بھارتی دانشور سیاستدان سدھیندرا کلکرنی نے‘ اپنے منہ پر کالک لگوا کے‘ سارے ہندو انتہاپسندوں کا منہ کالا کر دیا۔ بھارت میں انسانیت پر اس گہرے وار کے ردعمل میںبھارتی سماج کی جو اجتماعی روح بیدار ہوئی‘ اس کے سامنے انتہاپسند وزیراعظم نریندر مودی بھی نہیں ٹھہر پائے۔ انہیں اپنے اور اپنی پارٹی کے انتہاپسندانہ موقف سے ‘پسپائی اختیار کرتے ہوئے شیوسینا کے اقدام اور نعروں کے ساتھ لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ انہوں نے اترپردیش کے گائوں دادری میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پر ‘محمد اخلاق کے قتل اور ممبئی میں پاکستانی گلوکار غلام علی کا پروگرام منسوخ ہو جانے کو افسوسناک قرار دیا۔ انہوں نے بنگلہ زبان کے اخبار ''آنند بازار پتریکا‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ‘ان واقعات پر اظہار افسوس کیا اور اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں مرکزی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انتہا پسند ہندو گروہ آر ایس ایس سے دیرینہ تعلق کے باوجود‘ اپنی حکومت کا موقف بیان کرنے کے لئے ‘بھارت کے صدر پرناب مکھر جی کی آڑ لے کر کہا ''آپ سیاستدانوں کی باتیں مت سنیئے۔ نریندر مودی خود کہتا ہے تو اس کی بات بھی مت سنیئے۔ سننا ہے تو ملک کے صدر نے کل جو بات کہی ہے اس کو سنیئے۔‘‘ صدر مکھر جی کی ‘جس بات کا مودی نے حوالہ دیا‘ انہوں نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''ہمیں اپنی تہذیب کی بنیادی اقدار کو کھونا نہیں چاہیے۔ ہماری قدریں یہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ تنوع کو تسلیم کیا ہے اور استحکام اور سالمیت کی وکالت کی ہے۔‘‘ انتہاپسند ہندو تنظیم سے ‘دیرینہ رشتہ ہونے کے باوجود مودی ‘ شیوسینا کی انتہاپسندی سے لاتعلقی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے۔ برصغیر کا کوئی بھی دانشور ‘ بھارت کے 18کروڑ مسلمانوں کے خلاف‘ ہندو انتہاپسندی کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ بھارت کا عام شہری سیکولرازم پر یقین رکھتا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر ہندو انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی‘ تو بھارت ایک ایسی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا‘ جو کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اس دوران بھارت پر جو تباہی اور بربادی نازل ہو گی‘ وہ کیا ہندو اور کیا مسلمان؟ سب کا مستقبل تباہ کر کے رکھ دے گی۔ بھارتی ادیبوں نے تو شیوسینا کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مصنفہ دلیپ کور نے لکھا ''گوتم بدھ اور گورونانک کی سرزمین پر سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیاں انتہائی شرمناک ہیں۔‘‘ بہت سے ادیبوں نے بھارت کے قومی اعزازات احتجاجاً واپس کرتے ہوئے‘ ہندو انتہاپسندی کی شدید مذمت کی۔ اب تک 20سے زیادہ ادیب ‘ انتہاپسندی کے خلاف احتجاج کی مہم میں اپنے اعزازات واپس کر چکے ہیں۔ اس کی ابتدا اودے پرکاش اور نین تارا سہگل نے کی تھی۔ یہ کارواں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اودے پرکاش کا کہنا ہے''ستمبر میں جب میں نے ساہتیہ اکیڈمی کاایوارڈ واپس کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو چاروں طرف خاموشی تھی۔ ایسا لگا کہ غلطی ہو گئی ہے۔ لیکن اب مجھ سے بھی بڑے بڑے ادیب ‘اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سب کے دل کی بات تھی۔ جو ہو رہا ہے‘ وہ ٹھیک نہیں ہورہا۔‘‘ گزشتہ چند مہینوں میں کئی اعتدال پسند مفکروں اور ادیبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بعض کو ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا گیا۔ لیکن نریندردابھولکر اور گووندپنسارے کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ یہ ادیب اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے ادبی ادارے ساہتیہ اکیڈمی نے اعتدال پسندوں کے قتل کے خلاف آواز تک نہیں اٹھائی۔ اس پس منظر میں جب دلی کے قریب ایک مسلمان کو ‘گائے کا گوشت کھانے کے شک میں گھر سے نکال کر قتل کر دیا گیا‘ جس پر عدم رواداری کا مسئلہ پھر سے لوٹ آیا۔ دردناک واقعہ یہ ہے کہ جس مسلمان کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ہلاک کیا گیا‘ اس کے گھر سے جو گوشت برآمد کیا گیا‘ وہ لیبارٹری میں تجزیئے کے بعد بکرے کا ثابت ہوا۔ بی جے پی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے‘ کہا ہے ''ساہتیہ اکیڈمی خود ادیب ہی چلاتے ہیں۔ حکومت سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اعزازات واپس کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں۔‘‘ بی جے پی کے وفاقی وزیر مہیش شرما نے ڈھٹائی سے تبصرہ کیا ''جب لکھاری لکھنا بند کر دیں گے‘ تو دیکھا جائے گا۔‘‘ ادبی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ بھارتی ادیبوں نے رواداری کے سوال پر کتابیں لکھنا شروع کر دی ہیں اور ابھی صرف پہلے باب کی رونمائی ہوئی ہے۔
غلام علی اور خورشید قصوری نے بھارت جا کر ‘شیوسیناکے چہرے سے انتہاپسندی اور انسانیت دشمنی کا جو نقاب اتارا ہے‘ اسے دیکھ کر بھارت کی رائے عامہ اور انسانی ضمیر پھر سے بیدار ہو گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں انتہاپسندوں کو عوام میں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔ یہ ہمیشہ چند لوگ ہوتے ہیں‘ جو مذہبی نفرتوں کو ابھار کے‘ انسانی حقوق پامال کرنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں۔ حقائق پر غور کر کے جب بھی دیکھا جائے گا‘ تو ہمیشہ انسانیت اور اخوت کی کارفرمائی دکھائی دے گی۔ جس کی حالیہ مثال ‘بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا دورہ لاہور ہے۔ اس دورے کے فوراً بعد‘ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف ‘جنرل پرویزمشرف اور ان کے ساتھیوں نے کارگل پر حملہ کر دیا۔ واجپائی اور نوازشریف کے بیانات اور مشترکہ اعلامیے پر دونوں ملکوں کے عوام نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا تھا۔ محبت اور خیرسگالی کی یہ لہر پاکستان اور بھارت کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بلندی اور وسعت کے ساتھ ابھری تھی۔ دونوں ملکوں کے عوام کی خوشی لائق دید تھی کہ اب امن کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس خوشی کی ایک وجہ یہ تھی کہ بھارت کی طرف سے امن کا پیغام لے کر آنے والے وزیراعظم‘ انتہاپسند ہندو جماعتوں کے متفقہ لیڈر تھے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جب بھی کسی نے رکاوٹ ڈالی‘ وہ ہندو انتہاپسند ہی تھے اور جب ہندو انتہاپسندوں کے متحدہ محاذ کا وزیراعظم‘ پاکستان میں آ کر اس کے وجود کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے‘ تو برصغیر کا کونسا شہری ایسا ہے ‘جو اس بدلی ہوئی صورتحال پر خوشی سے سرشار نہیں ہو گیا تھا؟دونوں ملکوں میں وزارت خارجہ کی دستاویزات کبھی منظرعام پر آئیں‘ تو سارا برصغیر امن کے ان لمحات کو تباہ کرنے والوں پر لعنت بھیجے گا۔ کیونکہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ‘جو مفاہمت ہوئی تھی‘
اس کا بنیادی پتھر تنازعہ کشمیر کا حل تھا۔ یہ حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روح کے عین مطابق تھا۔ یعنی دونوں ملک ‘ کشمیریوں کو داخلی آزادی دے کر‘ جنگ بندی لائن ختم کرنے پر متفق ہو گئے تھے۔ کشمیریوں کو داخلی خودمختاری دینے پر اتفاق ہو گیا تھا اور ہر کشمیری کو یہ حق دینے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ وہ جس ملک کا پاسپورٹ چاہیں ‘حاصل کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں کو دونوں ملکوں میں آنے جانے کی آزادی مل جانا تھی اور اس انتظام کے تحت‘ 25برس گزرنے کے بعد کشمیریوں اور پاکستان اور بھارت کی قیادتوں کو مل بیٹھ کر طے کرنا تھا کہ کیا آئندہ کے لئے کشمیریوں کو یہ انتظام مستقل کرنے پر اتفاق ہے یا نہیں؟ یہ بالکل ہانگ کانگ جیسا معاملہ تھا۔ انگریزوں نے جب معاہدے کے مقررہ وقت پر ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے پر لیت و لعل سے کام لیا‘ تو چین کے لیڈر ڈنگ شیائوپنگ نے کہاکہ انگریزوں کی ساری شرطیں قبول کر لو اور جتنا عرصہ انگریزوہاں رہنا چاہتا ہے‘ اسے رہنے دو۔ ہانگ کانگ بہرحال تمہارا ہے۔ انگریز کے قبضے کی مدت میں پچاس سال توسیع دے دی گئی تھی۔ ابھی دو عشرے بھی پورے نہیں گزرے کہ عملی طور پر انگریز ہانگ کانگ سے جا چکا ہے۔ وہاں عملاً چین کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ کشمیری عوام متحدہ جموںوکشمیر کی داخلی آزادی حاصل کرنے کے بعد‘ پاکستان اور بھارت میں حاصل شدہ سہولتوںکے عادی ہو جاتے‘ توچند ہی برس میں کشمیر کے معاملات بھی ہانگ کانگ کی طرح ہوجاتے۔ کشمیری اپنے وطن میں آزاد اورخوش رہتے۔ پاکستان اور بھارت دونوں اپنی جگہ مطمئن ہوتے اور یہ تنازعہ جس نے پورے برصغیر کو مستقل امن سے محروم کر رکھا ہے‘ وقت کے ساتھ ازخود تحلیل ہو جاتا۔ بھارت میں ہونے والے حالیہ واقعات اور وہاں کی رائے عامہ کے ردعمل کو دیکھ کرواضح ہو جاتا ہے کہ خطے کی اجتماعی خواہشات وہی ہیں‘ جو نوازشریف اور واجپائی کے مابین ہونے والے سمجھوتے میں کارفرما تھیں۔ امن کی خواہش بھارت میں بھی زندہ ہے اور پاکستان تو ہمیشہ امن کا خواہش مند رہا ہے۔ دونوں جانب کے مذہبی انتہاپسند کشیدگی کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ لیکن عوام کے دلوں میں امن کی جو خوشبو موجزن ہے‘ اسے ختم نہیں کیا جا سکا۔ یہ خوشبو ایک دن ضرور آزاد ہوگی۔