ہماری جمہوریت اپنوں کے ہاتھوں جن بدسلوکیوں کا شکار ہو رہی ہے‘ اس کی مثال بھی شاید ہم ہی قائم کریں گے۔ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں‘ جو جمہوریت کا دم نہ بھرتی ہو اور کوئی جماعت ایسی نہیں‘ جو جمہوریت کوسانس لینے کی اجازت دے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نام بھی بدلتے رہتے ہیں‘ لیکن جمہوریت کی گردن مروڑنے کے معاملے میں‘ سب ایک جیسے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ آج ہم جہاں پہنچ چکے ہیں‘ وہاں سے جمہوریت کے بچ نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اگر حالیہ معرکے پر ہی نظر دوڑائی جائے‘ تو اپنی جمہوریت پسندی پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ ہنسی اس لئے کہ ہم جمہوریت پر اپنے پختہ یقین کا دعویٰ کرتے ہیں اور رونا اس بات پر کہ جمہوریت کو ہم قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔عوامی جذبات کے اظہار کے سب طریقے جمہوریت کے اندر ہوتے ہیں‘ مگر کیا مجال ہے‘ ہم ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کریں۔ مثلاً دھرنا بھارت میں ہو‘ تو وہاں حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں ‘ اس کو جائز قرار دیتی ہیں‘ یہاں تک کہ حالیہ بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے دھرنے کی قیادت کا احترام کرتے ہوئے‘ حکومت اس کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیتی ہے۔ ایک فارمولا بھی تیار کیا جاتا ہے۔ حکومت کے سینئر وزرا اور دھرنا دینے والوں کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں۔ حد یہ کہ دھرنے والوں کے مطالبات کو 90فیصد تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اتفاق رائے پر مبنی ایک دستاویز تیار ہوتی ہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ‘ اس کا خیرمقدم کرتی ہیں‘ لیکن عین اسی وقت انتخابات کا نقارہ بجتا ہے اور طے پائے ہوئے سمجھوتے پر عملدرآمد کو انتخابی نتائج تک ملتوی کر دیا جاتا ہے‘ کیونکہ یہ سمجھوتہ‘ کانگرسی حکومت کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ انتخابات میں شکست کھا جاتی ہے۔ اس لئے سمجھوتہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ بی جے پی‘ نریندر مودی کی قیادت میں بھاری اکثریت سے جیت جاتی ہے۔ انتخابی کامیابی کے بعد سابقہ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان کئے گئے سمجھوتے کو نظرانداز کرتے ہوئے اعلان کر دیتی ہے کہ وہ نیا مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔ اب اسی پر عمل ہو گا۔
''دھرنا گٹھ جوڑ‘‘ اپنے عوامی مینڈیٹ پر قائم نہ رہ سکا اور خود اسی کے اندر سے مختلف گروہ ‘ انتخابی میدان میں کودنے کی تیاری کرنے لگے۔ آج دھرنے والے بھی ایک ریاستی حکومت بنا کر بی جے پی سے ٹکر لے رہے ہیں اور کانگرس ‘ بی جے پی کو قانون سازی سے روکنے کے لئے زور لگاتی رہتی ہے‘ حالانکہ اس کے پاس زور لگانے کی طاقت موجود نہیں۔ دھرنے کی ایک برانچ کیچری وال کی قیادت میں انتخابی میدان میں اترتی ہے اور دلی کی ریاستی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ سب نے انتخابات میں حصہ لیا۔ کانگرس نے بھی۔ دھرنے کی برانچ‘ عام آدمی پارٹی نے بھی اور بی جے پی نے بھی‘ لیکن کسی ایک نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گئی ہے۔کیچری وال کی پارٹی فیصلہ کن اکثریت لے کر نہیں آ سکی تھی۔ اس نے ایک مخلوط حکومت بنا کر چلنے کی کوشش کی‘ لیکن وہ نہ چل سکی۔ جس پر کیچری وال نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا راستہ ہموارکر لیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بی جے پی نے بھاری اکثریت کے ساتھ مرکزی حکومت قائم کر لی تھی اورجماعتی نظام میں ایک چھوٹی سی ریاست کی پارٹی نے پورے ملک کے انتخابات جیتنے والوںکو چیلنج کر دیا۔کیاآپ یقین کریں گے کہ ایک چھوٹی سی پارٹی نے مرکزمیں حکومت کرنے والی مضبوط ترین پارٹی کو بھاری شکست دے دی؟ کیا یہاں ایسا ممکن تھا؟ بی جے پی کے پاس طاقت بھی تھی اور ریاستی اداروں کا کنٹرول بھی‘ لیکن کیچری وال کی چھوٹی سی پارٹی‘ بھاری اکثریت لے کر کامیاب ہو گئی۔ خدا لگتی کہیے! پاکستان میں یہی صورتحال ہوتی‘ تو کیا ہوتا؟ عام آدمی پارٹی کے ایک ایک امیدوار کو مجبور کر دیا جاتا کہ وہ حکمران پارٹی کے حق میں دست بردار ہو جائے۔ جو الیکشن لڑنے پر اصرار کرتا‘ وہ یا تو لاپتہ ہو جاتا یا حکمران جماعت کا ساتھی بن کر‘ اپنی پرانی پارٹی کی مخالفت شروع کر دیتا۔ ہمارے ہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ حکمران جماعت‘ ایک چھوٹی سی حزب اختلاف کے لئے انتخابات میں کامیابی کی ذرا سی بھی گنجائش چھوڑے۔
یہ تماشا ہم نے گزشتہ عام انتخابات میں دیکھا۔ حالانکہ حکمران پارٹی کے پاس اچھی خاصی اکثریت سے جیتنے کے مواقع موجود تھے‘ مگر وہ جمہوریت ہی کیا جو پاکستان میں حکمران جماعت کو انتخابات میں شکست دینے کا حوصلہ کر سکے۔اس زمانے کے چیف جسٹس آف پاکستان کو جسے درپردہ موجودہ حکمران جماعت نے اپنے منصب پر بحال کرایا تھا‘ اپنے مخالفین کے خلاف ننگی تلوار کی طرح استعمال کیا گیا اور وہ خدا کا بندہ بھی اپنے منصب کا مقام و مرتبہ بھول کر‘ ایک بلڈوزر کی طرح مخالف جماعتوں پر چڑھ دوڑا۔ سب سے پہلے اس نے انتخابی مشینری پر قبضہ کر کے‘ اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ چیف الیکشن کمشنر جو کہ ایک شریف اور بزرگ آدمی تھے‘ انہوں نے مزاحمت کرنے کی بجائے‘ کراچی جا کر گھر بیٹھنے کو ترجیح دی اور پھر ''جگے‘‘ نے وہ ہاتھ دکھائے کہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں چیخ اٹھیں کہ ان کے خلاف تو دھاندلی ہو گئی۔ سب نے یہ بات اپنے اپنے انداز میں کی‘ لیکن جس پارٹی کے ہاتھ جھونگے میں حکومت کا کوئی حصہ آیا‘ وہ اقتدار کی پلیٹ میں اپنا حصہ لے کربھول گئی کہ اس نے دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو حکومت ملی‘ تو وہ کولیشن بنا کر اقتدار میں حصے دار بن گئی۔ پنجاب میں ن لیگ نے ''جگے‘‘ کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لی اور بلوچستان میں ساری جماعتوں نے تھوڑا تھوڑا حصہ لے کر‘ اقتدار میں بھی بندربانٹ کر لی اور طے پایا کہ آدھا عرصہ ن لیگ حکومت کرے گی اور آدھا عرصہ بھان متی کا کنبہ۔
یقین کیجئے! ن لیگ کے سوا‘ ساری جماعتوں کو شکایت تھی کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گئی‘ لیکن جس جس کو اقتدار میں حصہ لینے کا موقع ملا‘ وہ اپنے حصے میں آنے والی مٹھائی پر قناعت کر کے بیٹھ گئی۔ دھاندلی کے سوال پر زبردست مناظرے اورمقابلے ہوئے۔ تحریک انصاف نے دھرنا دے کر‘ دھاندلی کے خلاف مہم چلائی۔ اس کی بھرپور عوامی طاقت کو دیکھتے ہوئے‘ حکومت نے خوفزدہ ہو کر‘ ریوڑیوں کا چھابہ لگا دیا۔ جس کی جتنی بساط تھی‘ اس سے بڑھ کر ‘ ان میں بانٹتی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ سب سے زیادہ ریوڑیاں ‘خورشید شاہ کے حصے میں آئیں اور وہ ریوڑیوں کے نشے میں اتنا دھت ہوئے کہ باقی ہر طرف کا خیال بھول گئے۔ اب ان کا تکیہ کلام ہو گیا ہے کہ ''میں حکومت نہیں جمہوریت بچا رہا ہوں۔‘‘ان کی اپنی پارٹی کے اچھے اچھے لیڈروں کو چُن چُن کر احتساب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور شاہ صاحب‘ جمہوریت کو بچا رہے ہیں۔
جمہوریت بچانے کے لئے شاہ صاحب نے اپنی پارٹی کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ وہ رینجرز کا سہارا لینا بھی برا نہیں سمجھتی۔ اس کے صوبائی وزیراعلیٰ قائم علی شاہ بڑی آہ و بکا کرتے ہیں کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں۔ کپتان مجھے بنایا گیا ہے اور حکم کسی اور کا چلتا ہے‘ لیکن شاہ جی کو اس کی پروا نہیں۔ وہ اپنی ریوڑیوں میں مست ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر‘ پکڑ کے جیل میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ صاحب اپنے دفتر میں بیٹھ کر حکم دینے کی بجائے‘ خورشید شاہ کے ساتھ خود جیل پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں بنفس نفیس احکامات جاری کرتے ہیں کہ قیدیوں کو اے کلاس دے کر‘ وزارتی درجہ دیا جائے۔ ظاہر ہے‘ شاہ جی بڑے دوراندیش ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ آگے چل کر انہیں بھی کسی وقت جیل میں وزارتی درجہ لینے کی ضرورت پڑے گی۔ ابھی میں نے پاکستانی جمہوریت کا صرف ایک سین‘ مختصر کر کے دکھایا ہے۔ اس وقت بلدیاتی جمہوریت کا باب کھلنے والا ہے۔ یہ انتخابات طویل مدت کے بعد ہو رہے ہیں اور اگر ن لیگ نے پولیس‘ پٹواری اور گلوبٹ کی مدد سے ‘ اپنے حق میں ووٹ ڈلوائے‘ تو یہ دھاندلی نہیں بے ضابطگی ہو گی۔ آپ دھاندلی کی ہزار شکایتیں کریں‘ ہماری عدلیہ‘ انتظامیہ اور حکومت کا ایک ہی جواب ہو گا کہ دھاندلی نہیں‘ بے ضابطگی ہوئی ہے اور ہماری جمہوریت میں بے ضابطگی جائز اور واجب ہے۔ میں ابھی بلدیاتی انتخابات تک آیا ہوں۔ نہیں جانتا کہ اس سے اگلے مراحل کیا ہوں گے‘ لیکن اگر لوگوں کو اغوا کر کے‘ ان سے ووٹ ڈلوائے گئے‘ تو خاطر جمع رکھیے‘ یہ صرف بے ضابطگی ہو گی۔