بہت دنوں کی بات نہیں‘ سندھ کی صوبائی حکومت اوررینجرز کے مابین مقابلہ ہوا۔ پولیس نے رینجرز کو ڈانٹ کر پیچھے ہٹا دیا اور پولیس کی جیت ہو گئی۔ یہ معرکہ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوا ‘ جہاں پراسیکیوشن اور تفتیشی افسر‘ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ محمود اچکزئی کی زبان میں ایک طرف سویلین شریف کے لوگ تھے اور دوسری طرف فوجی شریف کے ماتحت ادارے کے نمائندے۔ سوال یہ تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا کتنے دنوں کا ریمانڈ دیا جائے؟ فوجی شریف کے نمائندے نے کہا کہ ''ریمانڈ کی مدت میں 14 روز کی توسیع کی جائے‘‘۔ ان کی تحریری درخواست پر یہی ہندسے اور الفاظ لکھے تھے۔ سویلین شریف کے نمائندے یعنی صوبائی حکومت کے پبلک پراسیکیوٹر نے حکمران پارٹی کی تبعیت میں دھاندلی کا مظاہرہ کیا اور 14 روز کے ہندسوں میں جعل سازی کر کے‘ ریمانڈ کے مطالبے کو صرف 4 روز کر دیا جبکہ الفاظ میں لکھی گئی ریمانڈ کی مدت 14 روز ہی رہی۔ یہ واضح نہیں کہ عدالت نے دو مختلف مدتوں کے ریمانڈز میں سے‘ اصل میں کون سا منظور کیا؟ جب ایک ہی حکومت کے صوبائی اور وفاقی اداروں کے مابین‘ ایک ہی مقدمے میں دو موقف اختیار کر لئے جائیں تو ''گڈ گورننس‘‘ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ وہی''گڈ گورننس‘‘ ہے جس کی تلاش کے لئے ‘فوج نے وفاقی حکومت کو خط لکھا تھا اور جس کا ذکر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے خطاب میں بھی کیا تھا۔ دو اعلیٰ اداروں کی طرف سے گڈ گورننس کے حق میں آواز اٹھنے کے بعد بھی‘ دونوں طرف کے وکیلوں نے اپنا اپنا موقف اختیار کیا اور پولیس نے تو مسلم لیگ ن جیسی دھاندلی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے‘ ریمانڈ کی اصل درخواست میں 14 دنوں میں‘10دن کاٹ کے‘ ازخود اپنے ہاتھ سے 4 کا ہندسہ لکھ لیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اصل صورت حال کیا ہے؟
ریمانڈ کی کون سی درخواست منظور کی گئی؟14دنوں والی یا4دنوں والی۔ بہر حال جو بھی درخواست منظور کی گئی ہے‘ اس میں ہندسوں میں لکھے گئے ریمانڈ کی مدت 4 دن ہو گی یا لفظوں میں لکھے گئے 14دن کی۔ ڈاکٹر عاصم کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے پولیس‘ 4 دن کا ریمانڈ لے کر گئی ہے جبکہ رینجرز نے 14 دن کا ریمانڈ مانگا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق‘ دونوں وکلا میں زبردست بحث ہوئی۔ سویلین شریف کے ماتحت ادارے‘ یعنی پولیس نے اگر 4 دنوں کے بعد‘ ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت لینے کی استدعا کر دی اور عدالت نے یہ مطالبہ مان لیا تو ڈاکٹر عاصم حسین‘ آزاد ہو کر‘ سیدھے چیف منسٹر ہائوس جا بیٹھیں گے اور رینجرز منہ دیکھتی رہ جائے گی۔ ایک طرف سویلین شریف کی انتظامیہ اور دوسری طرف فوجی شریف کا محکمہ۔ بندہ ایک ہے‘ محکمے دو۔ سویلین شریف کے احکامات پر عمل ہوا تو ڈاکٹر عاصم حسین اس پولیس افسر کے حکم پر 4 دنوں میں ضمانت پر رہا ہو جائیں گے‘ جس نے 14 دنوں کے ریمانڈ کی درخواست میں اپنے ہاتھ سے 4 دن لکھ کر‘ طلب کئے گئے ریمانڈ کی درخواست میں دھاندلی کر کے‘10 دن غائب کر دیے۔ دوسری طرف رینجرز ہے‘ جس نے ڈاکٹر عاصم حسین جیسے طاقتور شخص کو نہ صرف گرفتار کرنے کا حوصلہ کیا بلکہ اسے19دن کے ریمانڈ میں رکھ کر‘ بہت سے جرائم کا سراغ بھی لگایا۔ رینجرز کا خیال ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے انکشافات کی روشنی میں‘ بہت سے دوسرے کردارو ں کی تفتیش کرنا ہو گی‘ جس کے لئے اسے مزید مہلت درکار ہے۔ عوام کو اب سمجھ آگئی ہو گی کہ محمود اچکزئی نے‘ سویلین شریف اور فوجی شریف کا فرق کیوں واضح کیا؟ مجھ جیسے کند ذہن رکھنے والوں کو پارلیمنٹ میں کہی گئی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر جب فوج اور سویلین حکومت کے نمائندوں کے درمیان براہ راست ٹکر ہوئی‘ تو پتہ چل گیا کہ محمود خان اچکزئی کے الفاظ کا مطلب کیا تھا؟
اگر پولیس نے اپنا اختیار استعمال کیا تو آج ڈاکٹر عاصم حسین کسی بھی وقت ضمانت پر رہا ہو کر‘ وزیراعلیٰ ہائوس میں بیٹھ کے‘ دبئی میں ہونے والی کابینہ کی میٹنگ میں ‘بذریعہ ٹیلی فون شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کا نام ترنت‘ ای سی ایل سے نکال دیا گیا تو وہ شام کی فلائٹ لے کر دبئی بھی جا سکتے ہیں۔ اگر رینجرز نے اپنے طلب کردہ ریمانڈ کے 14دن پورے کرنے کے لئے‘ ڈاکٹر عاصم حسین کو دوبارہ اپنی تحویل میں لے لیا تو یہ گڈ گورننس کا مظاہرہ ہو گا یا بیڈ گورننس کا؟
بیانات اور سرکاری دعووں کے مطابق‘ یہ گڈ گورننس ہو گی۔ حزب اختلاف کے مطابق‘ یہ بیڈ گورننس۔ ملک ایک ہے‘ گورننس کے مراکز دو ہیں۔ وہی جن کی نشاندہی ‘محمود خان اچکزئی نے کی۔ پہلے تو اچکزئی صاحب سے پوچھنا پڑے گا کہ آپ کس طرف ہیں؟ 4 دن کا ریمانڈ مانگنے والوں کی طرف؟ یا 14 دن کا ریمانڈ مانگنے والوں کی طرف؟ عام آدمی کی حالت تو اس بیل کی طرح ہے‘ جسے کسی نے کہا تھا کہ تم ہل چلانے میں آسانی محسوس کروگے یا کولہو چلانے میں؟ بیل نے جواب دیا‘ ہل ہو یا کولہو‘ یاروں نے تو چارا ہی کھانا ہے۔ اس جھگڑے میںعام آدمی یہی کہے گا کہ سویلین شریف کامیاب رہے یا فوجی شریف‘ یاروں نے تو روکھی سوکھی کھا کے ہی گزارہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی طرح کی گورننس آجائے‘ عام آدمی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جن لوگوں کی زندگی میں فرق پڑتا ہے‘ وہ ایوان اقتدار کے شیدائی ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو فوجی حکومت کے دور میں پھولتے پھلتے ہیں اور کچھ سویلین حکومت کے دور میں ‘اللے تللے کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے پھولنے پھلنے اور اللے تللے کرنے والوں کی کوئی پہچان ہوتی ہے لیکن بہت سے ایسے ہوتے ہیں‘ جو گنگا گئے تو گنگا رام‘ جمنا گئے تو جمنا داس۔ایسے لوگوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب ‘ کہاں دکھائی دیں گے؟ فوجی حکومت آتی ہے تو یہ اس کے کارندے اورترجمان بن جاتے ہیں۔ سویلین حکومت آتی ہے ‘تواس میں جا کر وزیر بن جاتے ہیں۔وفاداری کے معاملے میں ان کا اصول ایک ہوتا ہے۔وہ حلف وفاداری کے وفا دار ہیں۔جس کے زمانے میں حلف وفاداری پڑھتے ہیں‘ ان کی وفاداری‘ اسی کے دور اقتدار کے لئے وقف ہو جاتی ہے۔آپ کو ایسے بے شمار لوگ ملیں گے‘ جنہوں نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ حکومت فوجی ہے یا منتخب؟انہیں صرف حلف نامے سے پیار ہے۔ اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں‘ جو کبھی حکومت سے باہر نہیں رہے۔ پرانے لوگوں کو کیا یاد کرنا؟ آج کل بھی زاہد حامد کا نام‘ سکے کی طرح چل رہا ہے۔ اس طرح کے لوگ ہوتے بہت ملنسار اور اصول پسند ہیں۔پتہ نہیں مجھے غالب کا شعر کیوں یاد آرہا ہے۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
یوں تو دنیا میں ان گنت عقائد پائے جاتے ہیں لیکن غالب نے صرف دو کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان کے حالات میں صرف دو ہی مراکزعقیدت ہیں‘ سویلین شریف یا فوجی شریف۔ایسے لوگوں کو کہیں بھی دفن کیا جا سکتا ہے۔ فوجی قبرستان میں بھی اورسویلین قبرستان میں بھی۔محمود خان اچکزئی‘ دونوں طرح کے قبرستانوں میں جگہ پانے کے مستحق ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے رشتہ وفا‘صرف دو شریفوں سے استوار کیا۔ جمہوریت کے عدم استحکام کی وجہ صرف وہ لوگ ہیں ‘جن کے بارے میں قدرے تحریف کے ساتھ اقبال کا یہ شعر لکھا جا سکتا ہے
جہاں میں اہلِ ''حاجت‘‘ صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
ہمارے الطاف حسین بھائی منفرد ہیں۔ ان کے پاس قومی اسمبلی میں عموماً24,25نشستیں ہوتی ہیں لیکن حکومت وہ پورے ملک پر کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام صرف فوجی حکومت کے دور میں ممکن ہے۔ پاکستان بدلتے موسموں کی سرزمین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف بھائی سویلین حکومتوں کے دور میں مضطرب اور فوجی حکومت کے زمانے میں مطمئن رہتے ہیں۔ فوجی حکمرانوں کی اپنی مرضی ہوتی ہے‘ چاہیں تو محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیں‘ چاہیں تو میر ظفراللہ خان جمالی کو۔ الطاف بھائی بہر حال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں‘ ان دونوں سے زیادہ نشستیں لے آتے ہیں۔ ان دنوں اقتدار کا پنڈولم تیزی سے چل رہا ہے اور اقتدار کے پجاری‘ کبھی فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف۔ پنڈولم کہیں رکنے میں نہیں آتا۔ اقتدار کے پیاسوں کی گردنیں‘ مُنڈی گھماتے گھماتے تھک رہی ہیں۔ مزے میں صرف محمود اچکزئی ہیں‘ جو حکومت کے اندر بھی نہیں ہوتے اور باہر بھی نہیں رہتے۔ ان دنوں تو ان کا پورا خاندان ہی‘ گورنر ہائوس یا وزیر خانوں میں رہتا ہے ۔ انہوں نے ایوان اقتدار میں صرف دو شریف چنے ہیں ۔ کوئی تیسرا نکل آیاتو تیراکیا بنے گا ؟محمود خان اچکزئی۔