"NNC" (space) message & send to 7575

آنے والی تبدیلی کی منزل؟

25نومبر کو روزنامہ ''دنیا‘‘ کے ملتان سے اجرا کی تقریبات میں شرکت کے لئے گزشتہ تین روز ملتان میں گزرے۔ ہمارے مینجنگ ڈائریکٹر نوید کاشف ‘آزمائش کے ہر موقع پر نئی توانائیوں اور جدتوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور عموماً سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ ان کی اور ساتھیوں کی محنتوں کا نتیجہ تھا کہ ملتان جیسے شہر میں پہلے روز‘ اخبار کی 50ہزار کاپیاں ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہو گئیں۔ ملتان شہر میں کسی بھی اخبار کی زیادہ سے زیادہ سرکولیشن 10 ہزار تک رہی۔ یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ ایک نیا اخبار 50ہزار کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے۔ ظاہر ہے ‘ یہ ایک نئے اخبارکو دیکھنے کا تجسس تھا۔ اخبار کی اصل اشاعت کا تو چند روز کے بعد فیصلہ ہو گا۔ افتتاحی تقریبات کی تفصیلات فی الحال نہیں لکھ پائوں گا۔ دل چاہتا ہے کہ آج قارئین کو ان بڑی بڑی خبروں کی سنسنی میں شریک کروں‘ جن کا پاکستانی عوام کو مدتوں سے انتظار تھا۔ غیرسیاسی لوگوں کی طویل حکمرانی نے پاکستانی عوام کے احساسات کو کند کر دیا ہے۔ اب وہ امید کا دامن بھی چھوڑتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی نیم مردہ مخلوق خدا کو ڈار اینڈ کمپنی‘ گِدھّوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا رہی ہے۔کبھی یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کر کے یہ لوگ ‘ انسانی گوشت کا ایک لقمہ لیتے ہیں۔ تیس دنوں کے بعد‘ نیا لقمہ توڑتے ہیں۔ لقمے توڑنے کی رفتار تیزسے تیزتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس بار مختلف مدات میں عوام کو جو بل بھیجے گئے ہیں‘ ان میں نئے اور اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں‘ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ دھاندلی زدہ نام نہاد انتخابات میں ‘نام نہاد کامیابی حاصل کرنے کے بعد‘ ڈار اینڈ کمپنی کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ہر مرتبہ یوٹیلٹی بلز عوام کی قوت برداشت کو مزید آزمانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہمارے نیم جان جسم سے ہر نیا لقمہ کاٹ کر ‘ حکمران ہماری بے حسی کی آزمائش کرتے ہیں اور جب تک ہم لقمہ لقمہ خاموش رہ کر بے رحم حکمرانوں کو لذت کام و دہن کے مزے اڑانے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے‘ یہ ہمارے اندر زندگی کی طرف بڑھنے کی خواہش کو مفلوج کرتے رہیں گے اور ایک دن ہمیں غلاموں کی طرح آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کے بھاگ جائیں گے۔ 
ہمارے اندر تو اپنا بچائو کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی۔ لیکن جہاں سے قرضے اٹھا کر یہ ہمیں گروی رکھتے جا رہے ہیں‘ وہ قرض خواہ اپنے سرمائے کی واپسی سے مایوس ہو کر پریشان ہو رہے ہیں۔ ان کے اس فکر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اگر پاکستانی عوام کے جسم سے ان کی بساط سے بڑھ کر خون نچوڑا جاتا رہے گا‘ توپھر ڈار ٹولہ بغل میں جوتے دبا کر ‘ ننگے پائوں بھاگ کھڑا ہو گا۔ مفلوک الحال پاکستانی قوم‘ ان کے قرضے اتارنے کے قابل نہیں رہے گی۔ آخر کار اپنے قرضے کی وصولی کے لئے ‘انہیں قرضوں کا بڑا حصہ معاف کرنا پڑے گا۔ 
ہر کامیاب ساہوکار کی طرح‘ ہمارے عالمی قرض خواہوں کوفیصلہ کن مرحلہ آنے سے پہلے کچھ نہ کچھ انتظامات کرنا پڑیں گے۔ پہلے اقدام کے طور پر‘ انہوں نے ہمارے حکمران ٹولے کو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ آپ جب تک کرپشن کو قابو میں لا کر ‘ ہمارے قرض تواتر سے لوٹانے کا انتظام نہیں کرتے‘ ہم مزید سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ میں نیم جان پاکستانیوں کو یہ لکھ کر دلاسہ دینے کی کوشش کر رہا ہوںکہ ڈار اینڈ کمپنی پر‘ بیرونی دبائو شروع ہو گیا ہے کہ حکمران ٹولہ کرپشن کی اندھی لوٹ مار میں کمی کر کے‘ عوام کا مزید خون نچوڑنا بند کر دے۔ ورنہ پاکستان کے یرغمالی عوام کی سانسیں برقرار رکھنے کے لئے‘ ہمیں کچھ کرنا پڑے گا۔ 
اس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان میں صرف وہی بیرونی سرمایہ کار آ رہے ہیں‘ جو اپنی رقم اور منافع‘ ایک سال کے اندر اندر واپس لے جا سکیں۔ طویل مدتی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔ ڈاراینڈکمپنی کو بار بار انتباہ کیا جا رہا ہے کہ جیسے بھی ہو‘ وہ قسطوں کی بروقت ادائیگی کرتے رہیں اور ایسا کرنے کے لئے وہ عوام کا مزید خون نچوڑنا روک دیں۔لیکن ماہرین کا اندازہ ہے کہ جس حکمران ٹولے کے منہ‘ انسانی خون لگ چکا ہے‘ اسے تازہ خون پینے سے روک دیا گیا‘ تو وہ سب کچھ چھوڑ کر‘ بیرونی دنیا میں رکھے ہوئے سرمائے کے بل بوتے پر‘ اپنی عیش و عشرت برقرار رکھیں گے اور پھر انتظار کریں گے کہ کب پاکستانی قوم ‘ اپنے مفرور حکمرانوں کی لوٹ مار سے بچے ہوئے اثاثے سنبھال کر‘ اپنی حالت بھی سدھارے گی اور قرضوں کی اقساط میں رعایت دے کر‘ قرض خواہ ادارے اور ملک بھی اس کی مدد کریں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ ڈار ٹولہ لوٹ مار کا سلسلہ بند ہونے پر جلاوطنی کی ترکیب دوہرائے گا۔ یہ ٹولہ پہلے ہی شاہی میزبانوں کے خرچ پر ‘جلاوطنی کابندوبست کر چکا ہو گا۔ جو دولت اس نے پاکستانی عوام کا خون نچوڑ کر ‘ بیرون ملک جمع کی ہے‘ اس سے وہ اپنے نئے نئے کاروبار شروع کر لے گا۔ میزبان ملک میںنئی ملیں لگائے گا۔ نفع بخش جائیدادیں خریدے گا اور ان کے جانشین تباہ حال معیشت کو سنبھالنے میں ناکام ہو کر‘ ان کی مدد چاہیں گے۔ پاکستانی عوام ‘جو ڈار ٹولے کو خون پلاپلا کر بدحال ہو چکے تھے‘ ان کے جسم میں دوبارہ جان آ چکی ہو گی۔ کیونکہ بری سے بری حکومت بھی ‘اتنی مقدار میں عوام کا خون نہیں پی سکتی‘ جتنا خون ‘ڈار ٹولہ پینے کی ہمت رکھتاہے۔کیا ہمارے ساتھ پھر وہی کچھ ہونے والا ہے؟ کیا ہمارے عادی حکمران پھر سے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے؟ کیا یہ پھر سے ہم پر مسلط ہو جائیں گے؟ پھر سے ہمارا خون نچوڑیں گے؟ اس بار شاید ایسا نہ ہو۔ بیرونی سرمایہ کاروں اور تاجروںکی پرانی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اب تک بیرونی سرمایہ کار مقامی ‘ حکمرانوں کے ذریعے ہمارا خون نچوڑتے رہے ہیں۔ اب انہیں تجربہ ہو چکا ہے کہ جب کسی ملک کے عوام کا خون پینے کے لئے پٹھو حکمرانوں کی مدد لی جائے گی‘ تو تھوڑے ہی عرصے کے بعد ‘عوام کی رگوں میں خون کی گردش رک جائے گی اور وہ مردوں کے شہروں‘ بستیوں اور کھیتوں میں پیدا ہونے والی دولت کا‘ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں گے۔ اب انہیں استحصال کے طریقے بدلنا ہوں گے اور وہ بنیئے کی روایتی کہاوت پر عمل کریں گے کہ ''سارادھن جاتا دیکھیو‘ تو آدھا دیجو بانٹ۔‘‘آنے والے دنوں میں ہماری دنیا‘ ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ اس میں تجارتی رکھ رکھائو‘ رواداری اور عوام کی پیدا کی ہوئی دولت لوٹنے میں ‘ احتیاط سے کام لیا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ استحصالی طبقے رحم دل ہو جائیں گے۔ اصل میں یہ طرزعمل ان کی مجبوری ہو گی۔ وہ صدیوں سے یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ عوام کے انسانی حقوق سلب کر کے‘ لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنا‘ اب ممکن نہیں رہے گا۔ اب انہیں قانون کے تحت آزادیاں دینے کا ایک ایسا نظام وجود میں لایا جائے گا‘ جس میں نرمی اور دولت پیدا کرنے والے عوام کو اتنا حصہ ضرور دے دیا جائے گا‘ جس پر وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ عوام کو امورمملکت چلانے میں حصے دار بنا کر ‘ ان کے اندر احساس ملکیت برقرار رکھنے کی ترکیبیں لڑائی جائیں گی۔ مکمل مساوات‘ انسانی اقداراور معیشت کے اسلامی قوانین کی امید کرنا تو قبل از وقت ہے۔ مجھے شک ہے کہ جب دنیا بھر کے حکمران طبقوں کو استحصال سے حاصل ہونے والی صدیوں پرانی آسائشوں سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ تو یہ دنیا کو تباہ کر دیں گے۔ جس کی ابتدائی جھلکیاں ہمیں ابھی سے دکھائی دینے لگی ہیں۔ معمول کی زندگی بسر کرنے والی کمزور قوموں پر یلغار کے لئے ‘پہلے امریکیوں نے خود اپنے شہری ہلاک کرائے اور تیل کی دولت سے مالامال ملکوں کے حکومتی ڈھانچے تباہ و برباد کر دیئے۔ جو برائے نام حکومتیں باقی رہ گئی ہیں‘ انہیں بھی کچھ دنوں میں تتربتر کر دیا جائے گا۔ پوپ فرانسس اس کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک نئی عالمی جنگ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن یہ نئی عالمی جنگ نئی طرز کی ہو گی۔ جس میں طاقتوراکٹھے ہو کر‘ کمزوروں پر حملہ آور ہوں گے۔ اس کے بعد یہ دنیا کو کیا نظام دیں گے؟ اس کا صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہمیں اس خام خیالی سے نکلنا ہو گاکہ ایک دن کمزور ‘خود اپنی قسمتوں کے مالک بن سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں