آج صبح ‘بہت دنوں کے بعد آصف زرداری کا فون آیا۔ ان سے باتیں کرنے کے بعد‘ پاکستان کے سیاسی مناظرایک فلیش بیک کی صورت میں سامنے آئے اور میں عجیب طرح کی سوچوں میں ڈوب گیا۔ میں نے سوچا‘ ہم جو ہر وقت یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاستدان کرپٹ ہیں‘ کیا ہم نے کبھی اس کی وجوہ پر غور کیا؟ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کے شہید کر دیا گیا۔ کیا وہ کرپٹ تھے؟ تھوڑی سی یاددہانی کے لئے عرض کر دوں‘ وہ اپنے علاقے کے نواب تھے۔ دلی میں ان کا گھر ایک محل تھا‘ شہیدملت نے اُسے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو مفت میں عطیے کے طور پر دے دیا۔ آج کل پاکستان کا ہائی کمیشن وہیں پر قائم ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے پوتے‘ پوتیاں آج بھی اچھی حالت میں نہیں۔ ان کے قریبی عزیز و اقارب چاہتے ہیں کہ پاکستان ‘ ان کے حالات بہتر کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کرے‘ لیکن کسی کو خبر نہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم جو کہ ایک نواب تھے‘ ان کے پسماندگان کس حال میں ہیں؟ کراچی میں بانیٔ پاکستان کا اپنا شاندار محل تھا۔ ان کی بیٹی پاکستان میں قیام کرنے کے لئے کبھی نہیں آئی۔ ایک محترمہ فاطمہ جناح تھیں‘ انہوں نے آخری ایام کیسے گزارے؟ اس کی منظرکشی سیدہ عابدہ حسین نے اپنی کتاب میں کی ہے۔ میں ایک کالم میں اس کا ذکر کر چکا ہوں۔ مادرملت کا ایک جملہ پاکستانیوں کی غیرت مندی کا نمونہ پیش کرتا ہے‘ جس میں ان کی باتوں سے یوں لگا ‘ جیسے یہ معمر خاتون ‘ ایک بوڑھے نوکر کے ساتھ تن تنہا زندگی گزار رہی تھیں۔ اور باتوں کے دوران انہوں نے سیدہ عابدہ حسین اور ان کی والدہ کو بتایا کہ'' ان سے ملاقات کے لئے کون آتا ہے! میری سوتیلی بہن شیریں بائی کا ایوان اقتدار سے رابطہ ہے۔‘‘پاکستان کے وزرائے اعظم ‘ جنہیں غیرجمہوری اور توہین آمیز طریقے سے نکالاگیا‘ ان کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیے: شہیدملت لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ محمد علی بوگرہ‘ چوہدری محمد علی‘ حسین شہید سہروردی‘ ابراہیم اسمٰعیل چندریگر‘فیروز خان نون‘ نورالامین‘ ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خاں جونیجو۔ یہاں پر آ کر سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو وزیراعظم بنیں۔ پہلے ہی دن سے ان کے خلاف جو سازشیں کی گئیں‘ ان کی تفصیل بڑی بھیانک ہے۔ انہیں حکومت سے نکالنے کے لئے دولت کا بے محابا استعمال کیا گیا۔ اگر آصف زرداری ان کے شوہر نہ ہوتے‘ تو شاید بھٹو کی یہ بیٹی اپنے بچائو کے لئے جوابی حربے استعمال نہ کر سکتی۔ لیکن آصف زرداری‘ جیسے کو تیسا بن کے ٹکرائے اور پھر وہی کچھ ہوا‘ جو کرپٹ بازار سیاست میں شروع ہو چکا تھا اور اب تک جاری ہے۔
ماضی کے یہ واقعات یاد کرتے ہوئے ذہن میں آیا کہ آج سیاستدان کا نام گالی بن کر رہ گیا ہے۔ مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میں نے مادر ملت سمیت جن وزرائے اعظم کے نام گنوائے ہیں‘ ان میں کون کرپٹ تھا؟ انہیں غیر آئینی طریقے سے کیوں ہٹایا گیا؟ ان کی ایمانداری کا صلہ انہیں اور ان کی آل اولاد کو کیا ملا؟ دیانت دار سیاستدانوں کے سلسلے کی آخری کڑی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے بدترین دشمن بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ میں ان کی پوری کابینہ کو جانتا ہوں‘ کسی کو ہمت نہیں تھی کہ وہ ناجائز پیسے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ کچھ مثالیں مجھے ضرور یاد ہیں۔ بھٹو صاحب کے وزیرخزانہ رانا حنیف تھے۔ ان کی بیگم کو اجازت نہیں تھی کہ وہ سرکاری گاڑی میں‘ سرکاری پٹرول پر شاپنگ کر سکیں۔ رانا صاحب اس کا باقاعدہ حساب لیتے تھے۔ مولانا کوثر نیازی نے دوران وزارت بھی کتابوں کی رائیلٹی سے الاٹ شدہ پلاٹ پر اپنا گھر بنایا۔ اس زمانے میں انہوں نے ''جنگ لندن‘‘ پر ایک مقدمہ کیا تھا‘ جس پر انہیں جرمانے کے 35ہزار پونڈ ملے۔ اسی رقم سے انہوں نے اپنا گھر تعمیر کیا۔ ان کا ایک بیٹا حادثے میں شہید ہوا۔ دوسرے بیٹوں میں ایک ڈاکٹر بن گیا۔ دوسرے نے پی آئی اے میں ملازمت کر لی اور سب سے چھوٹا آج بھی روزگار کی تلاش میں رہتا ہے۔ آپ بھٹو صاحب کی ٹیم میں کسی کو بھی یاد کر لیں‘ ان میں ڈاکٹر مبشرحسن ملیں گے‘ حفیظ پیرزادہ نظر آئیں گے‘ خورشید حسن میر دکھائی دیں گے۔ کوئی بھی شخص ایمانداری سے ان لوگوں پر کرپشن کا الزام لگا سکتا ہے؟ اس کے باوجود بھٹو صاحب کو غیرآئینی طریقے سے ہٹا کر پھانسی لگا دیا گیا۔ ان کے بعد جنرل ضیاالحق اور ان کے حواریوں نے اقتدار میں جو لوٹ مچائی‘ اس کی مثالیں ناقابل بیان ہیں۔ ضیاالحق نے پاکستان بیچ کر‘ امریکہ سے جو ڈالر لئے‘ وہ کیش کی صورت‘ بڑے بڑے صندوقوں میں بھر کے آتے تھے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ یہ مجاہدین کے لئے ہیں‘ لیکن ان کاتیس پینتیس فیصد نام نہاد مجاہدین کو ملتا تھا۔ باقی ضیاالحق کے ساتھیوں میں بندربانٹ ہو جاتی تھی۔ ریاست کا خزانہ بھی کم نہیں ہوتا۔ ضیاالحق نے قومی خزانے کو جس طرح دونوں ہاتھوں سے بانٹا‘ اس کی کہانیاں بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ ضیاالحق کے دور میں ہی ایک وزیراعظم محمد خاں جونیجو آئے۔ انتہائی ایماندار اور فرض شناس انسان تھے۔ انہیں توہین آمیز طریقے سے برطرف کر دیا گیا۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ جونیجو صاحب کے بعد پاکستان کو کوئی ایماندار سیاسی حکومت نہیں ملی۔ میں جانتا ہوں کہ شہید بے نظیر بھٹو‘ ان کے بعد وزیراعظم بنی تھیں‘ لیکن جن حالات میں انہیں دھکیلا گیا‘ وہ قائد اعظمؒ اور اپنے والد محترم کی روایت پر قائم نہ رہ سکیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتیں‘ تو یقینی تھا کہ انہیں بھی برطرف کر کے انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا‘ یہ محض تصوراتی بات نہیں۔ بے نظیرشہید اس وقت ایک دن کے لئے بھی اقتدار میں نہیں آئی تھیں‘ جب انہیں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ گھر میں نظربند کیا گیا۔ بطور پاکستانی شہری اور بھٹو صاحب کی بیٹی‘ انہوں نے بھٹو صاحب کو بچانے کے لئے جو قانونی جدوجہد کی‘ اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ سکھر کی جیل میں اذیت ناک قید میں پھینکا گیا۔امریکہ میں بھٹو صاحب کے دوستوں اور ساتھیوں نے بھاگ دوڑ کر کے‘ بی بی شہید اور بیگم نصرت بھٹو کو گھر میں نظربند کرایا‘ لیکن یہ قید تنہائی جیل سے زیادہ اذیت ناک تھی۔ بی بی کے ایک خیرخواہ نے امریکی حکومت کے ایک بااثر شخص کی مدد سے ان مظلوم خواتین کو سہولتیں دلوانے کی کوشش کی اور جب ایک امریکی عہدیدار نے ضیاالحق کو فون کیا‘ تو موصوف کا جواب تھا ''وہ تو آرام اور آزادی سے اپنے گھر میں رہ رہی ہیں۔‘‘ اس پر پیٹرگالبرائتھ نے جو کہ ایک سینیٹر کے مددگار تھے‘ متعلقہ اہلکار سے کہاکہ'' میں تمہیں 70کلفٹن کا نمبر دیتا ہوں۔ وہاں بات کر کے دیکھو کہ ضیاالحق نے کتنا سچ بولا ہے؟‘‘ متعلقہ اہلکار نے 70کلفٹن فون کیا۔ وہاں ایک پولیس سب انسپکٹر نے ٹیلیفون اٹھایا۔ اسے کہا کہ میں بیگم بھٹو سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا ''مجھے ہائیراتھارٹیز سے اجازت لینی پڑے گی۔‘‘ اس پر امریکی انتظامیہ پر بھید کھل گیا کہ جنرل ضیا نے ماں بیٹی کو اپنے گھر میں کتنی آزادی دے رکھی ہے؟ اس کے بعد ایوان صدر سے دبائو آیا اور بیگم بھٹو اور بینظیرشہید کو آزادی ملی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے موجودہ سیاستدان‘ ہماری کونسی کرتوتوں کا پھل ہیں؟ جب ان کے پیشرو ایماندار تھے‘ تو انہیں اور ان کے ملک کو کیا ملا؟ ان کی اولادوں پر کیا گزری؟ جو آج بھی گزر رہی ہے۔بھٹو کو پھانسی لگانے کے بعد آنے والے حکمرانوں نے جو کم و بیش سب کے سب غیرجمہوری تھے‘ سیاستدانوں کے لئے ایمانداری کی گنجائش کہاں چھوڑی؟ جو حالات پیدا کئے گئے‘ ان میں سوائے کرپشن کے نہ کوئی سیاست کر سکتا تھا اور نہ اقتدار میں رہ سکتا تھا۔ محمد خاں جونیجو اس کی مثال ہیں۔ وہ چاہتے‘ تو ضیاالحق کے لاڈلوں کی طرح کرپشن میں اپنے دونوں ہاتھ رنگتے ہوئے‘ لٹیروں کا ایک ٹولہ بناتے اور اقتدار کے مزے اڑاتے۔ لیکن وہ تن تنہا شخص اکیلا ایمانداری کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔
میں جب آصف زرداری سے بات کر رہا تھا‘ تومیرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ اس شخص پر کرپشن کے بے شمار الزامات ہیں اور یہ مجھ سے پاکستان کے مستقبل کی بات کر رہا ہے؟ میرے سامنے ایک ہی جواب تھا کہ یا تو آصف زرداری کرپشن کے بادشاہ کی حیثیت سے سیاست میں رہ کر‘ اقتدار کی باریاںلے یاایمانداری کا راستہ اختیار کر کے‘ بھولی بسری کہانی بن جائے۔لیکن آصف زرداری‘ محمد خاں جونیجو کی طرح شریف آدمی نہیں‘ یہ لڑے گا اور اقتدار میں بھی آئے گا۔ لیکن وہ ایمانداری جو ہمارے اہل سیاست سے اسلحہ برداروں نے چھین لی‘ سیاستدانوں کے کسی کام نہیں آئے گی۔شرفاء کے لئے صرف عدالتیں اور اعلیٰ انتظامیہ ہوتی ہے۔ یہ دونوں ہمارے پاس نہیں رہ گئیں۔عمران خان! اس خرابے میں تمہارے لئے کچھ نہیں۔ کس کس سے لڑو گے؟