"NNC" (space) message & send to 7575

جغرافیہ اور نظریہ‘ دونوں کو خدا حافظ (آخری قسط)

''قرآنی تفصیل کے مطابق آدم کی تخلیق کے ذریعہ ایک ایسی ہستی کو وجود میں لانا مقصود تھا جو نیک و بد میں انتخاب کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔ جب خدا نے اپنا یہ ارادہ فرشتوں پر ظاہر کیا تو انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ایسی ہستی تو فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ خدا کا جواب تھا کہ جو وہ جانتا ہے اس کا علم فرشتوں کو نہیں۔ یعنی آدم کو کیا کچھ دیا جانے والا ہے اور اس کے کیا کچھ بننے کے امکانات ہیں۔ چنانچہ جب آدم اور حوا کی تخلیق ہو چکی تو انہیں حکم دیا گیاکہ فلاں درخت کا پھل نہیں کھانا۔ یہ محض ایک امتحان تھا جس کے ذریعہ یہ معلوم کرنا مقصود تھا کہ آدم اور حوا جنہیں اختیار دیا گیا ہے: خدا کا حکم مانتے ہیں یا نافرمانی کرتے ہیں‘ دونوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی۔ بقول اقبال‘ آدم اور حوا کی نافرمانی ان دونوں کا پہلا ایسا فعل تھا جس میں انہوں نے اختیار انتخاب کا حق استعمال کیا اور خدا سے معافی مانگی جو قبول ہوئی۔ چونکہ انسان اختیار انتخاب کے امتحان سے گزر چکا تھا‘ اس لئے خدا نے اسے بلند مقام سے نچلے مقام پر آباد ہونے کی تلقین کی تاکہ وہ اپنی زندگی خدا کے عطا کردہ علم کے مطابق‘ اپنی قوت ارادہ کے بل بوتے پر اور نیکی و بدی کے معاملے میں اختیار و انتخاب کے حق کو استعمال کرنے کی ذمہ داری کے ساتھ گزار سکے۔ اقبال کے خیال میں روح ارضی توقع رکھتی ہے کہ انسان انکشاف ذات کے عمل کو جاری رکھے گا‘ کیونکہ اس کے وجود میں لائے جانے کا مدعا ہی اس کی خودی کی نمود ہے۔
کیا حیات کی ارتقاء کا عمل ارض پر ہوا؟ یا آدم و حوا کو جنت سے ارض پر اتارا گیا؟ یا انسان دراصل روح ہے نہ جسم بلکہ خدا کے بے شمار افعال میں سے ایک ایسا ''فعل‘‘ ہے جس نے انفرادی طور پر ''شعور‘‘ حاصل کر لیا؟ ان تینوں صورتوں میں سے ''عقل وجدانی‘‘ خواہ کوئی ایک بھی قبول کرے‘ انسان اپنی صلاحیتوں اور اپنے گردونواح کی قوتوں یا وسائل کے ذریعہ کائنات کی تقدیر متشکل کر سکتا ہے؛چونکہ وہ ایک بہتر اور خوب تر عالم کا تصور کر سکتا ہے‘ اس لئے موجود کو مطلوب میں بدلنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔
اگر انسان کے تخلیقی عمل کو ہم اقبال جیسی اہمیت دیں تو گناہ و ثواب‘ بدی اور نیکی سب تخلیقی عمل کی کسوٹی پر پرکھے جا سکتے ہیں۔ بقول اقبال گناہ کی ایک اپنی تخلیقی اہمیت ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک گناہ بھی اگر تخلیقی نوعیت کا ہو تو ثواب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ گناہ کے تجربے سے گزرنے والے کو نہ صرف ثواب کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے بلکہ خدا کی صفات میں غفور الرحیم کی صفت کی وسعت کا پتہ بھی چلتا ہے۔ اقبال کی طرح جرمن فلسفی شاعر گوئٹے بھی خیر کے ارتقاء کے لئے شر کا وجود ضروری سمجھتا ہے۔ صوفیہ کے فرقہ مرجیہ کے نزدیک عمل میں کوتاہی یا احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے باوجود اگر کوئی انسان نیک نیتی سے اور خوف الٰہی کی کیفیت میں مغفرت اور اللہ تعالیٰ کی بخشش پر امید رکھے تو خدا اس کا ہر گناہ معاف کرتا چلا جائے گا۔
کیا قیامت سے مراد کسی مخصوص وقت (جس کا علم صرف خدا کو ہے) پر صرف ہمارے نظام شمسی کی تحلیل ہے یا ساری کی ساری کائنات یا کائناتیں لپیٹ دی جائیں گی؟ قرآن مجید سے تو یہی ظاہر ہے کہ قیامت سے مراد سب کائناتوں کا بیک وقت تہہ و بالا ہونا ہے اور سائنسی مفروضوں کے مطابق ایسا عین ممکن ہے۔ انسان کے جسمانی ''جواہر‘‘ کی مخصوص ترتیب کو یکجا کر کے اسے دوبارہ زندہ کیا جانا بھی ممکن ہے۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں حساب کتاب کے بعد اس کے اعمال کی بنا پر انسان کو جنت یا دوزخ ملے گی۔ اس مسئلے پر کانٹ جیسے فلسفی بھی اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی موت کے بعد اعمال کی بنا پر اسے سزا و جزا کا ملنا ایک اہم اخلاقی ضرورت ہے۔ پس فلسفہ اور الٰہیات دونوں کے مطابق اس مقصد کے لئے حیات بعد الممات لازمی ہے؛ البتہ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا انسان کی مختصر ارضی زندگی میں برے اعمال کی سزا اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں پڑے رہنے کی صورت میں ملے گی۔ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ مقامات نہیں بلکہ احوال یا کیفیات ہیں۔ دوزخ کی کیفیت دراصل اصلاحی ہے۔ گویا اس کیفیت میں کسی کو ڈالنے کا مقصد اس کی اصلاح کرنا ہے اور یہ کیفیت دائمی نہیں۔ قرآن مجید میں بھی ایسے اشارے ملتے ہیں کہ دوزخ مستقل عذاب یا اذیت کا کوئی گڑھا نہیں۔ اقبال کے خیال میں تو جنت بھی مستقل عشرت کدہ یا مسلسل عیش و آرام کا کوئی مقام نہیں بلکہ انسان موت کے بعد اگر چاہے تو حیات کا تسلسل ختم کر کے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو سکتا ہے۔ ایسی روحانی خود کشی کا اسے اختیار ہے۔ مطلب یہ کہ موت کے بعد مستقل حیات انسان کا حق نہیں بلکہ وہ صرف اس کا امیدوار ہے۔ خدا چاہے تو یہ انعام اسے ملے گا۔
قیامت یا حساب کتاب (اکائونٹی بیلیٹی) کے بعد جب انسان کے دوزخ میں جھونکے جانے یا جنت میں داخل ہونے کا عمل ختم ہو جائے گا‘ تو پھر کیا ہو گا؟ اس معاملے میں خدا کی منشا کے بارے میں کسی قسم کی قیاس آرائی کر سکنا تو ممکن نہیں؛ البتہ قرآن مجید میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ خدا اگر چاہے تو موجودہ کائناتوں کے ملبے سے نئی کائناتیں تشکیل دے سکتا ہے۔ حیات کی نئی شکلیں وجود میں لا سکتا ہے۔ خیروشر میں انتخاب کا اختیار کسی ایسے نئے پیکر کو دے سکتا ہے جو انسان کی جگہ لے گا اور بالآخر ان نئی کائناتوں کو کسی نئی قیامت کے دن غارت کر کے‘ نئے پیکر کے حساب کتاب کے بعد اسے جنت و دوزخ کا وارث بنا سکتا ہے۔ مگر اس سوچ میں ایک الجھن ہے کہ یوں تو ازل سے ابد تک ایسے دوری سلسلے کے جاری رہنے کا امکان ہے جو ایک آہنی جبر کے ماتحت ہو گا۔ بہرحال ہر قسم کے آہنی جبر پر اختیار تو خدا ہی کا ہے۔ جبر کا تصور انسانی ہے۔ خدا تو ''جابر‘‘ ہے‘ بلکہ بااختیار جابر۔
انتہائی بلند اخلاقی مقام حاصل کر لینے کی پیش گوئی کے متعلق میری سوچ یہ ہے کہ آج تک دنیا میں ''حق‘‘ کی ایسی کوئی تعریف وجود میں نہیں لائی جا سکی جو سب انسانوں کے لئے قابل قبول ہو۔ تاریخ عالم میں جتنی قتل و غارت خدا کے نام پر ہوئی اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔ مگر اس کے باوجود ہر مذہب نسل انسانی کی بنیادی وحدت اور انسانیت کی خدمت کی تعلیم دیتا ہے۔ جب ''حق‘‘ کے وجود یا عمل کے بارے میں سوچیں مختلف ہوں تو اولوالالباب (قرآنی اصطلاح کے مطابق ایسے دانشور جو کائنات اور حیات کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کر کے اس نتیجہ پر پہنچے ہوں کہ خدا نے سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا) کے لئے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے انسانیت ہی کی فلاح و بہبود کے لئے سوچیں‘ کیونکہ یہی اخلاقیات کی معراج ہے۔
کرہ ارض پر سب کو اکٹھے رہنا ہے مگر اس سیارے کے وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ تاریخ عالم اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اگر کوشش بھی کریں تو انسان ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتے۔ البتہ ایک دوسرے کو ایذا پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ سب اپنے آپ میں وسیع النظری کی صفت کو فروغ دیں‘ قوت برداشت پیدا کریں‘ اختلاف رائے کو رحمت کی بجائے زحمت نہ بنائیں‘ ایک دوسرے کے غم اور خوشیاں بانٹیں اور آپس میں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے کی عادت ڈالیں۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ ہمارے بعد ہمارے بچے ایسے سیارے کے وارث نہ بنیں جو طمع‘ نفرت اور تشدد کے سبب ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہو اور جس میں بودوباش کے لئے گردونواح تنگ سے تنگ ہوتے چلے جائیں۔ بلکہ ایسے مواقع پیدا کرنے کی خاطر جدوجہد کرنی چاہیے کہ ہم باہمی فلاح کے لئے علم و حکمت کی سرحدوں کو آگے دھکیلتے جائیں۔ تکنیکی ترقی کی تیز رفتاری‘ سکڑتے فاصلوں‘ ابلاغ کے فوری رابطوں اور کھلی سرحدوں کے ذریعہ ایسا ممکن ہے کہ انسان ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور بہتری کی خاطر ایک دوسرے کی زندگیوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ انسانیت کی بقا کا انحصار انسان کی اخلاقی جہت کی نشوونما پر ہے‘ بلکہ ہر مذہب اور تمدن کی عملی کوشش بھی یہی ہے کہ انسان اپنی شخصیت کے اخلاقی پہلو کا اظہار جب اور جہاں بھی موقع ملے کرتا رہے۔ پس ظاہر ہے انسانی یکجہتی کا آئیڈیل اجتماعی اخلاقی عمل یا اخلاقیات پر مبنی ایک نئے معاشی اور معاشرتی نظام کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ کوتو کئی ملحداور لامذہب لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ برٹرینڈ رسل جیسی شخصیات عمربھر نیک نیتی سے اس پر عمل بھی کرتی رہی ہیں۔
قرآن مجید کی سورۃ المائدہ: آیت48 میں ہر انسان جس کا کوئی مذہب ہو‘ کو دوسرے سے نیک کاموں میں سبقت لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ المائدہ: آیت 69 اور سورۃ البقرۃ: 62 میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ مسلمانوں‘ یہودیوں‘ مسیحیوں اور صائبین (ایسے لوگ جو خدا اور روز حساب پر ایمان رکھتے ہوں اور جن کے اعمال صالح ہوں) کو بخش دیا جائے گا۔ میں بذات خود علامہ اقبال کے اس خیال کا حامی ہوں کہ ہر مذہب کے اعلیٰ مدارج میں ''ارفع مذہب‘‘ کا تصور موجود ہے‘ جو اس مذہب کے عقیدے‘ اس کی عبادات اور اس کے ظاہری ضوابط سے بلند تر ہے اور مستقبل میں اسی ''ارفع مذہب‘‘ کے تصور کو اپنانے سے انسان اپنے مذہب سے وابستہ رہتے ہوئے دوسرے انسانوں کے مذاہب کا احترام کر سکتا ہے۔ پس مستقبل میں انسانیت کی بقا کا انحصار اتحاد آدم اور ''ارفع مذہب‘‘ کے تصور کو اپنانے ہی سے ممکن ہے۔
ابتداً میں نے یہ بات تحریر کرنا اس لئے ضروری خیال کیا کہ میں ثابت کرنا چاہتا تھا کہ راجہ نریندر ناتھ کی پیش گوئی ‘ کہ میری روح بڑھاپے میں انتہائی بلند روحانی مقام حاصل کر لے گی‘ کی بنیاد روح اور مادہ کی علیحدگی کے تصور پر استوار کی گئی ہے‘ جب کہ یہ سوچ اب مقبول نہیں رہی۔ میں خود بھی عقلی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ روح ہی حیات و کائنات کا سرچشمہ ہے۔ لیکن اگر روح کے انتہائی بلند مقام حاصل کرنے سے ان کی مراد انسان کا خدا کی ذات میں فنا ہو جانا ہے تو اس قسم کا وصال وحدت وجود پر ایمان کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کا میں قائل نہیں کیونکہ ایسا استغراق نفی ذات کا طلبگار ہے جس کے لئے میںفی الحال تیار نہیں۔ بلکہ شاید کبھی بھی تیار نہ ہوں گا کیونکہ اثبات ذات کا عقیدہ مجھے ورثہ میں ملا ہے۔ جب اس باب کے چند صفحے لکھ چکا تو موضوع کی پیچیدگی کے سبب بعض عقلی مشکلات میں پھنس گیا اور ارادہ کیا کہ ان صفحوں کو پھاڑ ڈالوں۔ لیکن کچھ ایسی صورت پیدا ہوئی کہ باب مجھے لکھتے چلے جانے پر مجبور کر رہا تھا اور میں بے اختیار لکھتا چلا گیا۔ پس کوئی یقین کرے یا نہ کرے‘ اس اعتبار سے یہ باب میں نے تحریر نہیں کیا بلکہ باب نے بجائے خود مجھ سے لکھوایا ہے۔ بہرحال باب کسی عرفانی سکر کے عالم میں تحریر نہیں کیا گیا‘ اگرچہ اس کے مستند ہونے کے بارے میں‘ میں کوئی منطقی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘(ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں