پاکستانی سیاست میں تبدیلی کے چند کھلے اشارے اتنے معروف ہو گئے ہیں کہ معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی عام آدمی آسانی سے قیاس کر سکتا ہے ''کام شروع ہونے والا ہے۔‘‘ ایک نشانی تو محمود اچکزئی کی ہے۔ جب وہ فوج کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنا شروع کر دیں‘ تو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے فوج کی آمد کا اندازہ کر لیا ہے۔ جب وہ فوج کے خلاف کچھ نہیں بولتے اور خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں‘ تو سمجھنے والے سمجھ لیتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کسی خطرے میں نہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ جب وہ بڑھ چڑھ کر فوج پر تنقید کر رہے تھے۔ میرے ایک جاننے والے وفاقی حکومت کے ملازم کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا۔ وہاں جا کر سب سے پہلے گھر کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ انہیں ایک اچھا سرکاری گھر مل جائے۔ وہ متعلقہ محکمے میں جا کر درخواست دیتے ہیں۔ وہاں کبھی کوئی مکان خالی نہیں ملتا۔ طلب گار کی پہلی کوشش سرکاری گھر لینے کی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا کرایہ واجبی سا ہوتا ہے۔ گھر بڑا اچھا مل جاتا ہے۔ مگر وہ پاکستان ہی کیا؟ جہاں کسی کو اس کا جائز حق مل جائے۔ خصوصاً باہر سے جانے والے افسروں کو تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ غرض مند کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس کے گریڈ کے تحت ‘ کرائے میں حکومت اپنی طرف سے اتنی مدد دے سکتی ہے۔ اس کرائے میں بہتر گھر لینا ہو تو اضافی رقم اپنے پاس سے دے کر لیا جا سکتا ہے ۔ حکومت نے جو رقم گریڈ وار کرایوں کے لئے مخصوص کر رکھی ہوتی ہے‘ اس میں تو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے ‘کراچی کمپنی میں بھی ‘ضرورت کے مطابق کوئی گھر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کسی موٹرورکشاپ کے اوپر فلیٹ خالی ہو‘ تب بھی یہ اضافی کرایہ دے کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی سرکاری افسر‘ موٹرورکشاپ کے اوپر بچوں کے ساتھ رہ نہیں سکتا۔وہ کوشش کرتا ہے ‘ جیب سے زیادہ اضافی کرایہ دے کر اپنی ضرورت کا مکان حاصل کر لے۔ ضرورت کے مطابق وہ سراغ رسانی شروع کر دیتا ہے کہ ایسا کوئی سرکاری مکان تلاش کیا جائے‘ جس پر کسی غیر مستحق نے قبضہ کر رکھا ہو ۔کوئی مکان مل جانے کی صورت میں اس کی کوشش ہو تی ہے ایسے غیرقانونی قابض کوبیدخل کر کے‘ اپنے لئے مکان حاصل کر لے۔
سفارشیں اور تعلق دارو ں کو ڈھونڈنے کے بعد‘ میرے جاننے والے نے آخر کار ایک اچھا مکان ڈھونڈ ہی لیا‘ جو اس کے گریڈ کے مطابق تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ اس مکان پر ایک مدت سے کوئی طاقتور شخص قابض ہے۔ لیکن وہ قانونی طور پر اس میں رہنے کا حق دار نہیں۔جب اُس نے پراسرار شخص کو ڈھونڈنا شروع کیا‘ تو پتہ چلا کہ وہ تومحمود اچکزئی ہے۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے اپنے اس دوست کو ڈھونڈ کر فون پر اس واقعہ کی تصدیق کے لئے کہا۔ بدقسمتی سے میں نے بتا دیا کہ اپنے کالم میں اس واقعہ کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ ''کیا تمہارا نام لکھ دوں؟‘‘ وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ میں نے معاملہ بھانپ لیا اور اسے زحمت دینے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ ''یاد کرنے کی کوشش کے بجائے اس واقعہ کو بھول ہی جائو۔میں خود لکھ دوں گا کہ ایسا کوئی واقعہ میں نے کسی محفل میں سنا تھا۔‘‘ دوست نے سکھ کا سانس لیا اور کہا ''ایسے بیہودہ حوالے دے کر اپنا کالم مت خراب کیا کرو۔‘‘ میں کہہ سکتا تھا ''یار ! آج کل تو ہر دوسرا اینکر بڑے بڑے راز فاش کر رہا ہے۔ میں بیس پچیس سال پہلے کا کوئی قصہ لکھ کر نام فاش کر دوں گا‘ تو کون تصدیق کرتا پھرے گا؟‘‘ میرے دوست نے مشورہ دیا ''اپنی خیریت چاہتے ہو تو ایسا ہی کر و۔‘‘ میں ایسا ہی کر رہا ہوں۔ چنانچہ مجبور ہو کر اس واقعے کومن گھڑت قرار دیتے ہوئے کالم کا پیٹ بھررہاہوں۔ کبھی تو بھرے گا؟ من گھڑت واقعہ یہ ہے کہ محمود اچکزئی جب کسی مشکل میں ہوں‘ تو فوج کے خلاف بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ان کے حالات اچھے جا رہے ہوں تو خاموش رہتے ہیں۔ ابھی تک وہ خاموش جا رہے تھے۔ جس کا مطلب ہے وہ بہت مزے میں ہیں۔ گزشتہ روز اچانک جب انہوں نے فوج کے خلاف سیاستدانوں کا ساتھ دینے کا باغیانہ اعلان کیا‘ تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو ان دنوں ‘یقینا وہ اپنا کوئی کام کرانا چاہتے ہیں۔ میںنے سنی سنائی باتوں کی روشنی میں قیاس کیا کہ خان صاحب کو آنے والے وقت میں فوج سے کوئی کام پڑنے والا ہے ۔ انہوں نے پہلے ہی سے اعلان بغاوت کر ڈالا کہ جب حالات بدلیں‘ تو انہیں کوئی منانے آ جائے اور اس کے بعد آپ جانتے ہیں‘ جو سیاستدان کسی بڑی طاقت کو اپنی بات منوانا چاہے‘ اس کی مخالفت شروع کر دیتا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے میری فہم کے مطابق ‘بے موقع اعلان بغاوت کر دیا ۔ ورنہ فی الحال تو ایسی کوئی ضرورت نظر نہیں آ رہی۔ باخبر سیاستدان اندر کی خبریں عام لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔اسی وجہ سے مجھے شک پڑ گیا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ورنہ محمود اچکزئی کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ اچانک فوج سے لڑائی کی صورت میں سول حکومت کا ساتھ دینے کا چیلنج کر دیں؟یہ فوج کی ممکنہ آمد کی پہلی نشانی ہے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ میاں صاحب کو وزیراعظم بنے ‘جب دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو جائے‘ تو وہ ٹکر ضرور مارتے ہیں۔ جب عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے بحران پیدا ہوا‘ تو مجھے خیال آیا تھا کہ میاں صاحب نے قبل از وقت ہی ٹکر مارنے کی تیاری کر لی ہے۔ بات کچھ اسی طرح کی نکلی۔ ایک رازدار نے انکشاف کیا کہ میاں صاحب واقعی قبل ازوقت ٹکر مار بیٹھے ہیں اور ان دنوں وہ استعفیٰ دینے کی سوچ رہے ہیں۔ وقت ‘میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کے حق میں تھا۔ ہمارے نئے چیف آف آرمی سٹاف ''سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپۂ گری‘‘ سے نسبت رکھنے والے خاندان میں سے ہیں۔ اس لئے وہ کبھی سیاست میں ہاتھ نہیں ماریں گے۔ وہی ہوا۔ خطرات ٹل گئے۔ حکومت سے اکتائے ہوئے میاں صاحب کا دل پھر سے لگ گیا۔ میں نے بھی سوچا کہ اس بار روایت بدلے گی اور میاں صاحب پانچ سال پورے کر لیں گے۔ سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔ اپوزیشن کسی امیر خاندان کے ہاں ٹھہرے ہوئے ‘مہمان کی طرح مزے کر رہی ہے۔ عمران خان نے شادی کر کے‘ ریحام خان کے سابق شوہر کی طرح‘ اپنے چلتے ہوئے کاروبار کو خراب کر لیا۔ عمران نے وہیں شادی کر لی تھی‘ جہاں سے محترمہ کے پہلے شوہر نے بقول خود دنیا میں جہنم کا مزہ چکھا اور ریحام خان کے بقول کالا جادو ہوا۔ عمران خان کو دھچکا لگا اور وہ اپنی سیاست بھول کر‘ محترمہ کے پہلے شوہر کی طرح اوسان خطا کر بیٹھے۔ اب میاں صاحب کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ان کے دشمن بھی یقین کر بیٹھے تھے کہ اس مرتبہ وہ اپنی عادت کے خلاف‘ اقتدار کے پانچ سال پورے کریں گے۔ لیکن میاں صاحب کب ٹلتے ہیں؟ اڑھائی سال گزرنے لگے‘ تو بے چین ہوئے۔ فوجی قیادت سے معمول کی ایک ملاقات کے بعد جی ایچ کیو کی ایک پریس ریلیز کو بہانہ بنا کر‘ انہوں نے اپنے ترجمان کے ہاتھ میں تیرکمان دی اور کہا ''ایک آنکھ بند کر کے چلا دو۔‘‘ اس خدا کے بندے نے بھی ایک کے بجائے‘ دونوں آنکھیں بند کر کے تیر چلا دیا۔روایت کے عین مطابق میاں صاحب کی ٹکر کا وقت پھر آ گیا ۔ محمودخان اچکزئی نے اپنے پرانے دوستوں کو پھر اشارہ کر دیا ہے کہ وہ انہیں منانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ روٹھنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ بلکہ انہوں نے اعلان بھی کر دیا ہے۔ آج کل کے لکھنے والوں نے ایک شعر کو بری طرح سے پامال کر رکھا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
لیکن میاں صاحب پر یہ شعر صادق نہیں آتا۔ وہ حادثے کی پرورش کے لئے ‘وقت کو برسوں کا موقع ہی نہیں دیتے ۔ حفیظ جالندھری نے شاید انہی جیسے شخص کے لئے لکھا ہے۔
سایہ ء خدائے ذوالجلال
ابھی تک تو میاں صاحب کی ہر ٹکر نشانے پر لگی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟