پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف اپنے حالیہ دورے میں امریکی میزبانوں سے کیا کہہ سکتے ہیں؟ ان کی گفتگو کا موضوع افغانستان رہے گا؟ پاکستان اور بھارت کے نیو کلیئر پروگرام ہوں گے؟ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت ہو گی؟ یا فرانس کے حالیہ سانحے کے نتائج پر امکانی ردعمل پر غورو خوض ہو گا؟۔خود پاکستان کے اندر جو صورت حال پیدا ہوئی ہے‘ امریکہ اس سے بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔جنرل راحیل شریف کی اسلام آباد سے واشنگٹن روانگی کے وقت‘ جو ماحول پیدا ہو گیا تھا ‘وہ بھی امریکی میزبانوں کے لئے پریشان کن تھا۔ فوج کی طرف سے حکومت کو محض اتنا کہا گیا تھا کہ اسے گڈ گورننس کی طرف توجہ دینا چاہئے لیکن اس کے جواب میں وزیراعظم ہائوس کی طرف سے جو کچھ کہا گیا‘ وہ خلاف توقع تھا۔پاکستان کے انتظامی سربراہ اوروزیراعظم کی طرف سے مختلف اداروں کو آئینی حدود کے اندر رہنے کی نصیحت کا موقع و محل پیدا نہیں ہوا تھا جسے زبردستی پیدا کیا گیا۔فوج کی طرف سے گڈ گورننس کی خواہش کا اظہار‘ اس کی ضروریات کا تقاضا تھا۔ملک میں دہشت گردوں کی طاقت کو ختم کرنا‘ فوج کی ذمہ داری تھی۔ اس نے اپنا یہ کام‘ نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ ملک میں کم و بیش روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے۔ سکیورٹی فورسز کے افسراور جوان شہید کئے جا رہے تھے۔ عام شہریوں کی زندگی غیر محفوظ ہو کے رہ گئی تھی۔کراچی میں لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ کوئی عام شہری‘ تاجر‘ دکاندار اور بڑے کاروباری لوگ محفوظ نہیں تھے۔ا نہیں ڈرا کر‘ زبردستی بھتے وصول کئے جاتے اور جو کوئی انکار کرتا‘ اسے اغوا کر لیا جاتایا مارکیٹ کے اندر ہی قتل کر دیا جاتا۔
شہر کی گلیوں میں غنڈوں کے گروہوں کے مابین‘ کھلی جنگیں ہوتیں۔ پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کی زندگیاں غیر محفوظ تھیں۔ ٹارگٹ کلرز شہر میں دندناتے پھرتے۔ کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب اور کس طرف سے اسے گولی لگ جائے گی۔علما کرام‘ سیاسی لیڈروں اور سماجی کارکنوں کو سرعام ہلاک کر دیا جاتا۔اغوا برائے تاوان کا چلن عام تھا۔معمولی معمولی بات پر‘ ہڑتالوں کا اعلان کر کے‘ دکانداروں کو اسلحے کے زور پر مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنا کاروبار بند رکھیں۔ ہڑتال کا حکم دینے والی تنظیم‘ جب اگلے روز ہڑتال کا اعلان کرتی تو اس کے مسلح کارندے‘ رات ہی کو اسلحہ کے زور پر ‘ دکانیں اور مارکیٹیں بند کرانا شروع کر دیتے اور صبح کے وقت شہر سائیں سائیں کر رہا ہوتا۔ کراچی کی پر رونق زندگی معطل ہو کر رہ جاتی اور کسی میں طاقت نہیں تھی کہ حکم دینے والوں کے احکامات کے خلاف‘بچوں کے لئے دودھ اور بیماروں کے لئے دوائیں تک فروخت کر سکے۔ یہ تھا وہ ماحول‘ جس میں رینجرز کو شہر میں امن و امان بحال کرنے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ستم ظریفی یہ تھی کہ حکومت‘ سماج دشمن عناصر کی درپردہ سرپرستی کرتی۔خوداس کے تحفظ میںسماج دشمن عناصر ‘اپنی بہیمانہ کارروائیاں کرتے۔ فوج کو دو محاذوں پر لڑنا پڑا‘ ایک تو حکومت میں بیٹھے ہوئے وہ عناصر‘ جو سماج دشمنوں کی سرپرستی کرتے اور دوسرے خود غنڈوں اور بدمعاشوں کے گروہ جو پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو بے دھڑک گولیوں کا نشانہ بنا کر بھاگ جاتے۔ فوج نے دونوں محاذوں پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ خصوصاً شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے وہ اڈے‘ جو ہر طرح کے جرائم پیشہ عناصر کی پناہ گاہ تھے۔کراچی سے لے کر اسلام آباد تک‘ جن افراد کو تاوان کے لئے اغوا کیا جاتا‘ ان میں سے بیشتر کو میران شاہ کے قید خانوں میں بند رکھا جاتا۔ پولیس اور فوج کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان خفیہ ٹھکانوں میں جا کر‘ اغوا شدہ شہریوں کو بازیاب کرا سکے۔ یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ میران شاہ میں دہشت گردوں کے محفوظ اڈے ناقابل تسخیر ہیں اور واقعی ان کی کمین گاہیں‘ مورچے اور مسلح جنگجو انتہائی طاقتور تھے۔ مقامی آبادی کو انہوں نے خوف زدہ کر رکھا تھا۔ بازاروں کے اندر‘ عام لوگوں کو جمع کر کے‘ بے گناہوں کو پھانسیاں دی جاتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ دہشت گردو ں کے مقبوضہ علاقے میں داخل ہونے سے ڈرتے۔
یہ تھی وہ صورت حال جب فوج نے شمالی وزیرستان اور کراچی میں دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور غنڈہ گروہوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ اس جنگ کے دوران‘ ہزاروں شہریوں‘ فوج کے افسروں اور جوانوں اور کراچی میں پولیس ملازمین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ کراچی کا امن 75فیصد بحال ہو چکاہے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کر کے‘ انہیں یا تو مار اجا چکا ہے یا بھگایا ۔ شمالی وزیرستان کو ان سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ اس جنگ کے دوران‘ علاقے کی پر امن آبادی کو بال بچوں سمیت بے گھر ہونا پڑا۔فوج کو شکایت یہ ہے کہ اس نے اپنا خون بہا کر جب سوات کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا تھا تویہ حکومت کا کام تھا کہ وہ سوات کے شہریوں کو دوبارہ آباد کرتی لیکن وہ اس پورے علاقے میں عوام کو امن اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے باوجود‘ فوج نے شمالی وزیرستان کا آپریشن کیا اور جن خاندانوں نے‘ بال بچوں سمیت کیمپوں میں پناہ لے کر‘ اذیت ناک زندگی اختیار کی‘ وہ ابھی تک اسی حالت میں رہ رہے ہیں‘ حکومت نے ان کی مدد کے لئے کچھ نہ کیا۔ ان کی دیکھ بھال بھی خود فوج نے کی۔فوج نے اپنے محدود وسائل سے‘ بے گھر خاندانوں کی جہاں تک ممکن تھا‘ دیکھ بھال کی۔
ظاہر ہے فوج بے گناہ شہریوں کو عورتوں اور بچوں سمیت بے یارو مددگار دیکھ کر‘تکلیف محسوس کر رہی تھی۔اس نے با ربار حکمرانوں سے اپیلیں کیں کہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کر کے‘ دہشت گردوں کو بھگا دیا ہے۔ اب شہریوں کو دوبارہ آباد کرنا‘ اس کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کو ان کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔جب فوج سے دہشت گردی ختم کرنے کے مطالبے کئے جاتے ‘تو اس کے سربراہ اور افسر بار بار یاد دلاتے کہ جو شہری دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران بے گھر ہوئے ہیں‘ انہیں دوبارہ گھروں کے اندر آباد ہونے میں مدد دی جائے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ یہ تھی وہ صورت حال‘ جس کے پس منظر میں حکومت کو تحریری طور پر یاد دہانی کرانا پڑی لیکن اس کے لئے بھی محض گڈ گورننس کا تقاضا کیا گیا۔جو مسئلے کی شدت اور نوعیت کی نسبت‘ انتہائی مہذب اور شائستہ طرز اظہار تھا مگر حکومت کے ردعمل سے معلوم ہوا‘ جیسے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہو۔فوج سے زیادہ کون جانتا تھا کہ حکومت‘ اس کی کامیابیوں پر بڑھ چڑھ کے کریڈٹ لیتی ہے اور اس کی اصل حقیقت کیا ہوتی تھی؟ فوج چونکہ ڈسپلن کی پابند ہے‘ اس لئے وہ خاموشی سے دیکھتی رہی کہ حکومت اس کی قربانیوں پر کیسے بڑھ چڑھ کے کریڈٹ لے رہی ہے؟۔ جبکہ وہ اپنے حصے کی کوئی بھی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ شاید یہی غیر ذمہ داری تھی ‘ جس نے گڈ گورننس کی اپیل پر فوج کو مجبور کیا ۔ حکومت کی طرف سے جو ردعمل ظاہر کیا‘ اس سے یوں لگا‘ جیسے حکومت کی غیر ذمہ داری سے پردہ اٹھا دیا گیا ہو لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے۔ چند ہی روز میں چیف جسٹس آف پاکستان‘ جناب انور ظہیر جمالی نے بھی اپنے ایک خطاب میں بیڈ گورننس کی نشاندہی کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے ہی حکومت کی غیر ذمہ داریوں اور عدم کارکردگی کا ذکر عام ہوا اور کرپشن پر عوام اور میڈیا کھل کر‘ اظہار خیال کرنے لگے تو چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق‘ ارباب اقتدار نے بغیر کسی سوال کے ‘خود ہی کہنا شروع کر دیا کہ وہ تو اپنا کام بڑی دیانت داری کے ساتھ کر رہے ہیں۔ایک ہی دن میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ وہ سرکاری خزانے کی ایک ایک پائی ‘ایمانداری سے خرچ کر تے ہیں۔ بعد میں تو وزیراعظم نے کئی خطابات میں عوا م کو یہ بتایا کہ ان کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ انہو ں نے مختلف منصوبوں میں کئی کئی ارب روپے بچا کر‘ دیانت داری کے تقاضے پورے کئے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ فوج کی طرف سے گڈ گورننس کے مطالبے سے پہلے‘ کبھی کسی کو اپنی کارکردگی پر صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔محض گڈ گورننس کا جائز مطالبہ سن کر‘ نہ صرف حکومت اشتعال میں آگئی بلکہ اس کے بڑے بڑے لیڈر‘ اپنی مالیاتی کارکردگی اور دیانت داری کی مثالیں پیش کرنے لگے۔ جیسے ایمانداری کا مظاہرہ کر کے‘ وہ عوام پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ حالانکہ پبلک سروس کا بنیادی تقاضا ہی‘ ایمانداری اورعمدہ کارکردگی ہوتی ہے۔
حکمران حلقے‘ جنرل راحیل شریف کے حالیہ امریکی دورے کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ موجودہ صورت حال میں ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا تقاضا تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں امریکہ اور عالمی برادری کے خدشات کو دور کرتے۔ فرانس کے سانحے کے بعد‘ پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں تو امریکی حکام کے ساتھ‘ تبادلہ خیال ناگزیر ہو گیاتھا اور وہ ایک نئی جنگ کے آغاز ہی میں بڑی طاقتوں کے منصوبوں اور ارادوں سے باخبر ہو سکیں گے خصوصاً افغانستان میں داعش کی موجودگی پر‘ پاکستان سے عالمی برادری جو توقعات کر رہی ہو گی‘ ان کے بارے میں پاک افواج کے سربراہ‘ کو پہلے ہی مرحلے میں آنے والے حالات کو سمجھنے کا بروقت موقع مل گیا۔ تبدیلی اب پورے خطے میں آئے گی‘ پاکستان دنیا سے الگ نہیں۔