جہاں تک میری یادداشت کام کر رہی ہے‘ پاکستان کے کسی برسرمنصب وزیراعظم نے اپنی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی تحقیقاتی ایجنسی کو خود پر عائد الزام کے سلسلے میں اپنا بیان نہیں دیا۔ نوازشریف قسمت کے بڑے دھنی ہیں کہ ان سے بہت سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں‘ جو کم ازکم تیسری دنیا کے حکمرانوں کے لئے مثالی اور قابل فخر ہوں۔ انہوں نے ایٹم بم کے دھماکے کا جو غیرمعمولی فیصلہ کیا ‘ وہ ان سے منسوب ہو کر ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 70سالہ تنازع حل کرنے کے لئے ‘انہوں نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے مل کے جس امن معاہدے کی بنیاد رکھی تھی اگر اسے پاکستان کے اندر باغی جرنیلوں کے ٹولے نے سبوتاژ نہ کر دیا ہوتا‘ تو پورے جنوبی ایشیا کی تقدیر بدل جاتی اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانوں کے سروں سے ‘جنگ کے بادل ہمیشہ کے لئے چھٹ جاتے۔ اس وقت باخبرترین عالمی حلقے بھی یہ کہنے لگے تھے کہ اس برس کا نوبل پرائز ‘ نوازشریف اور واجپائی دونوں کو مل سکتا ہے۔ میں آج بھی اس تاریخی کارنامے کوانتہائی اہم سمجھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ تنازع کشمیر ‘کبھی جنگ سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ اس لئے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اور تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست جنگ ہوئی ہو۔ کشمیر کا تنازع جب بھی حل ہوا‘ پرامن طریقے سے ہو گا اور جو بھی پرامن طریقہ تلاش کیا گیا‘ وہ نوازواجپائی معاہدے کی بنیادوں پر ہی عملی شکل اختیار کرے گا۔ بدنصیبی سے نوازشریف اپنے ملک کے غریب عوام‘ پسماندہ معیشت اور صنعتی ترقی کے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پائے، جس کی سب سے بڑی وجہ جاگیردارانہ طرزسیاست اور روایات ہیں۔ نوازشریف کو قدرت نے اتنی طاقت ضرور دے دی تھی کہ وہ حوصلے اور جرأت مندی سے کام لیتے‘ تو منتخب اداروں میں جاگیردارانہ طرز کی بلیک میلنگ کا خاتمہ کر کے‘ صحت مند جمہوری روایات قائم کرلیتے‘ ہر شہری کے لئے بنیادی حقوق اور کام کی آزادیاں مہیا کر کے‘ عوام کی تخلیقی صلاحیتوں کے ابھرنے اور نکھرنے کاماحول پیدا ہو جاتا۔ ایسا عموماً ہوتا نہیں کہ تاریخی مراحل سے گزرے بغیر ‘کوئی معاشرہ صحت مند تبدیلیوں کا سفر آسانی سے طے کر جائے۔ ہمیں بھی تاریخ کے انہی مراحل کو طے کرنا ہو گا‘ جو ارتقاء کے عمل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔
نوازشریف کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ جو چند اچھے کام کر پائے ہیں‘ ان کی خوش نصیبی کا نتیجہ ہے۔ غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں کا ان میں خاص دخل نہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنے خلاف‘ انتخابات میں کامیاب ہونے کے لئے آئی ایس آئی سے پیسے لینے کے الزام پر 25سال بعد ‘آخر کاراپنی صفائی پیش کرنے کا حوصلہ کر ہی لیا۔نوازشریف کے اس فیصلے کی تحسین کے ساتھ ‘میں ان حقائق کو بھی سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا جو وزیراعظم کے اس فیصلے کی بنیاد بنے۔ اس وقت ملک میں کرپشن کے خلاف جتنی نفرت اور بپھرے ہوئے جذبات پائے جاتے ہیں‘ ان کا سامنا کرنا ہر حکومت کے اختیار میں نہیں رہ گیا۔ آج نہیں تو کل‘ کرپشن کے خلاف عوامی غم و غصے کاطوفان میں بدلنا‘ ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں فوج کے کردار کوسامنے رکھنا ہو گا۔ فوج نے دہشت گردی کے خاتمے اور داخلی سلامتی کو تحفظ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ جب وہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھا‘ تو کرپشن کے خاتمے کے عمل کو روکنا‘مشکل ہو جائے گا۔ فوج نے داخلی سلامتی کے حوالے سے جو تحقیقات کیں‘ ان میں ابتدائی طور پر جتنے بھیانک جرائم سامنے آئے‘ ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ‘فوج بطور ادارہ یہ فیصلہ کرنے پر یقینا مجبور ہو گئی کہ ایک نہ ایک دن اسے پاکستان کی تباہ حال معیشت اور ریاستی اداروں کی پامالی جیسے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ موجودہ حالات کے تحت میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ ماضی میں سیاسی حکومتوں کی کرپشن اور بدانتظامی کو ختم کرنے کے لئے ‘اقتدار پر فوج کے قبضے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا‘ وہ تباہ کن ثابت ہوا اور فوج نے جب بھی اقتدار سنبھالا‘ حالات پہلے سے بھی بدتر ہوتے گئے۔ ان تباہ کن اور ناکام تجربوں کے بعد‘موجودہ فوجی قیادت غالباً یہ طے کر چکی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال‘ اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں کرے گی بلکہ قومی سلامتی کی جو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اس کے سپرد کی گئی ہیں‘ انہیں وہ بہرطور پورا کرے گی۔
کورکمانڈرز کی حالیہ کانفرنس میں جو مسائل زیربحث آئے‘ ان میں کرپشن کا مسئلہ سرفہرست تھا۔ یوں لگتا ہے کہ بعض حتمی اقدامات کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔ جس طرح سندھ حکومت کے سرکردہ اراکین ‘ایک ایک کر کے پاکستان سے بھاگے ہیں اور باقی بھاگنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، اسے دیکھ کے‘ کرپشن میں بدنام دوسرے صوبوں کے لیڈر اور افسر بھی بھاگنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔؎
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاںسب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں، تیار بیٹھے ہیں
وزیراعظم کے بیان دینے کے بعد ‘کون مائی کا لال قانون کے ہاتھوں سے بچ نکلنے کی امید کر سکتا ہے؟ میڈیا کے بیشتر باخبر لوگ بڑی تکرار سے پیش گوئیاں کرتے آ رہے ہیں کہ کرپشن کے کلچر پر پوری طرح جھاڑو پھرنے والا ہے۔ وزیراعظم نے بیان دے کر اس تاثر کو مزید تقویت دے دی ہے۔ چوہدری نثار جو کہ وزیراعظم اور جی ایچ کیو دونوں سے قربت رکھتے ہیں‘ یقینا وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے‘ تمام مشکوک افراد کے لئے فرار کی راہیں بند کر دیں گے۔ ویسے کرپشن سے لوٹی گئی دولت لے کر کوئی ‘دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، اگر ایجنسیاں عالمی معیار کے مطابق تحقیقاتی رپورٹیں اور ثبوت جمع کر لیں‘ تو ناجائز کمایا ہوا پیسہ کہیں بھی چھپایا نہیں جا سکے گا۔ وقت ضرور لگے گا مگر اس پیسے کی واپسی بہرحال ہو جائے گی۔ اگر حکومت کرپشن سے لوٹی گئی نصف دولت بھی برآمد کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ تو اسحق ڈار کے بھاری سود اور کڑی شرائط پر لئے گئے قرضوں سے بنائے گئے‘ زرمبادلہ کے 20ارب ڈالر ‘پرکاہ بن کر رہ جائیں گے۔ چوری اور کرپشن کی چھپائی ہوئی دولت ‘کھربوں ڈالرمیں ہے۔ناجائز دولت کا سراغ لگانے والی مالیاتی ایجنسیوں نے پاکستان سے لوٹے گئے‘ سرمائے کے جو تخمینے لگائے ہیں‘ ان کے مطابق پاکستانیوں کی چرائی ہوئی رقم 500 ارب ڈالر کے قریب جا پہنچی ہے۔ بظاہر اتنی بڑی رقم مبالغہ نظر آئے گی، لیکن جس دن کسی ایماندار‘ حوصلہ مند اور پرعزم نمائندہ حکومت نے‘ یہ طے کر لیاکہ وہ عوام کا چرایا ہوا خفیہ سرمایہ دنیا کے ہر کونے سے ڈھونڈ کر رہے گی‘ تو دعوے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دو اڑھائی سو ارب ڈالر کے قریب رقم ضرور نکل آئے گی۔ اس سے نہ صرف ہمارے تمام قرضے ادا ہو جائیں گے بلکہ سو ڈیڑھ سو ارب ڈالر‘ زرمبادلہ کے ذخائر بھی جمع ہو جائیں گے۔ بھاری سود پر لئے گئے اسحق ڈار کے قرضے تو ایک چٹکی میں ادا کئے جا سکیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اسحق ڈار کے کئے ہوئے معاہدوں کی کڑی شرائط پوری کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی، جیسے انہوں نے کئی جگہ سے ایک معینہ مدت کے تحت قرضے اٹھائے ہیں اور قرض دینے والے آٹھ فیصد سے زیادہ سود لینے کی خاطر‘ وقت سے پہلے اپنی رقوم واپس لینے سے انکار کر سکتے ہیں۔ البتہ کوئی منتخب اور ایماندار حکومت‘ ان معاہدوں کی غیرقانونی شرائط تلاش کر کے‘ قرضے جلد ادا کرنے کا راستہ ڈھونڈ سکتی ہے۔
عوام اگر تبدیلی کا عزم صمیم لے کر میدان میں اترآئیں ‘ انہیں مسلح افواج کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل ہو اور حکومت میں بیٹھے سارے کرپٹ سیاستدانوں اور افسروں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے اور 60سال پہلے کی طرح‘ کرپشن کرنے والا ہر شخص عوامی ردعمل سے خوف کھانے لگے‘ تو معاشرے کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی اور جو کام‘ عوام کی خواہشات اور بہتری کے لئے کئے جاتے ہیں‘ ان سے بچنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی۔ بے شک میں خواب دیکھ رہا ہوں لیکن یہ خواب پاکستان کے ہر شہری کی خواہش ہے۔ ایک نہ ایک دن اس خواب کو ضرور پورا ہونا ہے۔ ایک نہ ایک دن پاکستان کو ‘دیانتدار سیاسی قیادت ضرور ملنا ہے۔ وہ دن ہماری زندگیوں میں آئے نہ آئے لیکن پاکستان میں ضرور آئے گا۔