عمران خان کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے ۔ پاکستان کے سارے سیاستدان ایک طرف کھڑے ہیں اور عمران خان اکیلا ان سب کا مقابلہ کر رہا ہے۔ پھر بھی اس مقابلے میں عمران خان چھایا ہوا ہے۔ ایسی قسمت لے کر بہت کم لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔مجھے ایک کہانی یاد ہے کہ ایک بڑا قدآور شخص ‘ چھوٹے چھوٹے بونوں کے دیس میں جا نکلتا ہے۔ بونوں کی پوری قوم اس پر حملہ آور ہوتی ہے۔ وہ اتفاق سے ٹھوکر کھا کے گر جاتا ہے‘ تو ہزاروں بونے اس پر چڑھ جاتے ہیں۔ اپنے اپنے نیزے بھالے لے کر‘ اسے زخم لگاتے ہیں ۔ وہ آرام سے ان کی قاتلانہ جدوجہد دیکھ کر مسکراتا رہتا ہے۔ جب سارے بونے تھک ہانپ کر گر جاتے ہیں‘ تو وہ کھڑا ہو کے‘ دونوں پائوں ایک ایک بار زمین پہ مارتا ہے اور بونوں کی پوری قوم ‘جو نڈھال ہو چکی تھی‘ زمین پہ گر جاتی ہے اور وہ اپنے سفر پہ چل نکلتا ہے۔ یہ باتصویر قصہ حسن نثار نے ‘اپنے ایک جریدے کے سرورق پر شائع کیا تھا۔ اس وقت موضوع ذوالفقار علی بھٹو تھے اور بونے وہ تمام سیاستدان ‘ جو بھٹو کو سیاسی طور پر ختم کرنے میں لگے تھے۔ مگر وہ بھٹو کو ختم نہ کر سکے۔ بدبختوں اور نامرادوں نے ضیاالحق کے ہاتھوں‘ فوج کی طاقت سے بھٹو کو پھانسی لگوا دیا۔ مگر وہ آج بھی ختم نہیں ہو رہا۔ آصف زرداری سے پیپلزپارٹی کی جان چھوٹ جائے اور بھٹو کا نواسہ میدان میں نکلے‘ تو ایک وہی ہے‘ جو عمران خان کے سامنے سیاسی طاقت کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن عمران خان بھی اتنا بھولا نہیں۔ اس نے ابھی سے آصف زرداری کا نام لے کر‘ اسے حوصلہ دینا شروع کر دیا ہے کہ ''تم بڑے لیڈر ہو۔ کھڑے رہو۔‘‘ زرداری صاحب ‘ بلاول کے راستے میںکھڑے رہیں گے اور عمران خان دندناتا ہوا‘ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے گا۔ اسی میں عوام کا فائدہ ہے۔ کرپشن کے سمندر میں اگر کوئی ایماندار ہے‘ تو اس میں طاقت نہیں اور جس میں طاقت ہے‘ وہ ایماندار نہیں۔ عمران کو خدا نے عوامی تائید اور حمایت کی طاقت بھی دی ہے اور ایمانداری بھی۔ سارے چوروں کے بونے‘ نیزے بھالے ‘لے کر عمران خان پر جتنی چاہیں یلغاریں کرتے رہیں‘ نہ وہ اس کا قد چھوٹا کر سکتے ہیں اور نہ اس کی سیاسی طاقت میں کمی لا سکتے ہیں۔
حکمرانوں کی بدحواسی تو ان کی حرکتوں میں دکھائی دے رہی ہے۔ سارے وزیر اور سارے مشیر‘ سرکاری کام چھوڑ کر صرف ایک کام پر لگے ہیں اور وہ ہے لاہور شہر کا حلقہ نمبر 122۔اگر حکمرانوں کے اعصاب مضبوط ہوتے ‘تو قومی اسمبلی کی 342نشستوں میں سے صرف ایک نشست کی جیت ہار کو زندگی موت کا مسئلہ نہ بناتے۔ وہ اس معاملے کو لاہور شہر کی پارٹی تنظیم پر چھوڑ دیتے۔ بلکہ میں تو کہوں گا محلے کی تنظیم کے حوالے کر دیتے۔ وہاں سے جو بھی جیت کر آتا‘ وہ حکمران پارٹی کا حامی ہوتا اور اگر ناکام رہتا‘ تو شکست محلے کی پارٹی کو ہوتی۔ بات وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک نہ جاتی۔ مگر جب حکمران‘ مشیروں کے جھرمٹ میں گھر جائیں‘ تو پھر وہ ‘اپنی عقل و فہم سے کام لینا
بھول جاتے ہیں۔ خوشامد پسندی ایسی نشہ آور چیز ہے کہ انسان اپنی عقل و فہم کو خیرباد کہہ دیتاہے۔ خوشامدی‘ اپنی اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے ‘چھوٹے سے الیکشن کو جنگ میں بدل دیتے ہیں۔ ایک کہتا ہے ''سر! عمران خان آپ کو للکار رہا ہے۔ اگر وہ جیت گیا‘ تو آپ کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ کا وزیراعظم رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ لیڈرصاحب کا فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ عمران کی ایسی تیسی کر دو۔وہ میری جگہ وزیراعظم بننا چاہتا ہے؟ اسے حلقہ نمبر 122 سے ہی کچل کر پھینک دو۔ وہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ یہ حکم جاری ہوتے ہی چمچوں‘ کڑچھوں‘ ڈوئیوں‘ کانٹوں‘ مدہانیوں‘ گھوٹنیوں‘ چھریوں اور فیڈروں کا جشن ہو جاتا ہے۔ جس کے بس میں جو ہوتا ہے‘ وہ اپنے مالک کو دکھا کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ''جو کچھ میں کر رہا ہوں‘ عمران کو اسی سے تکلیف پہنچے گی۔‘‘ لاہور شہر کے ضمنی الیکشن سے پہلے‘ جتنے وزیر بڑے محترم اور معزز دکھائی دے رہے تھے‘ عمران خان کے خلاف ‘خدمات انجام دینے کے لئے منظرعام پر آئے‘ تو سب کے سب بونے دکھائی دینے لگے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں ایک پیپرپن تھی‘ جو اسے برچھا سمجھ کے عمران پر چلا کے‘ یہ سوچ رہا تھا کہ زخم کھانے کے بعد عمران کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ لیکن عمران‘ پیپرپنوں کے زخموں سے کہاں گرتا ہے؟ مجھے پرانے منظر یاد آ رہے ہیں۔ یہی کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ سارا نیشنل پریس ٹرسٹ‘ ہر ریڈیوسٹیشن‘ پی ٹی وی کا واحد چینل‘ ہر طرف بھٹو کی کردار کشی ہوا کرتی تھی۔ آج کل تو عمران بھی‘ کسی کسی ٹی وی پر دکھائی دے جاتے ہیں۔ اخباروں میں بھی ان کی خبریں چھپ جاتی ہیں۔ بھٹو کا تو کہیں نام نہیں آتا تھا۔ جہاں آتا تھا‘ گالیوں کے ساتھ آتا تھا۔ہم لوگ بہت پریشان تھے۔صرف ایک حنیف رامے کا ہفتہ روزہ ''نصرت‘‘ تھا‘ جس میں ہم اپنا مدعا بیان کرتے اور 70ء میں ہفت روزہ ''شہاب‘‘ شروع ہوا۔ جس کا ایڈیٹر میں تھا۔ آج کل کے قارئین کو شاید اندازہ نہ ہو کہ جب عوام کے جذبات کچھ اور ہوں اور میڈیا اس کے برعکس مواد شائع کر رہا ہو‘ تو معلومات کی اتنی گہری تاریکی میں ‘جب ایک نیوز ویکلی منظر عام پر آئے‘ تو اس کی پذیرائی کیسے ہوتی ہے؟ جن لوگوں نے وہ زمانے دیکھے ہیں‘ انہیں یاد ہو گا کہ ہر شہر میں لوگ ''شہاب‘‘ کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ''شہاب‘‘ کی قیمت غالباً 2روپے ہوا کرتی تھی۔ لیکن لوگ اسے 10روپے میں بھی خریدا کرتے۔ جس شہر میں ''شہاب‘‘جاتا‘ اس کے بنڈل کھلتے ہی خریدار‘ دھڑادھڑ اسے لے جاتے۔ یہ ہوتی ہے عوامی طاقت۔ سارا سرکاری میڈیا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ایک ویکلی ''شہاب‘‘ نے سب کی پسلیاں کھڑکا کے رکھ دیں۔ عمران کو چاہیے کہ عام انتخابات سے 2مہینے پہلے‘ اپنی پارٹی کا اخبار شروع کر دے۔ اس کے بعد تماشا دیکھے کہ سرکار کی چمچہ گیری کرنے والا سارا میڈیا‘ ایک طرف اور وہ اکیلا اخبار گلی گلی۔
جو کردار کشی ذوالفقار علی بھٹو کی ہوئی تھی‘ عمران کی کردار کشی کرنے والے تو‘ اس کا عشرعشیر بھی نہیں کر پا رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ایک واضح موقف اور پوزیشن لے کر لکھنے اور بولنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ اگر آپ جھوٹ سننے کے شوقین ہیں‘ تو ٹی وی کے ہر اس پروگرام کو ضروردیکھئے‘ جس کے پرومو میں سچ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ بہت کم ٹاک شو ایسے ہیں‘ جو سچ کا دعویٰ نہ کرتے ہوں اور ان میں بہت کم ایسے ہیں‘ جو جھوٹ نہ بولتے ہوں۔
میاں صاحبان سے میری دیرینہ نیاز مندی ہے۔شہبازشریف کے سامنے میں جو کھری کھری سنا دیا کرتا تھا‘ وہ اس پر خاص توجہ دیا کرتے۔ جو بات پسند آتی‘ اس کی تائید کرتے۔ جو ناپسند ہوتی‘ اسے رد کر دیتے۔اب مجھ سے برسوں میں ‘جو مختصر سی ملاقات ہوتی ہے‘ اس میں وہ مجھے پہلے جیسے لگتے ہیں۔ لیکن باقی جتنے لوگ ان کے درباری بن چکے ہیں‘ ان کے درمیان سچ کا گزر کم کم ہی ہوتا ہے اور رہ گئے میاں نوازشریف‘ تو ان سے زیادہ صبر کے ساتھ دوسروں کا موقف سننے والا لیڈر‘شاید ہی کوئی ہو۔ یہ اس وقت کی بات ہے‘ جب انہیںوزارت عظمیٰ سے نکالا نہیں گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی انسانی پسند ناپسند کے معیار بدل گئے ہیں۔ اگر لاہور کا بائی الیکشن 1998ء کے نوازشریف کے دور میں ہوتا‘ تو وہ شہر کے چند پارٹی کارکنوں کے سپرد کر کے‘ آرام سے بیٹھ جاتے۔ نہ انہیں جیت کی فکر ہوتی‘ نہ ہار کی۔ آج نوازشریف کا کیا حال ہے؟ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی مضبوط اعصاب کے نوازشریف ہیں۔ اقتدار انسان کو کتنا کمزور کر دیتا ہے؟ میاں صاحب ‘ جن لوگوں کی خوشامدوں پر بھروسہ کر رہے ہیں‘ ایسے خوشامدی تو ایوب خان کو بھی لے ڈوبے تھے۔ بہرحال مجھے میاں صاحب کو یہ خبر سناتے ہوئے رنج ہو رہا ہے کہ جس الیکشن پر ‘انہوں نے اپنی ساکھ دائو پر لگا رکھی ہے‘ اس کی جیت ہار سے انہیں کوئی فرق نہ پڑتا۔ مگر اب ضرور پڑے گا۔ عمران ‘جیت ہار سے آزاد ہو کے‘ انتخابی میدان میں اترا ہے۔ وہ جیت گیا‘ تو میاں صاحب نے خود ہی میدان میں اتر کے‘ اسے اپنے لئے امتحان بنا لیا ہے اور عمران ہار گیا‘ تو اس پر عوامی تائید و حمایت کے ‘نئے نئے دروازے کھل جائیں گے۔ عمران‘ عوام کے سمندر میں اتر جائے گا اور سرکاری میڈیا پر چھائے ہوئے سارے چمچے‘ کڑچھے‘ ڈوئیاں‘ کانٹے‘ مدھانیاں‘ گھوٹنیاں‘ چھریاں اور فیڈر‘ زینت ِطاق ِنسیاں ہو جائیں گے۔ آپ ایوب خان سے لے کر‘ پرویزمشرف تک‘ سب کے وزرائے اطلاعات و نشریات کو یاد کریں اور پھر جائزہ لیں کہ دور اقتدار میں وہ میڈیا پر کیسے چھائے ہوئے تھے اور آج ان میں سے کس کا نام لوگوں کو یاد ہے؟ صرف ایک نام تاریخ میں رہ گیا ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہے اور جو دوسرا نام تاریخ میں جگہ بناتا دکھائی دے رہا ہے‘ وہ عمران خان ہے۔