خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات بتدریج کم ہو رہے ہیں۔اس سال دہشت گردی کے کل 113 واقعات رپورٹ ہوئے‘ جن میں 77 افراد جاں بحق اور 133 زخمی ہوئے۔ گزشتہ سال 240 ‘ 2013ء میں 245 اور 2012ء میں 170 واقعات ہوئے تھے۔ یہ ضرب عضب کا نتیجہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضرب عضب کے نتیجے میں فوج کے افسروں اور جوانوں میں جو بھرپور جذبۂ جہاد پیدا ہوا ہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی توانائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کے واقعات اس کی مثال ہیں۔ میں اسے جوابی کارروائیوں میں سوفیصد کامیاب سمجھتا ہوں۔ دہشت گردوں کے حملے اچانک اور غیرمتوقع ہوتے ہیں اور وہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ آتے ہیں کہ ٹارگٹ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لئے متعدد سمتوں سے نشانہ بنایا جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دفاع کرنے والی فورسز کو ہر سمت سے جواب دینے کا موقع نہیں ملتا اور یہی دہشت گردوں کی کامیابی ہوتی ہے کہ جس طرف سے ذرا بھی کوتاہی ہو جائے‘ وہ اسی طرف سے حملہ کر کے‘ نقصان پہنچاتے ہیں‘ مگر پشاور کا نیا حملہ بہت سے سبق دیتا ہے۔ اس مرتبہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی بُری طرح سے ناکام ہوئی۔ اس کی وجوہ واضح ہیں۔پہلے وہ مقامی مددگاروں کے بھروسے پر منصوبے بنایا کرتے تھے۔ آرمی پبلک سکول پر حملہ اس کی دردناک مثال ہے۔ اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق دہشت گردوں نے حملے سے ایک گھنٹہ پہلے گردونواح میں خفیہ ٹھکانے بنا لئے تھے۔ انہوں نے سکول میں داخلے کے راستے بھی پہلے سے ڈھونڈ رکھے تھے۔ وقت کا تعین بھی بڑی منصوبہ بندی سے کیا گیا اور وہ اپنے منصوبے کے عین مطابق‘ اچانک سکول کے بچوں پر جھپٹے اور کئی گھنٹے تک اطمینان سے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ حالانکہ یہ ہائی سکیورٹی کا علاقہ تھا‘ اس کے باوجود‘ حفاظتی انتظامات ایسے نہیں تھے کہ دہشت گردوں کو کارروائی کے دوران اڑا دیا جاتا۔ انہیں جہنم واصل ضرور کیا گیا‘مگر سارے حملہ آوروں کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس بڈھ بیر ہوائی اڈے کے تازہ حملے کو دیکھیں‘ تو دہشت گرد بری طرح سے ناکام نظر آتے ہیں۔
میں اس کی سب سے بڑی وجہ ضرب عضب کے کارگر حملوں کو سمجھتا ہوں۔ اس آپریشن میں انتہائی تیزرفتاری سے‘ دہشت گردوں کے مضبوط مراکز کو تباہ کر کے‘ ممکنہ حد تک ان کی بڑی تعداد کو جہنم واصل کیا گیا اور جو بچ گئے‘ وہ خوفزدگی کے عالم میں راہ فرار اختیار کر کے‘ پناہ گاہوں میں چھپ گئے‘ جن میں سے کچھ افغانستان میں اور کچھ فاٹا کے دشوارگزار پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ دہشت گردوں کو اتنے وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی کا اندازہ نہیں تھا۔ چند برسوں سے یہ نعرے سننے میں آرہے تھے کہ دہشت گردوں کی کمین گاہوں پر حملہ کیا جائے گا‘ مگر عملاً کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ وہ ضرب عضب کے منصوبے کو بھی اسی طرح کی دھمکی سمجھتے رہے‘ لیکن اس بار تیاری بڑے منظم طریقے سے کی گئی تھی اور جب حملہ ہوا‘ تو ان کے سارے حفاظتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور انہیں اپنی ساری کمین گاہیں اور اسلحہ کے ذخیرے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ یہ ان کے لئے پہلا سرپرائز تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ بعد ہی یہ کارروائی دھیمی پڑ جائے گی‘ لیکن اس مرتبہ پاک فوج کے منصوبے انتہائی پختہ اور عزائم بلند تھے۔ یہ کارروائی مسلسل جاری رہی اور ہر نئے حملے کے ساتھ‘ دہشت گردوں کی طاقت کو مسلسل ختم کیا جاتا رہا۔ انہوں نے ردعمل میں دہشت گردی کی بڑی بڑی وارداتیں کیں‘ جن میں آرمی پبلک سکول کا افسوسناک واقعہ تو ان کے غیظ و غضب کی مثال تھا‘ لیکن اسی واقعے نے پاکستانی عوام اور افواج کو منظم اور متحد کر دیا۔ قوم نے عزم کر لیا کہ اب دہشت گردی کا مقابلہ عزم و ہمت سے کیا جائے گا۔ دہشت گردوں کو فرقہ پرستوں کی بھی مدد حاصل تھی اور وہ ان کے تعاون سے ایک سے ایک بڑھ کر تباہ کن حملہ کرتے رہے‘ لیکن پاکستان کی دفاعی فورسز نے ایک ایک کر کے‘ دہشت گردوں کے مددگاروں کی کمرتوڑنا شروع کر دی۔ میں نے اوپر چند سالوں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 2012ء سے کس طرح دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی آتی گئی۔ یہ اعدادوشمار خیبرپختونخوا اور فاٹا میں ہونے والے جانی نقصان تک محدود ہیں۔ اس کے برعکس ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوا۔ جب پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے‘ توبڈھ بیر کا حالیہ حملہ اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ دہشت گردوں نے جتنے بھی منصوبے تیار کئے‘ و ہ نتیجہ خیز ثابت ہوئے‘ جس کی آخری مثال پشاور کے واقعات ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے حملے میں انہوں نے صرف سات یا آٹھ دہشت گردوں کو استعمال کیا۔ ان کے خفیہ مددگار آج تک سامنے نہیں آئے‘ مگر ان چند افراد نے 145بالغ اور بچے شہید کئے۔ پشاور کی مسجدوں اور چرچ میں برائے نام افرادی قوت استعمال کر کے‘ انہوں نے درجنوں افراد کو موت سے ہمکنار کیا‘ مگر آج جہاں وہ حملہ کرنے آئے تھے‘ وہاں انہیں بری طرح ناکام ہونا پڑا۔ فوج کا صرف ایک افسر اور تین جوان شہید ہوئے‘مگر ان چاروں نے کل حملہ آوروں میں سے آدھے ہلاک کر دیئے۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ تھی کہ ان چار جانفروشوں نے تیرہ دہشت گردوں کو باندھ کے رکھ دیا‘یہاں تک کہ ان کے دیگر ساتھی موقع پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح تیرہ کے تیرہ درندوں کو موت کے گھاٹ اتار کے پھینک دیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ دہشت گردوں کا کوئی بھی آپریشن اس بری طرح ناکام نہیں ہوا‘ جیسے کہ بڈھ بیر کے ہوائی اڈے پرہوا۔ انہوں نے سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو کر اللہ کے حضور کھڑے 16 نمازیوںکو شہید کیا۔ یقینی طور پر یہ صحیح نشانہ نہیں تھا۔ میں اسے دہشت گردوں کی بدحواسی کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ انہیں ماضی کی طرح مقامی آبادی کی مدد یا ہمدردی حاصل نہیں تھی۔ وہ بدحواسی کے عالم میں ہوائی اڈے کے گارڈزروم تک پہنچ سکے کہ جذبۂ شہادت سے سرشار چار نوجوانوں نے انہیں اپنے نشانوں پر دھر لیا اور جس بدحواسی میں وہ گولیوں کا نشانہ بنے‘ وہ منظر یقینا دیدنی ہو گا۔ آپ نے ٹیلیویژن پر دہشت گردوں کی لاشوں کو پڑے دیکھا ہو گا۔ ان میں سے نصف کے قریب تو سکیورٹی فورسز کے چار جوانوں نے مار گرائے تھے‘ لیکن اس دوران انہوں نے باقی دہشت گردوں کو بدحواس کر دیا اور اسی دوران سکیورٹی فورسز کے باقی جوانوں نے نمودار ہو کران کا قصہ تمام کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس علاقے میں حملہ آور واردات کرنے آئے تھے‘ وہاں انہیں کوئی بھی مددگار دستیاب نہ ہوا۔ جب وہ ہوائی اڈے کی حدود میں داخل ہونے لگے‘ تو سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے انہیں ورکشاپ کے قریب ہی روک لیا۔ دونوںطرف سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ بڑے بڑے دھماکے بھی سنائی دیئے۔ اس دوران کوئیک ری ایکشن فورس بھی مقابلے میں شامل ہو گئی۔سکیورٹی فورسز کی مزاحمتی کارروائی انتہائی موثر ثابت ہوئی۔ پولیس ‘ ایلیٹ فورس اور سکیورٹی فورسز کے دستے بھی اسی معرکے کے دوران پہنچ گئے۔ تین ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلسل فضائی نگرانی کی گئی۔ ہرچند یہ حملہ اچانک تھا‘ سکیورٹی فورسز بھی اس کے لئے تیار نہیں تھیں‘ لیکن فوج کے صرف چار جوانوں نے تیرہ دہشت گردوں کو نہ صرف روکا بلکہ ان میں سے چھ یا سات موقع پر ہی ہلاک کر دیئے۔ گولیوں کے دوطرفہ تبادلے میں پاک فوج کے چار جوان بھی شہید ہو گئے‘ لیکن اپنا خون بہانے سے پہلے انہوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور غیر متوقع حملے کے بعد تھوڑے ہی وقت میں جوابی کارروائی کر کے‘ سارے حملہ آوروں کو مار گرایا گیا۔ دہشت گردوں کی اس بدحواسی اور بدنظمی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاک فوج کے حملوں نے ان کے حوصلے پست کر دیئے ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی کی صلاحیتیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں اور اب انہیں موقع واردات کے اردگرد ہمدرد اور مددگار بھی دستیاب نہیں ہو رہے‘ لیکن ان کی کمر اتنی بھی نہیں ٹوٹی کہ وہ مزید کارروائیاں نہ کریں۔ ان کے مالی مددگاروں کی بھی کمی نہیں۔ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی طرف سے بھی انہیں بے انتہا سہولتیں دی جاتی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ بڈھ بیر حملہ افغانستان میں بیٹھے طالبان کے سربراہ ملّا فضل اللہ کا تیارکردہ منصوبہ تھا‘ جسے پوری طرح ناکام بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو سول سروسز کی مدد سے دہشت گردوں کی خفیہ امداد کے تمام وسیلے ختم کرنا ہوں گے۔ خصوصاً انہیں کرپشن کی دولت سے جو حصہ ملتا ہے‘ وہ اسی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو بچا رہے ہیں۔ جیسے ہی ان کے مالی وسائل کے راستے بند ہوں گے‘ دہشت گردی بھی کمزور پڑتی جائے گی۔