ضروری نہیں کہ انسان سمجھ کے مطابق جنت کے راستے پر چلے اور اپنی منزل پا لے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جسے انسان جنت کا راستہ سمجھ رہا ہو‘ وہ اسے دوزخ میں لے جائے اور جس راستے سے اسے ڈر ہو کہ یہ دوزخ کی طرف جا رہا ہے‘ وہ اسے جنت تک پہنچا دے۔مرضی اور خواہش کسی کی نہیں چلتی۔ انسان کرتا کچھ ہے اور پاتا کچھ ہے۔ خصوصاً گزشتہ 35سال سے پاکستان کو جو سیاستدان مل رہے ہیں‘ ان میں سے بیشتر کا حال یہی ہے۔ کسی کی نیت نہیں ہوتی کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرے۔ اکثریت اپنی ذات اور خاندان کی بہتری کے منصوبے بناتی ہے اور عوام کی قسمت انہیں بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ مثلاً مذکورہ دور میں ہمارے کسی بھی سیاستدان نے انتخابی قواعد و ضوابط‘ یہ سوچ کر مرتب نہیں کئے کہ ان کے نتیجے میں صاف ستھرے اور شفاف انتخابات ہو جائیں۔ کم و بیش سب کی نیت یہی رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نتائج کیسے حاصل کر یں؟ 1970ء کے انتخابات کے بارے میں بیشتر لوگ ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ وہ غیرجانبداری سے کرائے گئے تھے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یحییٰ خان اور اس کے ساتھی حکمران ٹولے نے‘ خوب سوچ سمجھ کرانتخابات کا منصوبہ بنایا تھا۔ مشرقی پاکستان میں انہوں نے مولانا بھاشانی کو اپنے کام کا آدمی سمجھ کر‘ کامیاب کرانے کی منصوبہ بندی کی تھی اور مغربی پاکستان میں قیوم لیگ کو ترپ کا پتہ بناکر یہ سوچا تھا کہ یہاں مختلف جماعتیں تھوڑی تھوڑی نشستیں لے کر آئیں گی اور اس کے بعد ہم قیوم خان کی سربراہی میں ایک متحدہ محاذ بنا کر پورے ملک میں مرضی کی حکومت قائم کر کے‘ مجیب کو اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کر دیں گے۔ لیکن یحییٰ ٹولے کی ایک نہ چل پائی۔ ادھر عین وقت پر مولانا بھاشانی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے‘ شیخ مجیب کا راستہ صاف کر دیا اور معاملات حکمران ٹولے کے اختیار سے باہر ہو گئے۔ اس کے باوجود کوشش نہیں چھوڑی گئی۔ حکمران ٹولے کے ایک سینئر رکن‘ نوابزادہ شیرعلی خاں نے‘ ساتھیوں کو باور کرا دیا تھا کہ جماعت اسلامی اور اس کی اتحادی جماعتیں‘کافی تعداد میں نشستیں جیت لیں گی اور مغربی پاکستان میں قیوم خان کی سربراہی میں بنے ہوئے متحدہ محاذ کو ساتھ ملا کر حکومت بنا لی جائے گی۔
انتخابی عمل شروع ہوا‘ تومعاملات حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کے اختیار سے باہر ہو گئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی طوفانی لہر چلی ‘ جس میں حکمران ٹولے کے سارے حاشیہ بردار ‘تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک نشست تک نصیب نہ ہوئی۔ صرف نورالامین کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے ووٹروں کو اجازت دی گئی کہ وہ انہیں کامیاب کرائیں اور حکمران فوجی ٹولے نے بیہودہ سا جوڑتوڑ کر کے‘ انہی کو وزیراعظم بنا دیا اور بھٹو صاحب کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر اقوام متحدہ میں بھیج دیا۔ ایک اسی فیصلے سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حکمران جنرلوں کی اصل نیت کیا تھی؟ انتخابات میں اپنی پسند کے سیاستدانوں کو منتخب کرا کے ‘وہ جو کھیل کھیلنا چاہتے تھے‘ حالات نے انہیں اس کے قابل ہی نہ چھوڑا۔ اس کے باوجود وہ سازش سے باز نہیں آئے اور انتخابی نتائج کے برعکس ''ملکی سلامتی اور استحکام‘‘کے لئے حکومت سازی کردی اور پاکستانی عوام کو ان کے وطن سے محروم کر کے‘ ہماری بہادر اور محب وطن فوج کو دشمن کے نرغے میں دے کر قیدی بنوا دیا۔ یہ انتخابات‘ حکمرانوں نے صاف اور شفاف نہیں کرائے تھے۔ عوامی طوفان نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر‘ انتخابی نتائج مرضی کے مطابق حاصل کئے۔ حکمران جنرلوں نے اپنے لئے ملک کی حکمرانی کا راستہ چنا تھا‘ قدرت نے انہیں قیدی بنا دیا۔ مشرقی پاکستان میں گھیرے کے اندر آئے ہوئے فوجی ‘اپنے کمانڈروں کی نالائقی اور جہالت کے باعث قیدی بنے اور حکمرانی کے خواب دیکھنے والا یحییٰ خان ‘باقی زندگی قید میں گزار کے مر گیا۔
1977ء کے بعد ضیاالحق کی آمریت میں جو سیاسی فصل پروان چڑھی‘ اس کا قوم پرستی اور حب الوطنی سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ جنرل ضیاکی منزل بھی اقتدار تھا‘ جس کی خاطر اس نے امریکہ کی حاشیہ برداری کر کے‘ ملک کو انارکی کے راستے پر ڈال دیا۔ جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ضیا اور اس کے بعد مشرف نے‘ اپنے اپنے اقتدار کے لئے جو نام نہاد جمہوریت مسلط کی‘ ہم ابھی تک اسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آج وفاق اور صوبوں میں ایک ہی طرح کے سیاستدان اقتدار پر قابض ہیں اور اپنے اپنے انداز میں‘ اقتدار کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ سارے چیف منسٹرز ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے صوبے میں اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے ‘معاشرے کے طاقتور افراد اور گروہوں کے ساتھ سمجھوتے کر کے‘ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہا ہے۔ ہر ایک دولت اور چالاکی سے عوام کو دھوکہ دینے میں مصروف ہے۔ ہم جس کی طرف بھی امیدبھری نظروں سے دیکھتے ہیں‘ اندر سے جام صادق علی نکلتا ہے۔ ہم جسے رضاربانی سمجھ کر اچھی توقعات کے ساتھ دیکھتے ہیں‘ وہ دلوں کے بھید جاننے والا شعبدہ باز نکلتاہے۔ آپ نے دنیا کے کسی بھی ملک میں‘ قانون کی تشریح اور نفاذ کرتے ہوئے ‘ دلوں کا حال جاننے والے قانون دان دیکھے ہیں؟ لیکن ہمارے چیئرمین سینیٹ نے ‘مستعفی اراکین کوحکومت وقت کی ضرورت کے مطابق ‘دوبارہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کی اجازت دیتے ہوئے دلیل یہ پیش کی کہ مستعفی اراکین نے‘ اپنی رضامندی اور خواہش کے تحت استعفے نہیں دیئے‘ ان میں سے اکثر کو دبائو میں آ کر استعفے دینا پڑے۔ گویا استعفے دیتے وقت یہ فیصلہ ان کی خواہش کے تحت نہیں تھا۔ قانون کی ایسی تشریح صرف ہمارے ہی ملک میں ممکن ہے۔ یہاں فوجی اور غیرفوجی حکومتوں نے جتنے بھی انتخابات کرائے‘ ان سب کا مقصد برسراقتدار ٹولے کی مرضی و منشا کے مطابق نتائج حاصل کرنا تھا۔ ضیاالحق تو بظاہر مذہبی شخصیت دکھائی دیتا تھا اور اس نے ملائوں کو طاقت دے کر اپنا دست و بازو بنایا۔ پرویزمشرف کہاں کا مومن تھا؟ جس نے
مولویوں کو منتخب اداروںمیں لا کر‘ پارلیمانی طاقت بنا کے اپنا کام چلایا۔لاہوری جمہوریت بھی جرنیلی جمہوریت سے مختلف نہیں۔ تخت لاہور کے قابضین کے نزدیک جمہوریت صرف وہ ہے‘ جس میں ان کے اپنے لوگ منتخب ہوں۔ 2013ء میں جب پنکچروںوالی جمہوریت نافذ کی گئی‘ تو ایک سر پھرا دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے حکومت کا تخت پر بیٹھنا مشکل بنا دیا۔ اڑھائی سال تک اس نے ‘اتنی بے چینی پھیلائی کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے سارے حلیفوں اور حریفوں کواکٹھے ہو کراپنا تحفظ کرنے پر مجبور کر دیا۔ قانون اور انصاف سے جہاں بھی کام لیا جا سکتا تھا‘ اس نے لیا اور آخر کار قومی اسمبلی کی جن چار نشستوں کی آزمائشی چھان پھٹک پر عمران نے ضد لگا رکھی تھی‘ ان میں سے تین کے راز تو کھل گئے اور چوتھا اپنی جان بچاتا پھر رہا ہے۔ اس کے بھی تھیلے کھلے‘ تو اندر سے وہی کچھ نکلے گا‘ جو پہلے تین حلقوں سے نکل چکا ہے۔ اس تجربے سے جو اخلاقی قوت حاصل ہوئی‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان نے رائج الوقت نظام کے اندر جتنا انصاف ممکن تھا‘ آخر کار وہ لے ہی لیا۔ ضمنی انتخابات کی نگرانی کے لئے فوج کی مدد حاصل کر لی اور پولنگ سٹیشنز سے لے کر ‘ووٹوں کی آخری گنتی تک‘ فوج کی نگرانی برقرار رہی۔ انتخابی عمل کے ان مراحل کے دوران دھاندلی کے راستے بند تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ووٹر کے پولنگ سٹیشن تک آنے سے پہلے‘ دھاندلی کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ یہ صرف ایک مرحلے کی شفافیت تھی۔ لیکن اس تجربے کے بعد یقینی طور پر ‘عوام اور میڈیا کا دبائو شروع ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو شفاف انتخابات کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ لیکن انتخابی عمل میں یہ شفافیت کسی کی نیک نیتی کی وجہ سے شروع نہیں ہوئی۔ یہ دو انائوں کا ٹکرائو تھا‘ جن میں سے ایک وزیراعظم ہے اور دوسرا وزارت عظمیٰ کا امیدوار۔ ان دونوں کے ٹکرائو میں انتخابی عمل کا ایک مرحلہ‘ بہرطور شفاف ہو گیا ہے۔ لیکن دھاندلی کے ان گنت طریقے باقی ہیں۔ اگر سیاستدانوں نے جمہوریت کو زندہ رہنے دیا‘ تو آہستہ آہستہ بے داغ انتخابی عمل کی منزل بھی آ جائے گی۔ مگر اس کا کریڈٹ دونوں سیاسی حریفوں میں سے کسی ایک کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی کی نیت انتخابات کی شفافیت نہیں‘ انائوں کے ٹکرائو کا نتیجہ ہے۔ وہ سیاسی قیادت ختم ہو گئی‘ جواقتدار سے مفادات حاصل نہیں کرتی تھی بلکہ اپنے اثاثے قوم کی نذر کر دیتی تھی۔ ابوالحسن اصفہانی نے اپنی ذاتی عمارت واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ قائم کرنے کے لئے دے دی تھی۔ شہیدملت لیاقت علی خان نے ‘دلّی میں اپنا محل نما گھر پاکستان کو دے دیا تھا‘ جہاں آج ہمارا ہائی کمیشن ہے ۔ قائد اعظمؒ اپنے اثاثے قوم کے حوالے کر گئے ۔وہ لوگ قوم کو دینے آتے تھے۔ آج کا سیاسی میٹریل انتہائی ناقص اور خود غرض ہے۔ یہ سیاستدان اپنے ارادے اور نیت سے کوئی اچھا کام نہیں کر پائیں گے۔ حادثات کے نتیجے میں کوئی اچھا کام کر بیٹھے‘ تو وہ عوام کی خو ش قسمتی سے ہو گا۔ سیاسی قیادت کی نیک نیتی کی وجہ سے نہیں۔تاریخ کبھی منجمد نہیں ہوتی۔ جیسے ایثار اور قربانی کرنے والے ختم ہو گئے‘ اسی طرح ایک دن یہ لوٹ مار کرنے والے بھی ختم ہو جائیں گے ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں