"NNC" (space) message & send to 7575

بکری‘ شیر بن گئی

خدا جھوٹ بلوائے تو اپنی توفیق سے بڑھ کے مسلم لیگوں کی تعداد بتانا چاہئے۔ یہ موقع بہ موقع پیدا ہونے کی ہر گنجائش سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ جب بھی الیکشن آتا ہے یہ جوق در جوق پیدا ہونے لگتی ہے۔ الیکشن سے پہلے پیدا ہوتی ہے۔ الیکشن کے بعد پیدا ہوتی ہے اور الیکشن کے دوران بھی پیدا ہونے سے گریز نہیں کرتی۔ایک صدی سے بھی کم عرصے میں جتنی مسلم لیگیں‘ پاکستان میں جنم لے چکی ہیں‘ اتنے عرصے کے دوران‘ دنیا کے تمام ممالک میں پیدا ہونے والی پارٹیوں سے زیادہ ہی نکلیں گی۔ کم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک کی سیاسی سرزمین ‘اتنی زرخیز اور ثمر آور ہے کہ اس کی تعداد کو گننا‘ عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔تاریخ کے ذہین سے ذہین طالب علم سے بھی پوچھ کر دیکھ لیجئے‘ وہ ہر چیز کی گنتی کر دے گا‘ مسلم لیگوں کا شمار کرتے ہوئے اس کا حافظہ‘ طاقت اور ہمت ہر شے جواب دے جائے گی۔ بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر سے پوچھ کر دیکھ لیجئے ‘اگر وہ ساری زندگی‘ ساری مسلم لیگوں کو یاد کرنے کی کوشش کرے‘ توبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔حد یہ ہے کہ ڈاکو بھی اگر سیاست میں آنا چاہیں تو بغیر سوچے سمجھے مسلم لیگ (ن)کا رخ کرتے ہیں۔ حالانکہ (ن) لیگ میں اس کی برادری پہلے سے بڑی تعداد میں موجود ہے۔ ایک ڈاکو نے جیل سے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ۔ سارے حریفوں کو شکست فاش دیتے ہوئے‘ کونسلر منتخب ہو گیا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ مسلم لیگ(ن) کا حصہ بنا اوریہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر ڈاکو مسلم لیگی ہوتا ہے اورہر مسلم لیگی... (ن) میں جاتا ہے اور اس کا کامیاب ہونا لازمی ہے۔میں کوئی من گھڑت کہانی نہیں سنا رہا۔ یہ واقعہ ہے کہ یونین کونسل نمبر124کے وارڈ6سے ‘منتخب ہونے والے ایک ڈاکو نوید طاہر نے(ن) لیگی بن کر کونسلر کا الیکشن جیتا۔ملزم نوید طاہر کو دو ماہ قبل‘ ایکسائز ٹیم سے ڈکیتی کے دوران‘ سولہ لاکھ روپے چھیننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میرے خیال میں اس کا سیاسی شعور ‘عام آدمی کی نسبت زیادہ بلند اور نکھرا ہوا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر الیکشن میں کامیاب ہونا ہے تومسلم لیگ (ن) کا حصہ بن جائو۔ اس کے بعد پارٹی جانے‘ اس کی حکومت جانے اور پاکستانی عوام جانیں۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ جتنے فوجی آمروں نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ انہوں نے جو پارٹی بھی بنائی اس کا نام مسلم لیگ رکھا گیا۔ایوب خان نے اقتدار میں آکر پارٹی بنائی تو وہ کنونشن مسلم لیگ تھی ۔ ان کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے قیوم مسلم لیگ کو اپنا لیا۔ یہ واحد بد نصیب جرنیلی مسلم لیگ تھی جو اقتدار میں نہیں آسکی۔یحییٰ خان نے انتخابات بڑی ایمانداری سے کرائے۔ بہت کوشش کی کہ اپنی مسلم لیگ کو اقتدار میں لے آئیں لیکن عوام کو کچھ اور ہی منظور تھا۔انہوں نے عوامی لیگ کو جھولیاں بھر کے ووٹ دیے اور اسے کامیاب کرادیا۔ مجھے یاد نہیں کہ جس عوامی لیگ کی بنیاد حسین شہید سہروردی نے رکھی تھی‘ وہ مسلم لیگ تھی یا غیر مسلم لیگ؟۔ قرین قیاس یہی ہے کہ کوئی جنرل صاحب موڈ میں آکر اقتدار پر قبضہ کر بیٹھیں اور اپنی لیگ بنائیں اور ان کا نام بھی یحییٰ خان ہو تو فطری طور پر مسلم لیگ ہی ہوتی ہے۔ ایک مسلمان جنرل جب بھی کوئی لیگ بنائے گا‘ وہ غیر مسلم نہیں ہو سکتی۔ سو فیصد مسلم لیگ ہو گی۔جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے جتنے جنرلوں نے اقتدار میں آکر اپنی سیاسی پارٹی بنائی‘ وہ آخر کار مسلم لیگ ثابت ہوئی۔ایوب خان نے بنائی تو کنونشن مسلم لیگ نکلی۔ یحییٰ خان نے اپنائی تو وہ قیوم مسلم لیگ تھی۔ ان کے بعد جنرل ضیا الحق کی باری آئی توانہوں نے بھی اپنے پیش رو جنرلوں کی طرح‘ مسلم لیگ کے سر پر ہی ہاتھ رکھا۔انہوں نے نام میں ردوبدل گوارہ نہیں کیا۔سیدھی سادی مسلم لیگ بنا کر‘ ساری قوم کو للکارتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی پارٹی کا نام مسلم لیگ رکھ لیا ہے‘کسی میں ہمت ہے تو اس کا نام بدل کر دکھائے۔یہ چیلنج خود ضیا الحق کی لگائی ہوئی سیاسی فصل نے قبول کیا۔ حسب روایت اپنے حصے میں آنے والے آمر کی پارٹی پر قبضہ کرتے ہوئے اس کا نام نواز لیگ رکھ دیا اور لوگوں نے تلخیص کی خاطر اسے ن میں بدل دیا۔اب جو شخص بھی روایتی یعنی حکمرانی کے لئے مسلم لیگی بنتا ہے‘ وہ سیدھا ن لیگی بنتا ہے۔ اس کے دوطریقے ہیں۔ ایک تو سیدھادولت مند بن کرن لیگی ہو جاتاہے اور اصلی ن لیگی بننا ہو تو حکمران جماعت میں شامل ہو کر‘ مسلم لیگی بن جاتا ہے ۔ پچھلے بیس سال سے جو مسلم لیگی بنتا ہے وہ ن لیگی ہوتا ہے۔عموماً اگرن لیگ کی حکومت ہو تو سیاست میں حصہ لینے کا ہر شوقین ن لیگی ہی بننا پسند کرتا ہے۔یہاں تک کہ اس پارٹی سے اگر کوئی بغاوت کر کے ‘الیکشن میں حصہ لینا چاہے تو رہتا و ہ ن لیگی ہے۔ اس کی مثال فیصل آباد میں دیکھنے کو ملی‘ جہاںمسلم لیگ کا اپنا خون بغاوت کر کے‘ الیکشن میں اترا۔ نتائج کچھ بھی ہوئے ‘ رہا وہ ن لیگی کا ن لیگی۔ن لیگی باغی بھی ہو جائے تو وہ ن لیگی ہی رہتاہے۔پہلے دیکھنے میں آتا تھا کہ جو بھی حکمران جماعت کا حصہ بن کر اقتدار میں شریک ہونا چاہتا تھا وہ بلاتکلف لیگی بن جاتا۔ خواہ وہ اقتدار پر قابض جرنیلی لیگ ہو یا لوہے کی تاجر‘ آہنی مسلم لیگ ہو۔اپنا بھلا چاہنے کا خواہش مند ہر شخص‘ آنکھ کھولتے ہی ن لیگی بن جاتا ہے۔کئی مسلم لیگی ایسے ہیں‘جنہوں نے اپنی پارٹی سے بغاوت کی اور جونہی راہ راست پر آئے‘ دوبارہ ن لیگی بن گئے۔ کسی کی قسمت خراب ہو تو وہ مسلم لیگ کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں چلا جاتا ہے۔ خدامہربان ہو تو واپس اپنی پارٹی میں آجاتا ہے‘ ورنہ اسے زندگی بھرن لیگی بننے کی توفیق نہیں ہوتی۔ البتہ قسمت یاوری کرے تو مرنے سے پہلے ن لیگی ضرور بن جاتا ہے۔اگر وہ ن لیگ سے باہر نکلنے کے فیصلے پر قائم رہے تو جنازے کے لئے بندے پورے کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔لائل پور کے چوہدری شیر علی کا تازہ واقعہ اس کی مثال ہے کہ انہوں نے ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن میں ن لیگ کوشکست نہ دے سکے لیکن الیکشن میں ہار کے رہے ن لیگی کے ن لیگی۔ اپنا جنازہ کون خراب کرتا ہے؟
حالیہ بلدیاتی انتخابات جو قسطوں میں ہو رہے ہیں۔ ان بارہ اضلاع کی پہلی قسط بھگتائی جا چکی۔دوسری قسط میں کتنے اضلاع آتے ہیں؟ اس کا تو مجھے علم نہیں۔ یہ ضرور جانتا ہوں کہ دوسری قسط یقیناًآئے گی۔زیادہ تر راسخ العقیدہ ن لیگی رہتے ہیں ۔جو بھٹک کر چوہدری شیر علی کی طرح مرضی کا انتخابی نشان حاصل کر لے لیکن رہتا وہ ن لیگی ہے۔چوہدری شیر علی کے رشتے دار اور حواری تو شیر کا نشان چھوڑ کر‘ الیکشن میں اترے اور شکست سے چور ہو گئے تو واپس مسلم لیگی بن گئے یا ان دنوں بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔یہ سہولت بہت کم خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔مسلم لیگ کے انتخابی نشان کو ترک کر کے‘ نئے انتخابی نشان کے ساتھ‘ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کو راسخ العقیدہ ن لیگی ہونا چاہئے‘ جیسے کہ چوہدری شیر علی اور ان کے صاحبزادے۔ عوام انہیں مسلم لیگی مانیں یا نہ مانیں لیکن مسلم لیگ کی قیادت کرنے والا گھرانہ‘انہیں خاندان سے باہر کبھی نہیں نکالے گا۔یہ حوصلہ صرف شیر کے اہل خاندان کو ملتا ہے‘ ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ مسلم لیگ کو چھوڑ کر‘ آپ واپس اس میں آجائیں ۔ شیر کے جگر والے کچھ حوصلہ مند ایسے بھی ہوتے ہیں جون لیگ کے شیرکے انتخابی نشان کو چھوڑ کر نئے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ ہار ہو یا جیت ‘ انہیںواپس ن لیگ میں ہی جانا پڑتا ہے‘ البتہ طریقہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اگر ہار جائیں تو شیر خود اپنی کچھار میں بلاتا ہے اور اپنے کنبے میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اوکاڑہ سے ریاض الحق جج صاحب نے شیر جیسی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے ‘آزاد امیدوار کی حیثیت سے ا لیکشن میں حصہ لیا اور ووٹروں کو پہلے سے بتا دیا کہ وہ جیت کر شیر کے ساتھی بنیں گے۔ مسلم لیگ ن سے باہر رہ کر‘ کوئی سیاسی آدمی بکری نہیں بن سکتا اور جب اللہ تعالیٰ کامیابی کے بعد‘ شیر بننے کا موقع عطا فرمائے تو اس سے کون انکار کرے گا؟ اب تک کے انتخابی نتائج میں خود شیر1193 نشستیں حاصل کر کے‘ کامیاب ہوا مگر دوسرے نمبر پر بھی شیر کے گھرانے میں شمولیت کے خواہش مند آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح اصلی شیر اور متوقع شیر‘ مل کربہت ہی بھاری اکثریت حاصل کر لیں گے ۔ جو شیر کے مقابلے میں جیت گئے‘ ان کے شیر ہونے میں تو کسی کو شک نہیں۔ جو آزاد امیدوار بن کر جیتے‘ شیر انہیں بھی اپنی خوراک بنانے میں تامل نہیں کرے گا۔ جو شیر کی مخالفت میں کھڑے ہو کر ہار گئے‘انہیں بکری بن کر رہنا پڑے گا۔یہ سہولت صرف شیر کے رشتے داروں کو حاصل ہے کہ وہ الیکشن ہار کے بکری بن جائیں اور پھر بھی شیر کہلوائیں۔چوہدری شیر علی کوبکری کون مانے گا؟شیر علی‘ ہار کے بھی شیر علی ہی رہیں گے اور راناثنا اللہ‘ انتخابات میں جیت کر پھر بھی بکری بنیں گے ۔ جیتا ہوا شیر ‘ بکری کیسے بنتا ہے؟اور جسے عوام بکری بنا دیں ‘ وہ شیر کیسے بنتا ہے؟ یہ تماشا فیصل آباد کے شہری‘ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں