جن قائدین نے قائد اعظمؒ کا پاکستان سنبھالا‘ حکمت و ذہانت میں وہ ان کی گردِپا بھی نہیں تھے۔ ان کے جانشینوں نے قائد اعظمؒ کی جو درگت بنائی‘ وہ ان کے تصورِ پاکستان کا الٹ ہے۔ ہرفرد اور گروہ کی ایک ساکھ اور وقار ہوتا ہے۔قائد اعظمؒ کی طرح‘ شہیدِملت لیاقت علی خان کو بھی موقع نہ ملا کہ وہ پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے۔ انہیں شہید کرنے کے بعد‘ امریکی فٹ بال شروع ہو گیا۔یہ ایسا کھیل ہوتا ہے‘ جس میں کھلاڑی‘فٹ بال ایک دوسرے کے ہاتھوں سے چھین کر گول پوسٹ کی طرف بھاگتے ہیں۔ سارا کھیل اسی چھینا جھپٹی میں ختم ہو جاتا ہے۔ قائداعظمؒ اور شہید ملتؒ کے بعد‘ ہمارے قائدین میں یہی کھیل شروع ہو گیا‘ جو آج تک جاری ہے۔ امریکی فٹ بال کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ ایک ہی میچ ہے جو 68سال سے جاری ہے۔ کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان ہاتھوں سے کھیلا جانے والا فٹ بال بنا ہواہے۔ یہ لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ پاکستان جیسے نومولود ملک کوکوئی سمت دے سکتے۔ اقوام عالم میں اس کا کوئی مقام بنا سکتے۔ اس وقت شروع ہونے والی سردجنگ میں ‘جس نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا‘ اس میں اپنی حیثیت کے مطابق کوئی مقام حاصل کر سکتے۔ اپنے ملک کو چوہدری بنانے کی ان میں اہلیت ہی نہیں تھی۔ چوہدریوں کے الگ الگ ڈیرے ہوتے ہیں۔ ان کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ ان مقابلوں میں جوتے مارنے اور کھانے کے لئے‘ جو چمچے رکھے جاتے ہیں‘ گائوں میں ان کو ''چھڑیا ‘‘کہا جاتا ہے۔ سرد جنگ کے کھیل میں‘ وہ پاکستان کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ نہیں دلوا سکے اور ہمیں ایک چوہدری یعنی امریکہ کا چھڑیا بنا دیا۔ اب ان لوگوں کی عقل و فہم پر ماتم کے سوا ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟
تقسیم ہند کے بعد ریاست جموں و کشمیر پر بھارت نے تنازعہ کھڑا کر دیا۔ پنڈت نہرو کو ریاست پر قبضہ جمانے کا کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا۔ انہیں تقسیم کے فارمولے کے تحت ‘ انگریز اور عالمی طاقتو ں کی مدد سے اپنا حق لینا تھا۔ بھارت میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ عالمی برادری یا اقوام متحدہ کے ساتھ جھگڑا مول لے کر کامیاب ہوتا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ ‘ کشمیر کا مسئلہ عالمی اصولوں کی بنیاد پر حل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ہمارا موقف سوفیصد درست اور اصولی تھا۔ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر واقع‘ ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ جس ملک میں چاہیں شامل ہو جائیں۔ مگر ساتھ یہ شرط بھی تھی کہ حکمران کو ریاست کی اکثریتی آبادی کے جذبات کا احترام کرنا ہو گا۔ نواب آف بہاولپور نے بلاتامل پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ جوناگڑھ کا حکمران ایک مسلمان تھا جبکہ آبادی ہندوئوں کی زیادہ تھی۔ یہی صورتحال حیدرآباد دکن کی تھی۔ بھارت نے ہندو اکثریت کی بنیاد پر ان دونوں ریاستوں پر فوجی قبضہ کر لیا۔ ہمارے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ ہم بھارت کو روک سکتے۔ قائد اعظمؒ پاکستان بنتے ہی شدید بیمار ہو گئے اور پیچیدہ ریاستی امور سے اپنے آپ کو الگ کر لیا۔ کابینہ پر شہیدملت کا وہ کنٹرول اور دبدبہ نہیں تھا‘ جو بابائے ملتؒ کو حاصل تھا۔ طاقت کے ہر مرکز کا سربراہ ‘اپنی اپنی سمجھ کے مطابق فیصلے کرنے لگا۔
فوجی افسروں کے ایک گروہ نے ‘کارگل کی طرح پاکستانی فوجیوں کو سادہ لباس میں کشمیر پر قبضہ کرنے کاحکم دے دیا اور ساتھ ہی خیبرپختونخوا کے قبائلیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ کشمیر میں داخل ہو کرقبضہ جمائیں اور دل کھول کے لوٹ مار کریں۔ انہوں نے وہی کیا۔ نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ آج وہ وقت بھی نہیں اور وہ لوگ بھی نہیں۔ صرف سچائی باقی ہے اور بے گناہوں کا خون بہنے کا سلسلہ۔ کشمیر کے آزادی پسندوں اور شہری لباس میں لڑنے والے فوجیوں نے‘ مہاراجہ کی سکیورٹی فورسز سے لڑائی شروع کر دی۔اس دوران مقامی مجاہدین سری نگر کے ہوائی اڈے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہیں تربیت یافتہ فوجی قیادت میسر نہیں تھی۔ وہ صرف لوٹ مار کرنے گئے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ پیشہ ورانہ طریقے سے ہوائی اڈے پر قبضہ کرتے‘ بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے ‘اپنی باقاعدہ فوج سری نگر میں اتار دی اور کشمیر پر بھارت کے فوجی قبضے کا آغاز ہو گیا۔ وادیٔ کشمیر پر قبضہ جمانے کے بعد‘ پنڈت نہرو یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میں چلے گئے اور طاقت کی غلام اس دنیا میں‘ ناانصافی کرنے والا مظلوم بن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ فوجی قبضہ کرنے کے بعد بھارت نے مہاراجہ کشمیر سے‘ تحریر حاصل کر لی کہ وہ اپنی ریاست‘ بھارت میں شامل کرنے کا خواہش مند ہے۔ بھارت کے پاس یہی عذرلنگ تھا‘ جسے لے کر وہ اقوام متحدہ میں گیا، جبکہ پاکستان تقسیم کے فارمولے کے تحت‘ مسلم اکثریتی علاقے پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر کو‘ پاکستان کا حصہ بنانے کا حق دار تھا۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگا دیاکہ اس کے جنگجو‘ کشمیری عوام کا قتل اور لوٹ مار کر رہے ہیں، اس لئے کشمیر میں فوراً جنگ بندی کی جائے۔ وادیٔ کشمیر پر بھارت فوجی قبضہ کر چکا تھا۔ سلامتی کونسل میں مباحثہ شروع ہو گیا۔ اب وہ بھی بند ہو چکا ہے۔ فوجی طاقت استعمال کر کے‘ ہم بھارت سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کرا سکتے اور ایٹم بم سے سلامتی کونسل کو مرعوب نہیں کر سکتے۔ پھر ہم امریکی کیمپ میں گئے کیوں؟ اس زمانے کے لیڈروں کی دلیل یہ تھی کہ بھارت طاقتور تھا اور ہمیں اپنے دفاع کے لئے فوجی طاقت کی ضرورت تھی‘ جو ہمیں امریکہ سے مل سکتی تھی۔ ان لوگوںنے اپنی قوم سے جھوٹ بولا‘ جو آج تک بولا جا رہا ہے۔
سوویت یونین کے خلاف امریکی کیمپ میں شامل ہوتے وقت‘ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس وقت ہم ‘امریکی کیمپ میں شامل نہیں ہوئے تھے‘ جب بھارت نے ہماری سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کیں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے تاریخی مکا لہرا کر‘ بھارت کو جواب دیاکہ ہم دشمن کو مزہ چکھا دیں گے۔ اس وقت بھارت نے ہم پر کوئی حملہ نہیں کیا اور اپنی فوجیں سرحدوں سے واپس لے گیا۔ قائد اعظمؒ کے وہ الفاظ یاد کیجئے‘ جو
انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے ایک بیرونی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے۔ قائد اعظمؒ سے پوچھا گیا کہ ''آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟‘‘ قائد اعظمؒ کا جواب تھا ''جیسے کینیڈا اور امریکہ کے ہیں۔‘‘ اس ایک جملے میں پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی سموئی ہوئی تھی۔ لیکن قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کے بعد ہمارے لیڈروں نے امریکی کیمپ کا چھڑیا بن کر‘ مزے اڑانے کی خاطر‘ فوجی معاہدوں میں شمولیت کی اور اپنی قوم سے جھوٹ بولا کہ ہم نے امریکہ سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔قوم کو تاثر دیا گیا کہ بھارتی حملے کی صورت میں امریکہ‘ پاکستان کی مدد کو آئے گا۔ آج‘ اس زمانے کے تمام دفاعی معاہدے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ کسی ایک معاہدے میں بھی امریکہ نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ بھارتی حملے کی صورت میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ ان معاہدوں میں بھارت کا ذکر صرف ایک جگہ آتا ہے اور وہ یوں ہے کہ پاکستان یہ معاہدہ کمیونسٹ بلاک کے خلاف کر رہا ہے اور کمیونسٹ طاقتوں کے خلاف جو اسلحہ پاکستان کو دیا جائے گا‘ وہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوسکے گا۔ قائد اعظمؒ نے اس انٹرویو میں خارجہ پالیسی کا جو خاکہ پیش کیا تھا اگر ہم اس کی روشنی میں اپنی پالیسیاں بناتے‘ توآج پاکستان ‘ بنگلہ دیش اور بھارت کے عوام امن اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ اول تو بنگلہ دیش ہم سے الگ ہی نہ ہوتا۔ بفرض محال بنگالی اپنا حق اکثریت چھینے جانے پر علیحدہ ہو جاتے‘ تو پھر بھی یہ تینوں ملک امن اور ترقی کے راستے پر ہی آگے بڑھ رہے ہوتے۔ آج ہم ایٹمی طاقت بن چکے ہیں مگر جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہمارے دفاع کو مضبوط کرنے کے دعویداروں نے کیا اسی لئے پاکستانی عوام کو بھوک‘ بیروزگاری اور غریبی کی دلدل میں دھکیلا ہے کہ ہم ایٹم بم بنانے کے بعد دنیا کو یقین دلاتے پھریں کہ ہم جنگ نہیں لڑیں گے؟ یہ تو قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ ہم جنگ نہیں لڑیں گے۔ ایسے پڑوسیوں کی طرح رہیں گے‘ جیسے امریکہ اور کینیڈا رہتے ہیں۔غیرریاستی عناصر نے کشمیر میں مداخلت نہ کی ہوتی‘ تو جنگ کا جواز ہی نہیں تھا۔ مہاراجہ کشمیر
شش و پنج میں مبتلا تھا کہ وہ کس ملک کا حصہ بنے؟ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اسی لئے وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ بھارت نے فوجی قبضہ کر کے‘ اسے مجبورکر دیا۔ یہ ہے امریکہ سے ہماری دوستی کی کہانی کا خلاصہ۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ہمارے ہر حکمران کا دورۂ امریکہ کامیاب رہتا ہے۔ مطلب اس کا الٹ تھا۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کی سرخی نے پول کھول دیا۔جناب نوازشریف کا حالیہ دورہ بھی انہی ''کامیاب‘‘ دوروں میں سے ایک ہے اور سچ کہوں تو حالیہ دورے میں پاکستانی وفد کو صرف ایک کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ ہے بچیوں کی تعلیم کے لئے دی گئی 70 ملین ڈالرکی رقم۔ حقیقت میںہم نے آزادی ‘غربت اور جہالت سے لڑنے کے لئے حاصل کی تھی۔ برصغیر میں تو ہم ایک ہزار سال سے مسلمان ہیں۔ یہ راز پاکستان کی بیٹی مریم نوازنے سمجھ لیا، وزرائے اعظم نہیں سمجھ پائے۔ سب سے کامیاب دورہ تو مریم نواز کا رہا۔انہی دنوں بھارت کی بیٹی گیتا‘پھول اور زیورات کے تحفے لے کر اپنے وطن واپس گئی ہے۔ اس نے انتہاپسند ہندو لیڈروں سے پیار اور انسانیت کے لفظ کہلوا دیئے۔بیٹیاں کتنی پیاری ہوتی ہیں؟