پیپلزپارٹی کے لیڈر‘ رہبر ‘ سربراہ‘چیئرمین یا پتہ نہیں کیا؟ جناب آصف زرداری نے پھر سے ایک بیان جاری کیا ہے‘ جس میں انہوں نے جمہوری قوتوں کی فتح تک جنگ جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے اور فرمایا''کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ پارلیمنٹ کی حیثیت میں کمی نہیں آنے دیں گے اور یہ کہ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف پارلیمنٹ ہماری ڈھال ہے۔ اسے ہر صورت میں مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے۔‘‘ یہ بیان انہوں نے سانحہ کارساز کے شہدا کے ایصال ثواب کے لئے‘ دعائیہ تقریب کے موقع پر جاری کیا۔ کئی ماہ قبل زرداری صاحب نے جنرلوں کو للکارتے ہوئے‘ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی اور فوراً ہی بیرون ملک چلے گئے۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق اب وہ کہاں بیٹھ کر پورا کر رہے ہیں؟ اس کی کوئی پریس ریلیز جاری نہیں ہو رہی۔ البتہ کراچی کی صوبائی حکومت کو موقع بموقع ‘دبئی میں طلب کر کے احکامات جاری کرتے ہیں ۔ عوام کے درمیان رہنے کی انہیںعادت نہیں۔ ان کی پیپلزپارٹی درمیانے درجے کے ایک شادی گھر جتنی جگہ میں سما جاتی ہے۔ اسی کے اندر وہ تقریر کا شوق پورا کرتے ہیں۔ یہی ان کے عوامی رابطے کا مقام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی بھٹو خاندان کے شہیدوں کے نام پرگڑھی خدا بخش میں ایک جلسہ کرتے ہیں۔ ابھی تک وہ یہ مسئلہ حل نہیں کر پائے کہ بھٹو خاندان کے شہداء کی سیاسی میراث حاصل کرنے کے لئے وہ کیا طریقہ کار اختیار کریں؟ اپنی اولاد کے ناموں میں تو انہوں نے بھٹو کا لفظ شامل کر لیا۔ مگر خود کیا کریں؟ اصولی طور پر توان کے بچوں کو زرداری ہونا چاہیے۔ زرداری خاندان کے پاس کوئی سیاسی ورثہ نہیں۔ جناب حاکم علی زرداری کی سیاسی میراث یہ تھی کہ وہ اسمبلی کے رکن بنتے رہے۔ لیکن بھٹو کے نام سے عوامی مقبولیت کا جوسرمایہ ہاتھ لگتا ہے‘ وہ آصف زرداری کو نہیں مل سکا۔ بے نظیر شہید کے شوہر کی حیثیت میں جتنی طاقت اور سرمایہ وہ سمیٹ سکتے تھے‘ سمیٹ چکے ہیں۔
جب تک بلاول کم عمر تھے‘ اس کے والد کی حیثیت میں وہ پارٹی کے قائد بنے رہے۔ اب بلاول جوان ہو چکے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے زرداری خاندان کا کوئی فرد بھٹو کیسے بن سکتا ہے؟ بلاول کو بہرحال ایک سہولت حاصل ہے کہ وہ بے نظیر شہید کی اولاد ہیں اور اپنے نانا کی نسبت سے انہیں بھٹو بنا دیا گیا ہے۔ بی بی شہید کے فرزند کی حیثیت میں نانا کی وراثت انہیں مل سکتی ہے۔ مگر پانچ سات سال بلاشرکت غیرے‘ پیپلزپارٹی کی سربراہی کا ذائقہ چکھنے کے بعد‘ اب آصف صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی کہ بھٹو کے نام کی جو طاقت ان کے بیٹے کو مل گئی ہے‘ اسے استعمال کیسے کریں؟ ان کے مخمصے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک پارٹی میں اپنے لئے کیا منصب تلاش کریں؟ چیئرمین ‘ انہیں کوئی مانے گا نہیں۔ چیئرمین زرداری بن کر‘ ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے لیڈرشپ کا اعزاز لینے کے لئے‘ اینٹ سے اینٹ بجانے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ کئی ماہ گزر چکے‘ ابھی تک جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ''منجی کتھے ڈاہواں؟‘‘ بیرون ملک کہیں منجی رکھ کے وہ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہیں‘ تو کوئی راہ گیر انہیں دیکھنے اور سننے کے لئے رکے گا نہیں۔ پاکستان میں کہیں چارپائی پر بیٹھ کے وہ اینٹ سے اینٹ بجائیں گے‘ توپارٹی کارکن ان کی طرف توجہ نہیں دیں گے۔ زرداری صاحب بہت سے معاملات میں بہادر ہیں۔ لیکن سیاسی بہادری نہ انہیں ورثے میں ملی ہے‘ نہ جہیز میں۔ سچ پوچھئے تو زرداری صاحب کو جو سیاسی سہارا ملا‘ وہ نوازشریف کی دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے جن لیڈروں نے ان کے ساتھ عہد وفااستوار کیا‘ وہ انہیں سب کچھ دے سکتے ہیں‘ روایتی اجتماع نہیں دے سکتے‘ جو بلاول کے حصے میں آتا ہے۔ بلاول کی خوش نصیبی یہ ہے کہ نانا کے بعد ‘ان کی والدہ نے بھی عوامی حقوق کی جدوجہد میں جام شہادت نوش کیا۔ نانا پھانسی لگے۔ والدہ اپنے خون میں لت پت ہو کے واپس اپنے آبائی گائوں کی مٹی میں دفن ہوئیں۔ ان پر نانا اور والدہ کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ عوام انہیں بھٹو خاندان کے حوالے سے ہی جانتے اور پیار کرتے ہیں۔ سات سال پارٹی کا سربراہ بن کر‘ آصف زرداری نے جو مزے اڑائے ہیں‘ ان میں ایک مزے کے سوا انہیں ہر چیز ملتی رہی۔ اقتدار ملا۔ پارٹی کی سربراہی سے لطف اندوز ہوئے۔ لیکن عوامی استقبال کی وہ نعمت نہ مل سکی‘ جو صرف بھٹو خاندان کے لئے مخصوص ہے۔
اقتدار بھی کیا چیز ہے؟ کسی دوسرے کے ہاتھ میں اچھا نہیں لگتا‘ خواہ وہ اپنا ہی بیٹا کیوں نہ ہو؟ آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری مرحوم نے‘ یہ ایثار بڑے وقار سے کیا تھا۔ بھٹو خاندان سے رشتہ قائم کر کے‘ آصف زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو کے نام کا سرمایہ حاصل ہوا ‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی‘ دیکھتے ہی دیکھتے باپ جیسی عزت اور شہرت حاصل کر لی۔ اس طرح آصف زرداری کی اہمیت بڑھتی گئی۔ حاکم علی زرداری کا حوالہ میں نے اس لئے دیا کہ بھٹو خاندان سے رشتہ قائم ہونے کے بعد‘ ان کے بیٹے کو جو عزت اور مقام ملا‘ بڑے زرداری صاحب نے اس میں کوئی حصہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ رشتہ بیٹے کا بنا تھا۔ انہوں نے باپ کی حیثیت میں ‘بیٹے کے حق میں سے کچھ لینے
کی کوشش نہیں کی۔ سادگی اور انکسار سے زندگی گزارگئے۔ آج خود آصف زرداری اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ وہ اپنے والد مرحوم کی طرح‘ اپنی حیثیت پر قناعت کرنے کو تیار نہیں۔ عوام میں بی بی کی مقبولیت پرقبضہ جما کے‘ لیڈرشپ کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن عوام ‘ بھٹو صاحب اور بے نظیرشہید کی قربانیوں کے ثمرات پر بلاول کا حق سمجھتے ہیں۔ آصف زرداری اس مخمصے میں کچھ بھی نہیںچلنے دے رہے۔ اپنی لیڈری چلا نہیں سکتے اور پارٹی کی سربراہی بیٹے کو دینے سے کترا رہے ہیں۔ تقسیم شدہ لیڈرشپ نام کی چیز ‘دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ عوامی مقبولیت کا تاج صرف ایک سر پہ رکھا جا سکتا ہے۔ اسے بلاول کے سر پہ رکھیں‘ تو پیپلزپارٹی کے دل شکستہ کارکن پھر سے جمع ہو کر‘ عوامی طاقت بحال کر سکتے ہیں۔ مگرمشکل یہ ہے کہ بلاول خود بھی عوامی مقبولیت کی وراثت کا تاج‘ اپنے والد گرامی کے سپرد کر دیں‘ تو عوام کو قائل نہیں کر سکیں گے۔ یہ تاج صرف بلاول کے لئے ہے۔ بھٹو صاحب کے دونوں صاحبزادے حالات کی نذر ہو گئے۔ ورنہ مرتضیٰ بھٹو میں یہ صلاحیت تھی کہ اپنے شہید والد کی جگہ لے لیتے۔ جن قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹایا تھا‘ وہ مرتضیٰ کو عوامی طاقت سے کیسے استفادہ کرنے دیتے؟ بے نظیر بھٹو سے حکمران طبقوں کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنی کامیاب سیاستدان ثابت ہوں گی۔ جب بے نظیر نے سیاست میں اپنے والد کی جانشینی حاصل کر لی‘ تو دوسرا ڈکٹیٹر ‘ضیاالحق بن کر سامنے آ گیا۔ بے نظیر نے اسی مقام پر جام شہادت نوش کیا‘ جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا خون بہایا گیا تھا۔ جب سانگھڑ میں بھٹو صاحب پر گولیاں چلائی گئیں اور وہ بچ گئے‘ تو میں نے ''شہاب‘‘ کا جو اداریہ لکھا‘ اس کا عنوان تھا ''لیاقت سے بھٹو تک ایک ہی گولی‘‘ ۔ بھٹو صاحب کو تو پھانسی دے دی گئی لیکن بینظیربھٹو نے‘ شہیدملت لیاقت علی خان کی تقلید کی۔ اسی شہر اور اسی مقام پرگولی کھائی‘ جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو شہید کیا گیا تھا۔ نہ شہید ملت کے قاتل پکڑے گئے۔ نہ بے نظیربھٹو کے پکڑے جائیں گے۔آصف زرداری کے لئے بہتر ہے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا شغل کرتے رہیں۔ بلاول کو اپنے نانا اور ماں کے راستے پر چلنے دیں۔ ہو سکتا ہے‘ عوام پراعتماد‘ آزادی اور خوشحالی دینے کی جس منزل کی تلاش میں نانا اور والدہ اپنا خون بہا گئے‘بلاول قوم کو اس منزل تک لے جانے میں کامیاب رہیں۔ یہاں مجھے امام خمینی کا تاریخی جملہ یاد آ رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا ''آخر کار خون ہی تلوار پر غالب آتا ہے۔‘‘ غالب آنے والا خون انہی کی رگوں میں دوڑتا ہے‘ جو عوام سے محبت کرتے ہوں۔ ایسا خون ہر کسی کی رگوں میں نہیں دوڑتا۔ جناب آصف زرداری جو کچھ حاصل کر سکتے تھے‘ کر چکے۔ جن کی وہ اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں‘ وہ تو بجا نہیں سکیں گے۔ بیٹے کی اینٹ سے اینٹ بجانا‘ ان کے بس کی بات نہیں۔