بھارت نے انگریز کے خلاف سوسالہ جدوجہد کے بعد ہندو مسلم نفرت کی جو انتہا 1940ء کے عشرے کے اواخر میں دیکھی تھی‘ بی جے پی کی صرف ڈیڑھ سالہ حکومت نے‘ اس نفرت کو وہاں سے آگے تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت کی سیاسی قیادت سمجھدار بھی تھی‘ دانشمند بھی اور انسانی فطرت کی رنگا رنگ نزاکتوں کے شعور سے مالا مال بھی۔ برصغیر کے چند علاقے ‘ فسادات کی لپیٹ میں ضرور آئے۔ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم بھی ہوئے اور اپنے آبائی شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر‘ ایک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونے کا عظیم تاریخی المیہ بھی ہوا۔ مگر میں آج آپ کو یاد دلانے کے قابل ہوں کہ خون کے دریائوں سے گزرتے اور اپنے آبائی شہروں اور بستیوں کو چھوڑتے ہوئے‘ انسانیت پر جو صدمے گزرے تھے‘ ان پر چند سال کے اندر ہی وقت اور سیاسی قیادتوں نے مرہم رکھ دیا۔ 1947ء میں خون کے دریا بہائے گئے اورایک عشرہ پورا ہونے سے پہلے‘ دونوں طرف پچھتاوے اور محبت کے چشمے بھی ابلنے لگے ۔
وجہ یہ تھی کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں کی قیادتیں‘ ان عارضی نفرتوں سے بالاتر تھیں‘ جو تنگ نظر اور متعصب اقلیت نے‘ انتہاپسندانہ جذبات بھڑکا کر پیدا کی تھیں۔ آج بھی یاد کر کے حیرت ہوتی ہے کہ اتنا خون بہانے اور اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کو اپنے آبائی وطن سے نکالنے کے باوجود‘ نفرت کی اس لہر پر قابو پا لیا گیا اور دونوں طرف پچھتاوے ‘ اس درندگی پر غالب آ گئے‘ جس نے دونوں قوموں کو تنگ نظری کی لہر میں بہا دیا تھا۔ خون کے دریا ابھی سوکھے نہیں تھے۔ زخم ابھی بھرے نہیں تھے ۔ سرحدوں پر ابھی چوکیاں نہیں بنی تھیں کہ دونوں ملکوں میں دوریاں سمٹنے لگیں اورباہمی مذاکرات شروع ہوگئے۔ شاعروں اور فنکاروں کے جذبات یہ تھے کہ امرتا پریتم نے دلی میں بیٹھ کر لکھا:
اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اور لاہور کے استاد دامن نے پنڈت نہرو کی موجودگی میں پنجابی کی ایک نظم سنائی ‘جس کا ایک شعر تھا:
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسیں وی او روئے اسیںوی آں
نفرت کی لہر ایک دم اٹھتی ہے اور پیشاب کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے‘ جبکہ محبت کے سرچشمے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ بھارت کی تنگ نظر ہندو اقلیت نے ‘ پاکستان کا نام لے کر مسلم دشمنی کے ہندوجذبات کو ابھارا اور آخر کار2014ء میں اقتدار حاصل کر لیا۔ ابھی 2015ء ختم نہیں ہوا کہ بھارت کی بھاری اکثریت ‘تنگ نظری اور عدم برداشت سے نفرت کرنے لگی ہے اور نفرت کی یہ لہر اس قدر تیزی سے اٹھ رہی ہے کہ تنگ نظر حکمرانوں کے اوسان خطا ہونے لگے ہیں۔ بھارت میں انسانیت دوستی کا جذبہ تیزی کے ساتھ ابھر رہا ہے ۔ حکمران جن سنگھیوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنے خلاف اٹھنے والی نفرت کی لپیٹ میں آنے سے کس طرح بچیں؟ سب سے پہلے فنکاروں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں‘ محققوں اور ادا کاروں نے‘ اتنے شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ مودی ٹولہ بوکھلا کر رہ گیا۔ مودی کی حکومت اور اس کے سارے وزیر‘ پورا زور لگا کر ‘ انسانیت دوستی کا پرچم بلندکرنے والوں کے سامنے‘ چند نامور لوگوں کو بھی جمع نہ کر سکے۔ حد یہ ہے کہ اس کام کے لئے انہیں بھارت کی عظیم فلمی صنعت میں سے ‘تیسرے درجے کا ایک اداکار دستیاب ہوا‘ جس کا نام انوپم کھیر ہے اور جسے آج کل فلموں میں قابل ذکر کردار بھی نہیں مل رہے۔ وہ ٹیلیویژن پر شو کر کے‘ گزراوقات کر رہا ہے۔ اسے بھارت کے نامورمصنفوں‘ ادیبوں اور شاعروں کے سامنے کھڑا کیا گیا‘ کہ وہ انسانیت دوست اہل فکر و فن کو‘ وطن دشمن قرار دے کر‘ مودی ٹولے کو سہارا دے سکے۔ آج انوپم کھیر دلی میں ایک جلوس نکالنے والا تھا۔ میں نے بطور خاص بھارتی ٹی وی پر‘ اس کے زیرقیادت ہونے والے مظاہرے کی کوریج دیکھی۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ بھارت کے تمام ٹی وی چینلز اس سرکاری مہم کا‘ کئی دنوں سے پرچار کر رہے تھے۔ ہر اینکر‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر مودی کی وکالت کرنے میں مصروف تھا۔اس بے پناہ پروپیگنڈے کے بعد بھی انوپم کھیر نے ملک کی نامور اور عالمی شہرت رکھنے والی شخصیتوں کی کردار کشی کے لئے جو جلوس نکالا‘ اس میں انوپم کھیر ہی سب سے نمایاں تھا۔انوپم کھیر کی اپنی بیگم ایک نامور فنکارہ ہیں۔ حد یہ ہے کہ انوپم کھیر کے ساتھ وہ بھی نہیں تھیں۔ باقی کوئی ادیب شاعر‘ حتیٰ کہ فلموں میں بطور ایکسٹرا کام کرنے والے مردوزن میں بھی ‘کوئی ایسا چہرہ نظر نہیں آیا‘ جسے پہچانا جا سکے۔ اسے دیکھ کر مجھے ‘مودی حکومت کی تنہائی اور بیچارگی کا اندازہ ہوا اور پتہ چلا کہ مودی حکومت بوکھلائی ہوئی کیوںہے۔
اسی بوکھلاہٹ کے عالم میں ‘مودی نے کشمیر کا دورہ رکھا تاکہ وہاں جا کر مسلمانوں کے ساتھ اظہارمحبت کر کے‘ بھارت میں اپنے خلاف پھیلتی ہوئی نفرت کی لہروں کو روکنے کی کوشش کرے۔ وہ سری نگر میں تقریر کرنے کے لئے ‘بڑے بڑے تاریخی جملے یاد کر کے گیا تھا۔وادی میں ایک ہفتہ پہلے سے کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ ہزاروں شہریوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور ہزاروں کو گرفتار کر کے‘ تھانوں اور جیلوں میں ڈالا گیا۔ بھارت سے شیوسینا اور آر ایس ایس کے کارندے منگوائے گئے۔ لیکن جلسے کی حالت یہ تھی کہ مودی کا پرچار کرنے والے ‘کسی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین کو یہ حوصلہ نہیں پڑا کہ حاضرین کا ایک بھی شاٹ دکھا سکے۔ شاٹس تو لئے گئے ہوں گے‘ لیکن کسی چینل کے پروڈیوسر کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنے وزیراعظم کے جلسے میں آئے ‘حاضرین کی تصویر کشی کر سکے۔میں دو گھنٹے تک بھارت کے مختلف چینلز دیکھتا رہا‘ لیکن مجھے حاضرین کا کوئی منظر دکھائی نہ دیا۔ مودی نے کشمیروں کو 80 ہزار کروڑ کے فنڈز دینے کا اعلان کیا‘ تو تالیوں کی آواز بھی سنائی نہ دی‘ حالانکہ یہ تو کسی پرانے ٹریک سے نکال کر بھی اوورلیپ کی جا سکتی تھیں۔ راہول گاندھی نے بھارتی پنجاب کا دورہ کرتے ہوئے‘ مختلف اجتماعات میںمزے لے کر یہ واقعہ سنایا کہ وزیراعظم بننے کے بعد نریندر مودی‘ منموہن سنگھ سے ملاقات کے لئے گئے۔ میں نے بعد میں‘ منموہن جی سے پوچھا کہ وزیراعظم صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ نے10 سال تک بھارت کی اکانومی کیسے چلائی؟ ‘‘ اگر آپ غور کریں‘ تو مو دی کے سیاسی ساتھیوں میں کوئی سینئر لیڈر نہ تو کسی جلسے میں دکھائی دیتا ہے اور نہ کسی تقریب میں۔ مودی کے ساتھ انتہاپسند ٹولے اورسوائے فرقہ ورانہ نفرت اور تنگ نظری کے کچھ نظر نہیں آتا۔ سونیاگاندھی نے سینکڑوں منتخب اراکین اور ملک گیر شہرت رکھنے والے لیڈروں کے ساتھ‘ ایک مختصر سا پیدل مارچ کیا‘ جہاں انہوں نے بھارت میں پھیلتی ہوئی تنگ نظری کی صورتحال سے‘ صدر جمہوریہ کوآگاہ کیا۔ وزیراعظم صاحب جواب میں‘ ابھی تک قابل ذکر لوگوں پر مشتمل ‘ایک وفد بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ ہاتھ لگا ‘توایک انوپم کھیر‘ جوآر ایس ایس اور شیوسینا کے چند لوگوں کو لے کر‘ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کی جانب جاتا نظر آیا۔ یہ کالم میں دوپہر12بجے لکھ رہاہوں۔ ابھی تک انوپم کھیر صدر یا وزیراعظم کو نہیں مل سکا۔ گزشتہ دنوں بہار میں صوبائی انتخابات مکمل ہوئے۔ کل یعنی 8 نومبر کو انتخابی نتائج سامنے آئیں گے۔ بی جے پی نے پورا زور لگاکر‘ علاقائی جماعتوں کو جمع کرکے‘ ایک متحدہ محاذ بنایا ہے اور مقابلے میں لالوپرشاد اور نتیش کمار ہیں۔ دو نوں فریق کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔ کل پتہ چل جائے گا کہ جیت کس کی ہوتی ہے؟ مودی نے اپنے گروپ کے لئے ہرقسم کے سرکاری وسائل جھونک کر انتخابی مہم چلائی۔ ان کے سامنے صوبائی سطح کے دو لیڈر تھے۔ بہار بہت بڑا صوبہ ہے۔ اگر مودی جی یہاں بھی ہارگئے‘ تو ان کے انتخابی نعرے کے مطابق اچھے دن تو نہیں آئے‘ برے دن ضرورشروع ہو جائیں گے۔ بوکھلاہٹ میں مودی کے انتہاپسند حامی کیاکریں گے؟ اس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ لیکن یہ بات بھارت میں عام ہو رہی ہے کہ مودی ہندوستان کے ٹکڑے کرکے جائے گا یا پھر پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑ کے‘ برصغیر کے عوام کو ایٹمی تباہی سے دوچارکرے گا۔ بھارت کے قومی لیڈر‘ مودی اور اس کے ساتھیوںکے حوالے سے‘ نازیوں کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ان پڑھ شخص بھارت کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔