انتخابات کے نام پر یہ جو تماشا لگا‘ اس کا حاصل کیا تھا۔ کوئی نظام موجود نہیں‘ جس کے تحت منتخب ہونے والے لوگ کام کریں گے۔ ان کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں۔ فنڈز نہیں۔ ابھی تک تو دفاتر بھی نہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام‘ 10 سال پہلے لپیٹ دیا گیا تھا۔ بلکہ جس بنیادی خیال کے تحت اسے نافذ کیا گیا تھا‘ اس پر تو کبھی عملدرآمد ہی نہیں ہوا۔ مقامی حکومتوں کے کچھ ہی عرصے بعد صوبائی اسمبلیاں معرض وجود میں آ گئیں۔ جو وزرائے اعلیٰ آئے‘ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے انتظامی امور‘ مقامی حکومتوں کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں نے ایک یونین بنائی اور ''اپنے حقوق‘‘ مانگنا شروع کر دیئے۔ مقامی حکومتوں کے بنیادی اختیارات چھین لئے گئے۔ جو اختیارات مقامی حکومتوں کو دیئے گئے تھے‘ وزرائے اعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ مقامی حکومتیں‘ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کے رہ گئیں۔ اس کے باوجود یونین کونسلوں نے شہروں اور بستیوں کے کام کرنا شروع کر دیئے تھے۔ میں تو آج بھی یہی کہتا ہوں کہ ہرچند یہ نظام فوجیوں نے تیار کیا تھا۔ یہ عوام کے حق میں بے حد مفید تھا۔ وزرائے اعلیٰ نے‘ ناظموں سے جو اختیارات چھین لئے تھے‘ وہ گنوا کر بھی‘ مقامی حکومتوں نے بڑے اچھے کام کر دیئے تھے۔ کراچی والے تو نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے زمانوں کو یاد کرتے ہیں۔ جو کام ان دنوں میں ہو گیا‘ ہو گیا‘اس کے بعد کراچی میں کبھی کوئی کام نہیں ہوا۔ سڑکیں تک ادھڑ چکی ہیں۔ پانی خرید کے پینا پڑتا ہے۔ شہری سہولتیں ختم ہو چکی ہیں۔ یہی حال پنجاب میں ہے۔ لاہور کے ناظم اعلیٰ نے شہر کے معاملات کو جس طرح سنبھالا تھا اور جتنی تیزی سے لاہور ‘شہر کی صورت اختیار کرنے لگا تھا‘ وہ سب کچھ بیچ میں رہ گیا۔ صوبائی حکومت نے کام سنبھالا۔ جب تک چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ رہے‘ انہوں نے بنیادی ضرورتوں کے بہت سے اداروں کو ازسرنومنظم کیا۔ انہوں نے عام شہری کی سہولتوں پر زیادہ توجہ دی۔ صوبے میں ڈاکوئوں نے منظم ہو کر راستے بند کرنا شروع کر دیئے تھے۔ سورج ڈوبتے ہی سڑکوں پر چلنا مشکل ہو جاتا۔ پرویزالٰہی نے شہروں اور دیہات میں رابطوں کی سڑکوں پر‘ پولیس چوکیاں قائم کر کے‘ ڈاکو راج کا زور توڑا۔ ہسپتال بنوائے۔ ریسکیو 1122 کا نیا محکمہ قائم کر کے‘ سڑکوں پر چلنے والے شہریوں کو سہولتیں فراہم کیں۔ کوئی بھی حادثہ ہوتا‘ 1122 پر فون کر نے پرپانچ منٹ کے اندرمدد پہنچنے لگی۔ یہ سلسلہ کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔
مقامی اور صوبائی حکومتوں نے باہمی اشتراک سے بہت سے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا‘ مگر جب سے نئی صوبائی حکومتیں قائم ہوئی ہیں‘ عام آدمی کی طرف سے توجہ ہٹ گئی۔ پنجاب میں زیادہ تر قیاتی رقوم ‘لاہور شہر پہ خرچ ہونے لگیں۔ جنوبی پنجاب کے رہنے والے گلہ کرتے ہیں کہ ان کے حصے کے فنڈز چھین لئے جاتے ہیں اور صوبائی حکومت ‘انہیں مرضی سے خرچ کرتی ہے۔ان کا گلہ تو یہ ہے کہ یہ فنڈز لاہور میں لگائے جا رہے ہیں‘ لیکن ہم لاہور والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے‘ وہاں کچھ نہیں کیا جا رہا۔ بہت سی آبادیاں پانی کی نکاسی کے انتظامات سے محروم ہیں۔ سیوریج کا نام و نشان نہیں۔ گلیوں کی حالت گندے نالوں جیسی ہو گئی ہے۔ ہر وقت پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے ‘سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ان کے اندر رکشا ٹیکسی کا جانا محال ہو چکا ہے۔ برسات کے دنوں میں آدھے سے زیادہ لاہور‘ مراعات یافتہ طبقوں کی پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔ شہر کے پسماندہ اور بدنصیب علاقوں میں آمدورفت ناممکن ہو جاتی ہے۔ لوگ کئی کئی دنوں تک اپنی گلیوں اور گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔ گلبرگ اور ڈیفنس کے رہنے والے‘ ان علاقوں کی طرف رخ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور گیس کی بندشوں نے لاہور کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کو زندگی کی سہولتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ ان نظرانداز کی گئی آبادیوں میں بسنے والے‘ حبس کے دنوں میں پنکھے کی ہوا سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح یہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ گرمی اور حبس کے دن گزارتے ہیں‘ اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہے‘ جو وہاں رہتے ہیں یا جنہیں وہاں آنا جانا پڑتا ہے۔
شہر میں توسیع کے منصوبے ضرور بنتے ہیں۔ لیکن ترقیاتی فنڈز منتخب علاقوں میں صرف کئے جاتے ہیں۔ کئی سڑکیں ہیں‘ جو ہر سال ازسرنو بنائی جاتی ہیں اور کئی گلیاں ہیں‘ جو ایک بار بننے کے بعد‘ ٹوٹ پھوٹ کے ختم ہو چکی ہیں اور وہاں آمدورفت محال ہے۔ یہ صورتحال سارے شہروں کی ہے اور دیہی پنجاب تو پچھلی صدی کے ابتدائی ایام سے آگے نہیں نکل پایا۔ بجلی کی کمی کا سب سے زیادہ شکار دیہی علاقوں میں رہنے والے بنتے ہیں۔ دیہات کے رہنے والے بیشتر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں 24گھنٹوں میں دوتین گھنٹوں کے لئے بجلی میسر آتی ہے۔
میں نے عوام کی جن تکلیفوں کا تذکرہ کیا ہے‘ ان کا ازالہ صرف مقامی حکومتیں ہی کر سکتی ہیں۔ ہر حلقے اور وہاں کے رہنے والوں کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کا موقع مل جائے‘ تو گلی محلوں کے نمائندے‘ صوبائی حکومت سے اپنے حصے کے پیسے لے کر‘ اپنے اپنے حلقوں کے بنیادی کام کر سکتے ہیں۔ انہیں علم ہو گا کہ ان کے چھوٹے سے وارڈ میں رہنے والوں کو کیا تکلیف ہے؟ وہ عوام کے ساتھ قریبی رشتے استوار اور ان کی ضروریات کے مطابق فنڈز صرف کر کے‘ زندگی کو قابل برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ جو ہم نے دہشت گردی کے خلاف وسیع پیمانے پر قومی مہم چلا رکھی ہے‘ اس کو مکمل کامیابی اسی صورت میں ملے گی‘ جب مقامی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ وارڈ اور یونین کونسل کے نمائندے ‘ اپنی اپنی آبادیوں کے اندر ہر طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ وہ ہر گلی میں پہریداری کا بندوبست کر کے‘ امن و امان کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ کوئی اجنبی یا مشکوک کردار کا شخص‘ منظم اہل محلہ کی نظروں سے بچ نہیں سکتا۔ زیادہ تردہشت گرد‘ دوسرے علاقوں سے آ کر‘ پسماندہ آبادیوں میں روپوش ہوتے ہیں‘ لیکن جب ہر وارڈ اور گائوں کے اندر‘ ہر آبادی کے لوگ مل جل کر اپنے علاقے کی نگرانی کریں گے‘ تو کسی بھی اجنبی یا دہشت گرد کو یہ ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس طرح کی منظم آبادیوں میں روپوش ہو سکے۔ دنیا میں کوئی بھی نظام ایسا نہیں‘ جو عوامی تعاون کے بغیر کامیاب ہو سکے۔ کوئی ریاست ایسی نہیں‘ جو ہر گائوں‘ گلی اور محلے میں نگرانی کا موثرنظام قائم کر سکے۔ نظام وہی کامیاب ہوتا ہے‘ جس کو چلانے کی ذمہ داری پوری کی پوری آبادی کے سپرد ہو اور ملک کا ہر شہری اس نظام کو چلانے میں عملی طور پر حصہ لیتا ہو۔
مقامی حکومتوں کے نظام میں یہ تمام خوبیاں موجود ہونی چاہئیں‘ جن کی طرف میں نے اشارے کئے ہیں۔ مگر یہی چیز کہیں موجود نہیں اور ان دنوں جو جمہوری ڈھکوسلارچایا جا رہا ہے‘ اس کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسے بیکار ادارے قائم کرنے کا فائدہ کیا؟ جنہیں چلانے والوں کے پاس نہ کوئی اختیار ہو‘ نہ فنڈز۔یہ بیچارے جو منتخب ہو کر آئیں گے‘ زیادہ سے زیادہ کونسلر بنیں گے۔ انہی میں سے کچھ عہدیدار ہوں گے۔ اہل علاقہ کا کوئی کام یہ نہیں کر پائیں گے۔ البتہ بیوروکریسی کو مفت کے کارندے ضرور مل جائیں گے‘ جو محض چوہدراہٹ کے شوق میں‘ بیورو کریسی کو نئے خدمات گار فراہم کر دیں گے۔ یہ مفت کے چوہدری‘ بیوروکریسی کے دست و بازو بن کر‘ عوام کے خدمت گزار نہیں بلکہ ان پر بیوروکریسی کے تسلط کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ حکمران جماعت کے کارندے بن کر‘ یہ اپوزیشن کے ساتھ وہی سلوک کریں گے‘ جو انہوں نے حکمران جماعتوں کے مخالفین سے کیا ہے۔ سندھ میں ایک گروپ نے 12مخالفین کو ہلاک کیا اور پنجاب میں 3کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ اس وقت ہوا‘ جب ووٹنگ جاری تھی۔ باقی ماندہ انتخابات مکمل ہونے کے بعد۔ جب حکمران جماعتوں کی پوزیشن مستحکم ہو گی‘ تو مخالفین کا کیا بنے گا؟ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کا یہ تجربہ خوشگوار نہیں‘ اذیت ناک ثابت ہو گا۔