"NNC" (space) message & send to 7575

ہائے دل

فوج اور حکومت کے درمیان تنازعے کی وجہ کیا ہے؟ مجھے اس سے غرض نہیں کہ کون سچا ہے اور کون غلط بیانی سے کام لے رہا ہے؟ کون آئینی دائرے کے اندر ہے اور کون باہر؟ میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان تکرار‘ اختلاف یا تنازعہ پیدا ہو تو شامت ہم عام شہریوں کی آتی ہے۔ فوجی آمر اقتدار پر قبضہ کر لیں‘ تب بھی ہماری شہری آزادیاں سلب ہوتی ہیں اور روٹی روزگار کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو‘ ایک ہی شکایت سننے میں آتی ہے کہ حکمرانوں نے لوٹ لیا‘ ہمیں برباد کر دیا۔ کرپشن کرنے والے بااختیار ہیں۔ عوام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہر بار عوام ہی سچے ہوتے ہیں۔ مجھ جیسے کچھ پاگل‘ آئین اور قانون کی روشنی میں برسراقتدار اور محروم اقتدار حکمرانوں کے تنازعات کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک فریق دوسرے کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور دوسرا پہلے کو۔میرے لئے حقیقت صرف یہ ہے کہ میری تنگ دستی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آمدنی بڑھتی رہتی ہے اور روپیہ گھٹتا رہتا ہے۔ 1966ء میں ‘ میں پونے 2 روپے میں ایک کلو گوشت خرید لیا کرتا تھا۔ اب یہی ایک کلو گوشت 800 روپے کلو مل رہا ہے۔ چھوٹے بڑے گوشت کی باتیں ‘اب سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ ورنہ پہلے زمانے میں تو گوشت کا مطلب‘ بکرے کا گوشت ہی ہوتا تھا۔ بقول ابن انشاء ‘ مرغی کا گوشت یا تو بیمار آدمی کھاتا تھا یا غریب آدمی اس وقت کھاتا تھا‘ جب مرغی بیمار ہوتی تھی۔ گائے کا گوشت‘ جو اصل میں بھینس کا ہوتا ہے‘ اس کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔ اب تو اچھے خاصے معززین بھی بھینس کا گوشت خریدنے لگے ہیں۔ 
میرے لئے اس جھگڑے میں کچھ نہیں رکھا کہ گڈ گورننس کس کا مسئلہ ہے؟ اب یہ بحث زیادہ چلنے لگی ہے‘ تو میں نے بھی چھان بین شروع کر دی کہ کرپشن پر اتنے جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ بڑی دیر کے بعد سمجھ آئی کہ جھگڑا کرپشن پر نہیں‘ جھگڑا اس پر بات پر ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ پتہ یہ چلا کہ اصل جھگڑا اقتدار کا ہے۔ جو اقتدار پر قابض ہو جائے‘ کرپشن کرنے کی طاقت اس کے پاس آ جاتی ہے اور جو اقتدار سے باہر ہو‘ اس کے پاس کرپشن کا اختیار نہیں رہتا۔ جس کے پاس اختیار نہیں رہتا‘ اس کی دولت میں کمی آنے لگتی ہے اور وہ کرپشن کا شور مچا کر‘ عام آدمی کو یہ باور کرانے لگتا ہے کہ تمہارے لئے گزراوقات کرنا‘ اس لئے مشکل ہو رہا ہے کہ اہل اقتدار کرپشن کر رہے ہیں۔ عام آدمی یہ بھی نہیں سوچتا کہ بھائی کرپشن آپ کر رہے ہیں یا آپ کے مخالفین؟ میرے رزق میں تو دونوں طرح سے کمی ہوتی جا رہی ہے۔ میں آپ کے حق میں نعرے لگاتے لگاتے ووٹ دے دوں اور آپ کو اقتدار مل جائے۔آپ بھی کرپشن کریں گے۔ میں نے نعرے لگانے اور ووٹ دینے کی جھک کیوں ماری؟ پہلے سیاسی جماعتیں اور فوجی حکمران اگر کرپشن کرتے بھی تھے‘ تو عام آدمی کو روٹی پھر بھی مل جاتی تھی۔ سکولوں میں بچے پڑھ لیا کرتے تھے۔ ہسپتالوںمیں دوائیں بھی مفت مل جایا کرتی تھیں۔ تانگے کا کرایہ بھی تھوڑا ہوتا تھا۔ مکان بھی سستے کرائے پہ مل جاتا تھا۔ اس لئے ہم زیادہ تردد نہیں کرتے تھے اور ہمارا چلن یہ ہوتا تھا کہ ''چلو! روٹی چل رہی ہے۔ باقی اللہ ٹھیک کر دے گا۔‘‘ کافی عرصے تک تو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرتے رہے۔ لیکن جب حکمرانوں نے دیکھا کہ اب لوگ اتنا تنگ آ گئے ہیں کہ ان کا اللہ پہ بھروسہ اٹھتا جا رہا ہے‘ حکمرانوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کے ایجنٹ رکھ لئے اور مختلف مسالک کے مُلا‘ اپنے اپنے مسلک کے ماننے والوں کو بتانے لگے کہ اللہ کس کو ووٹ دینے سے مہربان ہو گا؟ ہم نے اللہ کے نام نہاد ایجنٹوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ یہ اللہ کے ایجنٹ جو پہلے ہماری طرح رہتے تھے‘ عموماً مسجد کے حجرے میں رہائش رکھتے تھے۔ پیدل یا سائیکلوں پر آتے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ سبزی‘ کریانے یا قصائی کی دکان پر کھڑے دکھائی دیا کرتے تھے کرپشن روکنے کی جدوجہد میں اللہ نے ایجنٹوں پر مہربانی شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ‘ان کے دن پھرنے لگے۔ پہلے ان کے لباس میں خوشحالی کی جھلک نظر آئی۔ پھر وہ گھر کا سودا خریدنا چھوڑ گئے اور ان کے ملازم یا شاگرد گوشت سبزی کی دکانوں پر نظر آنے لگے۔ پھر وہ چھوٹی کاروں میں بیٹھنے لگے۔ تھوڑے ہی عرصے 
بعد بڑی بڑی کاریں آ گئیں‘ جن کے نام بھی اعلیٰ درجے کی طوائفوں کی طرح دلکش اور متاثر کن ہو گئے۔ کسی کا نام پجیرو ہوا۔ کسی کا لینڈ کروزر۔ کسی کا پراڈو اور کسی کا لینڈ روور۔ پہلے اللہ کے یہ ایجنٹ‘ ایک ہی طرح کے ڈیزائن اور رنگ دار قسم کی گاڑیاںرکھتے تھے۔ ان کے بعد ڈالے آ گئے۔ اللہ کے ایجنٹوں کی فیشن ایبل ناموں والی گاڑیوں کے ساتھ ‘ڈالے چلنے لگے۔ ڈالے میں کلاشنکوفوں سے مسلح گارڈ کھڑے ہو گئے۔ اب ہمارے حکمرانوں کی طرح ‘اللہ کے ایجنٹ بھی ہم سے دور ہو گئے۔ ہماری بے بسی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اللہ کے یہ ایجنٹ ‘ حکمرانوں کے محافظ بن گئے۔ جب اقتدار کی چھینا جھپٹی کرنے والوں میں زیادہ زور آزمائی شروع ہو گئی‘ تو اللہ کے جو ایجنٹ پہلے ہماری مدد کے لئے میدان میں آئے تھے‘ ترقی کر کے حکمرانوں کے مابین درمیانداری کرنے لگے۔ جب حکمرانوں کا ایک ٹولہ‘ دوسرے سے برسرپیکار ہوتا‘ تو اللہ کے ایجنٹ ‘دونوں فریقوں میں صلح صفائی کرنے پہنچ جاتے۔ بات بن جاتی‘ تو ان کی عزت و وقار اور دولت مندی میں اضافہ ہو جاتا اور اگر لڑائی طول پکڑ لیتی‘ تو اللہ کے ایجنٹ ‘ مفت کی معتبری چھوڑ کے‘ کسی بڑے کام کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس طبقے میں سرفرازی و سربلندی ‘حضرت مولانا فضل الرحمن کو حاصل ہوئی۔ پتہ نہیں لوگ انہیں ڈیزل ڈیزل کیوں کہتے ہیں؟ میں نے تو سنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی گاڑی میں ہائی اوکٹین ڈلواتے ہیں۔ پھر ان کے حوالے سے ڈیزل کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟ عام لوگ بھی بڑے بدھو ہوتے ہیں۔ سپیشل برانڈ کے مولانا ‘بڑی بڑی ذمہ داریاں لے کر ‘ بڑے بڑے فائدے اٹھاتے ہیں۔کشمیریوں کا خیال ہے کہ بھارتیوںنے ان کی ریاست پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانیوں نے اپنے حصے کے کشمیر میں اپنی حکومت بنا رکھی ہے اور کشمیریوں کا استحصال کرتے ہیں۔ بدنام ہندوستان اور پاکستان ہو رہے ہیں۔ عیش و عشرت کا مزہ انہیں مل رہا ہے‘ جو تنازعہ کشمیر کے حل کی ذمہ داریاں سنبھال کر‘ اپنی ضروریات اور اپنے خاندان کے تقاضے‘ ٹھاٹھ سے پورے کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان والے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ دونوں کے فوجی اور شہری گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن کشمیر کے نام پر عیش و عشرت کرنے والے ''حضرت صاحب‘‘ نہ کبھی مقبوضہ کشمیر گئے اور نہ کبھی آزاد کشمیر میںنظر آئے۔ کشمیریوں کا مسئلہ بھی حل کرنا ہو‘ تو وہ یورپ جانا پسند کرتے ہیں۔ ایک ہی پھیرے میں خدا کا گھر بھی دیکھ آتے ہیں اور خدا کی شان بھی۔ 
بات شروع ہوئی تھی بیڈ گورننس سے‘ جو پرانے اور نئے حاکموں کے درمیان ‘ان دنوں بحث و تکرار کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ کافی عرصے تک سیاستدان حکمران‘ فوجیوں کے ساتھ مل کر کام چلاتے رہے۔ لیکن کچھ دنوں سے مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اللہ کے مسلح ایجنٹ ‘ اسلحہ سنبھال کردولت میں اپنا حصہ طلب کرنے لگے ہیں۔ حکمران طبقوں نے تو انہیں حصہ دینا شروع کر دیا۔ لیکن وہ حصہ لینے کے باوجود بھی‘ انہیں آنکھیں دکھانے لگے۔ اب حکمرانوں نے فوج سے مددمانگی۔ فوج میدان میں آئی‘ تو خدا کے مسلح ایجنٹ ‘اس کے سامنے آ گئے۔ اللہ کے نام نہاد ایجنٹوں اور فوج کے درمیان خوب جنگ ہوگئی۔ حکمرانوں کے مزے ہو گئے۔ سب نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کرپشن سے فیضیاب ہونا شروع کر دیا۔ حکمرانوں نے جن چمچوں کو کرپشن کا مال سمیٹنے پر مامور کر رکھاتھا‘ وہ اللہ کے ایجنٹوں کی بھی مدد کرنے لگے۔ جھگڑا یہ پیدا ہوا کہ حکمران اور اللہ کے ایجنٹ تو‘آپس میں حصے دار بن گئے اور فوج دونوں طرف سے نشانہ بننے لگی۔ اس کے افسر اور جوان‘ اللہ کے ایجنٹوں کا نشانہ بن کر شہید ہونے لگے ۔قانون شکنی کرنے والوں پر قابو پانے کی ذمہ داریاں بھی اسی کے کندھوں پر آن پڑیں۔فوج سابقہ ناکامیوں سے بچنے کے لئے ساری خرابیوں کی جڑ ‘یعنی کرپشن ختم کرنے کا مشورہ دے رہی ہے تاکہ امن ہو اور وہ بیرکوں میں واپس جائے۔ لیکن کرپشن کے سارے حصے دار‘ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایک طرف فوج کو آئینی بندھنوں میں باندھ کر بے دست و پا کرنے والے ہیں اور دوسری طرف کرپشن کے پیسوں سے اسلحہ خریدنے والے‘ فوج پر حملہ آور ہیں۔ عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کا ساتھ دیں؟ اور ساتھ دینا بھی ہے تو کیسے دیں؟ پیٹ سے بھوکے‘ پیروں سے ننگے اور اسلحہ سے خالی ہاتھوں کے ساتھ عوام کے بس میں کیا ہے؟ مجھے تو عوام کے لئے یہی لائحہ عمل موزوں دکھائی دے رہا ہے ؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں