور اس کے بعد تنومند کھلاڑی عمران خان‘ شاہ جی کے ساتھ کیا کرتے؟ یہ شاہ جی کی قسمت تھی۔ مگر ایک بات تو ماننا پڑتی ہے کہ اگر موقع مل جاتا توشاہ جی کواپنے انجام سے بے خبر ہو کر‘ عمران خان پر جھپٹ پڑنا تھا۔
یہ پاکستانی سیاست ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ میں60سال کا عرصہ اسی بے کار کوشش میں ضائع کر بیٹھا ہوں کہ پاکستانی سیاست کی سمجھ آ جائے۔ سمجھ تو آ گئی اور وہ یہ کہ پاکستان میں سیاست کرنے والوں کو‘ سیاست کی خاک سمجھ نہیں۔ انہیں ابھی تک یہی پتہ نہیں چلا کہ پارلیمنٹ کا الیکشن لڑ کے‘ وہ ملک کے اعلیٰ ترین ایوان میں جاتے ہیں کہ یونین کونسل میں؟ پاکستانی پارلیمنٹ کی کارروائیاں دیکھ لیں۔ آپ کو یہی لگے گا کہ کسی تحصیل یا ضلع کونسل کا اجلاس دیکھ رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر ہماری پارلیمنٹ میں بات نہیں ہوتی۔ ملک کی اقتصادی پالیسیوں پر وہاں بحث نہیں ہوتی۔ دفاعی امور پر وہاںکوئی بات نہیں کرتا۔ پھر یہ لوگ وہاںکرتے کیاہیں؟ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔ سب کا ایک ہی جواب ہو گا کہ وہاں وہ کچھ نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ میں صرف میل ملاقات اور وقت گزاری کے لئے آتے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہوتا ہے‘ وہ اجلاس ختم ہونے کے بعد کرتے ہیں۔ان میں سرفہرست حلقے کے نام پر بھاری رقوم کی منظوریاں ہوتی ہیں‘ جو اربوں اور کروڑوں میں‘ ان کے سپرد کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں جا کر دیکھ لیں۔ سرکاری اخراجات پر کوئی ترقیاتی کام کیا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ انگریز کے زمانے کی سڑکیں اور سہولتیں ہیں۔ انہی کو مرمت کر کے‘ کام چلا لیا جاتا ہے۔ ہسپتال تعمیرہوتے ہیں، مگر معزز ممبر کے حواری‘ وہاں اپنے مویشی رکھ لیتے ہیں یا آوارہ گدھے قصائیوں سے جان بچانے کے لئے وہاں آ کر پناہ لے لیتے ہیں۔ سڑکیں صرف وہی بنتی ہیں‘ جہاں ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو آمدورفت کی ضرورت پڑتی ہے۔ عوامی ضرورت کی کسی سڑک یا راستے کو بنانے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ اسی دکھ سے عوام اپنے علاقے چھوڑ کر‘ ایسی بستیوں اور شہروں کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں حکمرانوں کا آنا جانا ہو۔ تھرپارکر یا چولستان کے علاقے بہت بڑے ہیں اور وہاں ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے صرف ایک خاص سڑک بنتی ہے۔ آپ جا کر مشاہدہ کر لیں‘ آپ کو صرف وہی سڑکیں دکھائی دیں گی‘ جو عوام کے منتخب نمائندوں کے استعمال میں آتی ہیں۔ باقی دوردور تک کچا راستہ بھی ہموار نہیں ملتا۔ یہ مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں۔
ہم سب اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ جھوٹ بولتے ہوئے آدمی تھوڑا سا جھجکتا یا شرماتا ہے۔ ہم ایسے ڈھیٹ ہیں کہ پورے اعتماد سے‘ بڑے دعوے کے ساتھ اپنی جمہوریت کے چرچے کرتے ہیں، مگر کیا مجال ہے ‘ یہ دعوے کرتے ہوئے ہمیں ذرا سی شرم بھی آ جائے؟ ان دنوں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ امیدواروں کا چنائو ہو رہا ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنے ضلع ناظموں کا ابھی سے انتخاب کر لیا ہے۔ ان خوش نصیبوں کو الیکشن لڑنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پنجاب کی فرض شناس انتظامیہ‘ ایسے امیدواروں کے تمام حریفوں کو‘ ان کے حق میں دستبردار کرانے کے لئے دن رات سرگرم ہے۔ بیشتر مخالف امیدوار ‘تھانوں میں فرش پر بیٹھے‘ گھر جانے کے جتن کر رہے ہیں۔ بعض کو اٹھا کر سرکاری امیدوار کے ڈیرے پر بھیج دیا گیا ہے۔ اگوں تیرے بھاگ لچھئے۔دستبردار ہونے والے امیدواروں کا‘ ان کی آمادگی سے پہلے ہی اعلان کر دیا جاتا ہے بلکہ بلامقابلہ کامیاب ہونے والے سرکاری امیدوار کو مٹھائی کا ڈبہ پیش کر کے کر کہا جاتا ہے ''سرجی! کامیابی مبارک۔‘‘ سرکاری امیدوار دھڑا دھڑ بلامقابلہ کامیاب ہو رہے ہیں اور باقی رہ گئے عام حلقوں کے امیدوار‘ تو ان کی خیر ہے۔ جتنی ضرورت ہوگی‘ اتنی ہی تعداد میں وہ کامیاب ہونے کے بعد‘ حکمران پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ یہ ہماری جمہوریت کا عمدہ نمونہ ہے اور ہمارے وزیراعظم کی عوامی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت۔ خود ہی بتایئے! کوئی ہماری جمہوریت سے انکارکر سکتا ہے؟ بنیادی طور پریہ تھانیدار کی جمہوریت ہے اور ماشاء اللہ خورشید شاہ نے اسے اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ اب وہ خود بھی اپنے ساتھیوں کو جیل میں اے کلاس دلوانے کے لئے وزیراعلیٰ کے ساتھ انہی کی گاڑی میں بیٹھ کر جاتے ہیں۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، لیکن پنجاب کی حکومت کی طاقت کاباقی چھوٹے صوبوں اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں پر اتنا دبدبہ ہے کہ اکثرلوگ خودکشی پر آمادہ ملتے ہیں۔ پیپلزپارٹی چونکہ سندھ میں حکمران ہے اور اس کے لیڈر آسودہ حال بھی ہیں‘ اس لئے بہت سے تو بھاگ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں۔ سندھ کی مظلوم سی صوبائی حکومت‘ کابینہ کے اجلاس کرنے کے لئے بھی اس خوف سے دبئی کا رخ کرتی ہے کہ اگر
اجلاس کے دوران ہی ساری کابینہ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا‘ تو حکومت کیا کرے گی؟ بہرحال نوجوان مراد علی شاہ نے ہمت دکھائی اور اعلان کر دیا کہ سندھ کی گیس اور کوئلے پر ہمارا حق ہے۔ ہمیں حقوق سے محروم کیا گیا‘ تو ہم گیس کی سپلائی روک دیں گے۔ یہ زوردار قسم کا بیان دینے کے بعد‘ وہ لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان کی تلاش جاری ہے۔ قسمت اچھی ہوئی تو خود نمودار ہو جائیں گے‘ ورنہ سائیں قائم علی شاہ کوایک بار پھر کراچی جیل جا کر‘ ایک اور قیدی کو اے کلاس دلوانا پڑے گی۔ پنجاب کی بات اور ہے۔ ہمارے وزیراعظم مزے سے اے کلاس کی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن‘ چیف آف آرمی سٹاف اہتمام سے وردی پہن کر‘ وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔وزیراعظم کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں‘ اپنے ملاقاتیوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ہمارے دوست عطاالحق قاسمی کو ملاقات کی اجازت مل گئی ہو تی‘ تو ممکن ہے ‘ چیف آف آرمی سٹاف کا سامنا ہونے پر آگے بڑھ کر وہ بتاتے کہ ''میںگورنر ہوں۔‘‘ہماری جمہوریت میں یہی ہوتا ہے۔