"NNC" (space) message & send to 7575

جسے امریکہ بھی نہ خرید سکا

یہ اس زمانے کی بات ہے‘ جب شاعروں اور ادیبوں کو کہیں ملازمت نہیں ملتی تھی ۔وہ اپنی تحریریں بیچ کر گزراوقات کیا کرتے۔سعادت حسن منٹو‘ منیرنیازی ‘ ظفر اقبال اور بڑے بڑے ادیب‘ اپنی تخلیقات برائے اشاعت دے کر‘ چار پیسے بنایا کرتے۔ میں بھی ایک نئے شاعر کی حیثیت سے اپنی غزلیں اور نظمیں لے کر‘ ایسے اخباروں اور رسالوں کے دفاتر کا رخ کرتا‘ جہاں سے غزل یا نثر کے پیسے ملتے۔ غزل کا ہر جگہ مقررہ معاوضہ 10 روپے ہوا کرتا‘ جبکہ نثر کے پیسے کچھ زیادہ مل جاتے۔ منٹو صاحب کو افسانے کا معاوضہ 25 اور 30روپے کے درمیان ملتا۔ سودا کچھ یوں ہوا کرتا کہ ''مجھے شاہ نور اسٹوڈیو جانا ہے۔شام کی بوتل کا انتظام کرنا ہے اور تانگے کا کرایہ بھی دینا ہے۔‘‘ منٹو صاحب سالم تانگہ لے کر گھوما کرتے۔ انہیں جس دن کسی سٹوڈیوجانا ہوتا تو معاوضے میں تانگے کا کرایہ بھی شامل کر لیا جاتا۔ ان سے ملاقاتیں بہت رہا کرتیں....پاک ٹی ہائوس‘ چائنیز‘ وائی ایم سی اے۔ ان کا اسلوب‘ ادائیں‘ لہجہ‘ ہر چیز منفرد تھی۔ ترقی پسندوں کے سخت مخالف تھے۔ لیکن چچا سام کے نام انہوں نے جو خط لکھے‘ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ادیب اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کیسی مستقبل بینی کر سکتا ہے؟ اس کی مثال زیرنظر تحریر میں موجود ہے۔ ملک کے نامور ناول نگار اور صحافی محمد حنیف نے ''نیویارک ٹائمز‘‘ میں ایک تازہ مضمون لکھا ہے‘ آج وہی قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔دوسرے لوگ زیادہ معاوضہ لینے پر بحث کرتے ہیں‘ منٹو صاحب اپنی ضرورت سے کم یا زیادہ پر بات کرتے۔ملاحظہ فرمایئے:
'' جب وزیر ِ اعظم نوازشریف اس ہفتے صدراوباماسے ملے اور ہراُس بات کاعزم کیااور دہرایا‘جسے متعددمرتبہ پہلے بھی دہرایاجاچکاتھاتواس کارروائی نے میرے ذہن میں امریکہ کی اُس پہلی کوشش کی یا د تازہ کردی‘ جب وہ پاکستان میںدوست بناتے ہوئے یہاں لوگوں پر اپنا اثرقائم کرنا چاہتا تھا۔1951ء میں جب پاکستان کو معرض ِ وجود میں آئے ہوئے صرف چارسال ہوئے تھے‘ توامریکی انفارمیشن سروس کے کسی ذہین شخص کو‘ نامور کہانی نویس اوراپنی کہانیوں کے ذریعے تقسیم ِہند کی داستان بیان کرنے والے ادیب،سعادت حسن منٹو کاعلم ہوا۔ اُس زیرک افسر نے تجویز پیش کی کہ منٹوصاحب فارن سروس کے لیے کچھ لکھیں۔اپنی کچھ تحریروں میں منٹونے کمیونسٹوں کا مذاق اُڑایاتھا‘ جن میںمنٹوکے اپنے استاد‘مشہورانقلابی‘باری علیگ بھی شامل تھے۔ امریکیوںکوشاید اسی سے گمان گزراتھا کہ وہ شروع ہونے والی سردجنگ میں‘ امریکی تصورات کی ترویج کے لیے ایک عمدہ ''ریکروٹ ‘‘ثابت ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف سعادت حسن منٹوبھی بمبئی کی چکاچوندکر دینے والی زندگی سے ‘تعلق ٹوٹنے کے بعد ‘اس نوزائیدہ ملک میںقدم جمانے کی کوشش میں تھے۔ اُنہوں نے ہامی بھر لی لیکن کہا کہ وہ صرف اردو میں لکھیں گے۔اُنہیں بتایا گیاکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔پھر معاوضے کی بات کی گئی۔ اُنھو ں نے منٹوکو پانچ سوروپے فی مضمون ‘پیش کش کی۔اُس وقت منٹومالی پریشانیوں کا شکار تھے‘سنسر بورڈ اُن کے تعاقب میںتھا۔ اُنہیں فی کہانی صرف پچیس روپے مل رہے تھے۔لیکن پانچ سو روپے سن کر اُنہوںنے کہا کہ ''یہ معاوضہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ چنانچہ تین سوروپے فی مضمون پر بات طے ہوگئی۔ منٹو کا پہلامضمون''انکل سام کے نام خط‘‘بڑی حد تک امریکی توقعات سے کافی فاصلے پر تھا۔اس میںاُنہو ں نے تقسیم کے قہر‘ امریکی اور پاکستانی سنسربورڈز کے درمیان گہری مماثلت کے علاوہ‘ امریکی جرائم پیشہ گروہوں کی تعریف کی تھی۔ امریکی انفارمیشن افسران کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ اس کاکیا کریں؟چنانچہ اُنھوں نے اُسے سردخانے میں ڈال دیا۔اگلے تین سال کے عرصے میں منٹو نے آٹھ مزید خطوط لکھے۔ 
یہ 1954ء کی بات ہے جب منٹو نے اپنا چوتھا خط لکھا‘تو امریکہ اور پاکستان کے درمیان پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔منٹو نے انکل سام کے نام اپنے ایک خط میں لکھا: ''ہوسکتا ہے کہ انڈیاتمہارے قدموں میںلاکھوں مرتبہ رینگتا پھرے۔لیکن تم لازمی طور پر پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کروگے۔ کیونکہ تم اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کی ‘سالمیت کے لیے پریشان ہواورایساکیوں نہ ہو؟اور پھر ہمارے ملاّروسی کیمونزم کابہترین تریاق بھی تو ہیں۔اگرفوجی امداد آنا شروع ہوگئی توپھر تم لوگ پہلے ملاّئوں کومسلح کروگے‘پھر اُن کے لیے امریکی پتھر(طہارت کے لیے)‘امریکی تسبیحات‘امریکی جائے نماز‘ ریزر بلیڈاورقینچیاںبھیجوگے۔جہاں تک میںسمجھ سکتا ہوں، فوجی امداد کا مقصد دراصل ان ملاّئوں کو مسلح کرنا ہے۔ میں تمہارا پاکستانی ''بھتیجا‘‘ ہوں‘ اس لیے تمہاری تمام چالاکیوںکوسمجھتا ہوں۔تمہاری سیاست کا شکریہ‘اس نے ہمیں بھی عقل سکھادی ہے۔ خدااسے نظر ِ بدسے بچائے۔‘‘
یہ خط ساٹھ سال پہلے لکھا گیاتھا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک‘ پاک امریکہ فوجی تعاون نے ‘اُس سے کہیں زیادہ ملاّئوںکومسلح کیا ہے‘ جتنامنٹوتصورکرسکتے تھے۔جب 80کی دہائی کے وسط میں‘ صدررونالڈریگن نے افغان مجاہدین کو وائٹ ہائوس میںمدعوکیااوراُنہیںآزادی کے محافظ قراردیتے ہوئے‘ اُن کی تعریف کی‘ تومنٹویقینااپنی قبر میںمسکرارہے ہوںگے۔دنیاکوآزادی کی نعمت سے مستفیدکرنے کی کوشش میں‘امریکہ اور پاکستانی دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان میں کیمونسٹوں کے خلاف لڑنے کے لیے مجاہدین کومسلح کیا۔اس کے بعد پاکستان نے پرانے ملائوںسے نجات پانے کے لیے‘ نوجوان ملائوں کومسلح کیا۔اس کے بعد امریکہ اور پاکستان نے ہر قسم کے ملائوں پر بمباری کی۔لیکن پتہ چلا کہ جتنے ہلاک ہوتے ہیں‘اُس سے زیادہ اُن کی جگہ لینے کے لیے آن موجودہوتے ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے پر غلط ملائوں کومسلح کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔اس دوران زمین پر ایساکوئی ملا باقی نہیں رہا‘ جسے مسلح کیاجاناہو۔افغانوں کی تیسری نسل مہاجر کیمپوں میں پرورش پارہی ہے۔
بہت سے پاکستانی جنرل ‘سوویت یونین کاشیرازہ بکھیرنے اوردنیا کوآزاد کرانے کاکریڈٹ لیتے لیتے قبروں میں جاسوئے۔ اُن کے دل میںکبھی اپنے لوگوں کوآزادکرانے کاخیال نہیںآیاتھا۔ہزاروںقبائلیوںکوبے گھرکردیاگیا۔ اس قوم کاہرچوتھا بچہ کبھی سکول نہیں گیااوروہ بچے جوسکول گئے‘اُن کی ذہنی اورفکری آبیاری نہ ہوسکی۔ 
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میںانتہائی اتارچڑھائو آتے رہے۔امریکہ پاکستان کو ''ڈومور‘‘ جبکہ پاکستان امریکہ کو ''پے مور‘‘(pay more)کہتا رہا۔ فراہم کیے گئے اربوں ڈالروںسے صرف پاکستانی فوج اورایک چھوٹی سی اشرافیہ کو استحکام ملا۔ یہ گروہ امریکی دولت کے بل بوتے پرتواناہوتے ہوئے لوگوںکوبتاتارہا کہ امریکہ ہماراسب سے بڑادشمن ہے۔ 
چندسال پہلے کراچی میںامریکی قونصل خانے کی جگہ تبدیل کرکے‘ اسے کراچی کے بہترین سکولوں میںسے ایک کے نزدیک تعمیرکرنے کامنصوبہ بنایاگیا۔والدین نے گلیوں اور سڑکوں پر احتجاج کرناشروع کردیا۔ چنانچہ سفارت خانے کو کہیںاورمنتقل کردیاگیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ والدین اپنے بچوں کو ایک امریکی عمارت جیسی خطرناک جگہ سے ‘دور رکھنا چاہتے تھے اور اُن کی تشویش قابل فہم تھی۔تاہم اُن کے نزدیک وہ سکول بہت اہم تھا کیونکہ اس کے بہت سے طلبہ کوامریکی یونیورسٹیوں میںداخلہ مل جاتاتھا۔کچھ پاکستانی امریکہ سے بے حدنفرت کرتے ہیں۔لیکن وہ اپنے بچوںکووہاں بھیجناچاہتے ہیں۔اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچے ہمیشہ امریکہ میں ہی آبادرہیں۔ 
چھ دہائیاں پہلے منٹو نے انکل سام کو لکھا تھا: ''تم حیرت کے مارے یقینامجھ سے پوچھو گے کہ میرا ملک اتناغریب کیوں ہے جبکہ یہاں بہت سی مہنگی گاڑیاں اورزیبائش کی اشیا کی بھرمار ہے۔ یقینا انکل‘ایسا ہی ہے۔ لیکن میں تمہارے سوال کاجواب نہیں دوں گاکیونکہ اگرتم اپنے دل میں جھانک کردیکھوتو تمہیںجواب مل جائے گا(انکل،تم اپنا دل کسی اچھے سے سرجن کودکھائو۔)
پاک امریکہ حالیہ گفتگو ''مبینہ طورپر‘‘ جمہوریت اور کچھ چھوت کی بیماریوں کے بارے میںتھی کہ کس ملاّکو زندہ رکھنا ہے اور کس کومارنا ہے؟مجھے امید ہے کہ مسٹرشریف نے منٹوکی طرح کم رقم کاتقاضا کیاہوگا۔ ہم منٹوکواُس کی لکھی ہوئی کہانیوں‘نہ کہ امریکہ سے کیے گئے وعدوں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ایساکوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیںجس سے پتہ چلتا ہوکہ منٹو کے پاس بھی کوئی چھوٹی موٹی گاڑی تھی۔لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اُنہیں تین سو روپے فی خط بھی نہیں ملے۔
آج کی سیاسی فصل میں اگے ہوئے خاردار جھاڑجھنکاڑ کے پوسٹروں پر ‘جب میں یہ لکھا دیکھتا ہوں ''نہ جھکنے والا‘ نہ بکنے والا‘‘تو منٹو کی یاد آتی ہے‘ جسے امریکہ بھی نہ خرید سکا۔ پاکستان میں جب کبھی عوام کی حکومت آئی‘ تو تمام بڑے بڑے مزاروں سے بلند تر ایک مقبرہ بنے گا۔ جس پر لکھا ہو گا''گزشتہ صدی کا واحد روشن ضمیر انسان‘ جس نے آج کی دنیا کو نصف صدی پہلے‘ ہم سے زیادہ اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لیا تھا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں