"NNC" (space) message & send to 7575

ایک شہر‘ جو ایک نہ رہا

پاکستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں یوں توہر طرف غیرمتوقع نتائج برآمد ہوئے‘ اسلام آباد میں واضح طور سے پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت کے ساتھ ووٹ ملے‘ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ گنتی کا جادو چلتا رہا اور دوسرے یا تیسرے دن جا کر‘ جب نتائج برآمد ہوئے‘ پی ٹی آئی ہار گئی۔ خود مسلم لیگ کے سینئر لیڈر ظفر علی شاہ کے ساتھ بھی واردات ہوئی۔ ووٹ ڈالنے گئے‘ تو ان کے ساتھ شناختی کارڈ کا پھڈا کھڑا کر دیا گیا۔ شناختی کارڈ ایک کاغذی تصدیق ہے۔ جب ایک شخص پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہو اور سب اسے جانتے ہوں‘ وہ اگر شناختی کارڈ کی منشیانہ شرط پوری نہیں کر سکا‘ تو وہاں پر موجود سارے اہلکار ‘جن میں سے بیشتر کا تعلق ضلعی انتظامیہ سے تھا‘ ان میں سے کوئی بھی تصدیق کر سکتا تھا کہ ووٹ دینے والا شخص‘ واقعی ظفرعلی شاہ ہے‘ لیکن شاہ صاحب کے دوستوں کے مطابق‘ ان کے پاس شناختی کارڈ کی فوٹوسٹیٹ کاپی موجود تھی اور اصلی شناختی کارڈ بھی تھا۔ شاہ صاحب غالباً اپنی پارلیمانی حیثیت پر اڑ گئے اور اصرار کرنے لگے کہ شناختی کارڈ کی فوٹوکاپی پر ہی یقین کر لیا جائے۔ لمباچوڑا جھگڑا ہوا اور انہیں ووٹ دینے کا موقع دیا گیا۔ اصل جھگڑا شناختی کارڈ کا نہیں تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شاہ جی ‘ پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ‘اسلام آباد کے میئر بننا چاہتے تھے‘ جبکہ پارٹی کی اعلیٰ شخصیات‘ انہیں میئربنانے کے حق میںنہیں تھیں۔ انہیں ووٹ کے حق سے ہی محروم کر کے ‘معاملہ نمٹا دیا گیا۔ وہ نہ ووٹر رہے اور نہ میئرشپ کے امیدوار بن کر پھڈا ڈالنے کی پو زیشن میں رہ گئے۔ آج کل کی سیاست یہی ہے۔ اپنا ہو یا غیر‘ اگر وہ حکمران جماعت کی قیادت کو پسند نہ ہو‘ توپھر کسی کی مجال نہیں کہ وہ منتخب ہو سکے۔ ایسا ہی انجام پی ٹی آئی کا ہوا۔ پورے حکمران خاندان کو عمران خان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو بھرپور ووٹ ملے۔ ایسے ایسے لوگ جو کبھی پولنگ سٹیشن نہیں گئے تھے‘ عمران کو ووٹ ڈالنے کے لئے قبل ازوقت گھروں سے نکل کر قطاروں میں لگ گئے۔ سچ یہ ہے کہ ان کی بہت بڑی تعداد ووٹ ڈالنے میں کامیاب رہی۔ سب کے اندازے تھے کہ عمران خان کی جماعت فیصلہ کن اکثریت لے کر کامیاب ہو گی۔ مگر ایسا جادو چلا کہ جو امیدوار سب کو کامیاب دکھائی دے رہے تھے‘ ووٹوں کی گنتی کے بعد‘ انہیں ناکام قرار دے دیا گیا۔ عمران خان اور ان کے سارے ساتھی سٹپٹا کر رہ گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے کدھر جائیں؟ ساری انتخابی مشینری درپردہ‘ حکمرانوں کے کنٹرول میں تھی۔ انہی کے اشاروںپر 35 پنکچرلگا کر ووٹوں کی جادوگری کی گئی۔ جس امیدوار کو درپردہ حکمرانوں نے چاہا‘ وہ کامیاب ہو گیا اور جسے ناپسند کیا گیا‘ وہ جیت کر بھی ہار گیا۔ اسمبلیاں بن گئیں۔ حکومتیں قائم ہو گئیں۔ عمران خان چیختے چلاتے رہے۔ تھک ہار کر انہوں نے قومی اسمبلی کے چار حلقے آزمائش کے لئے چنے اور مطالبہ کیا کہ ان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرا دی جائے۔ اس کے نتیجے میں جو امیدوار بھی کامیاب ہوں گے‘ ان کے ووٹوں کے تناسب سے فیصلہ کر لیا جائے کہ جیت کس پارٹی کی ہوئی تھی؟ کافی تاخیر اور حیل و حجت کے بعد ‘ان چار حلقوں کی باری باری گنتی کرائی گئی۔ اس گنتی میں بھی ایسی جادوگری ہوئی کہ سوائے سردار ایاز صادق کے‘ ابھی تک کسی امیدوار نے اپنے ووٹوں کی گنتی نہیں ہونے دی۔ ایک عدالت کی اوٹ میں جا بیٹھا۔ دوسرے نے سپریم کورٹ میں جا کر پناہ لے لی۔ تیسرا ساری ترکیبیں استعمال کر کے‘ الیکشن لڑنے کے اہل قرار پایا‘ تو اس کی نااہلی کے متعدد ثبوت سامنے آ گئے اور تازہ اطلاعات کے مطابق‘ شاید وہ الیکشن نہیں لڑ پائے گا۔ غالباً اسی بنیاد پر اس نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ الیکشن نہ لڑ سکا‘ تو اس کا بیٹا الیکشن لڑے گا۔ مشکوک طریقے سے جیتاہوا ایک اور ممبر پارلیمنٹ ‘ابھی تک عدالت کی مدد لے کر ‘ اپنی رکنیت پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور مختلف بہانوں سے دوبارہ گنتی روک رہا ہے۔ ان سارے قصے کہانیوں سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ دھاندلی کر کے اقتدار پر قابض ہوئی ہے اور اس نے ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن کو‘ مفادات کے جال میں پھنسا کر ‘اقتدار پر اپنا شکنجہ مضبوط کر لیا ہے۔ غالباً یہ دنیاکی واحد پارلیمنٹ ہے‘ جس میں قائد حزب اختلاف‘ حکمران پارٹی کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ حکومت جب بھی بحران میں آتی ہے‘ یہ قائد حزب اختلاف صاحب للکارتے ہوئے‘ اس کی مدد کو آ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ واحد اپوزیشن ہے‘ جس نے حکومت کو بچانے کے لئے بار بار ووٹ دیئے۔ اپوزیشن کے ایک قائد اور رکن پارلیمنٹ جو ہمیشہ حکومت وقت کی مخالفت کے دعوے کرتے ہیں‘ وہ اپنی ساری بڑھکیں بھول کر ‘ حکومت کی ڈیوڑھی میں جا بیٹھے۔ بھائی کو گورنر بنایا۔ بیٹے کو وزیر اور اپنے حامیوں کے لاڈلوں کو نوکریاں دلوا دیں۔ اس کے باوجود وہ اپوزیشن کے لیڈر کہلاتے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ایک نئی ترکیب بھی وضع کی اور انتہائی چابکدستی سے وہ بات کہہ گئے ‘ جو حکومت کے دشمن بھی نہیں کہہ سکتے۔ حکومت مخالفین نے فوج اور منتخب وزیراعظم کے درمیان اختلافات کا تاثر پھیلانا شروع کر رکھا تھا۔ اس موقع پر حکومت کے عملی اتحادی اور بظاہر اپوزیشن لیڈر نے تقریر کرتے ہوئے کہا ''اگر دو شریفوں میں سے‘ مجھے ایک کے حق میں فیصلہ کرنا پڑا‘ تو میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا۔‘‘ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ موصوف نے واضح طور سے کہہ دیا تھا کہ نوازشریف اور راحیل شریف میں اقتدار کی کشمکش ہو رہی ہے۔ اگر یہ شدید ہوئی‘ تو میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا۔ ان کی یہ بات ابھی تک تو بے پر کی ثابت ہوئی‘ لیکن منتخب حکومت اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش سے وہ باز نہیں آئے‘ حالانکہ ان کی انتخابی کامیابی‘ میاں نوازشریف ہی کی مہربانی کا نتیجہ تھی۔ بلوچستان میں جتنے بھی لیڈر انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں‘ ان کا اسمبلیوں میں آنا معجزہ ہی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ تو باقی ماندہ پاکستان میں بھی ہوتا رہا‘ لیکن کراچی کا مزاج اور ووٹ دینے والی کمیونٹی‘ ملک کے دوسرے حصوں سے مختلف ہے۔ حالیہ انتخابات میں جتنے معجزے ہوئے‘ انہیں سمجھنے میں ابھی تک وہ تمام سیاسی عناصر سر پکڑے بیٹھے ہیں‘ جنہیں ہرایا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر ‘جو امیدوار تھے‘ ابھی تک انہیں اپنی شکست کے اسباب کا پتہ نہیں چل رہا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر ہی گھروں سے نہیں نکلے۔ عمران خان ‘جو اپنے حامیوں سے بڑے پرامید تھے‘ صرف 8نشستوں تک محدود رہ کر حیران ہیں۔ اب تک کے تمام انتخابی تجربات کے نتائج ‘اسی طرح حیران کن تھے اور اسی طرح ایم کیو ایم نے بھاری اکثریت سے دیگر تمام جماعتوں پر برتری حاصل کی تھی۔ اس جماعت کے مطالبات کبھی ملکی سطح پر نہیں ہوتے۔ وہ صرف کراچی اور حیدر آباد کی حدود کے اندر رہ کر‘ وہاں بسنے والے مہاجروں کا تعصب ابھار کے‘ ایک مقابلے کی فضا پیدا کرتے ہیں اور شہریوں کو باور کراتے ہیں کہ باقی سارا ملک‘ ان کے خلاف ہے۔ ان کے حقوق سلب کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ اگر ایم کیو ایم ان کے تحفظ کے لئے موجود نہ ہو‘ توانہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ جہاں تک میرے تجربے کا تعلق ہے‘ مہاجروں میں اجتماعی بقا کے لئے خطرے کا کوئی احساس نہیں پایا جاتا تھا۔ البتہ مختلف طبقوں کے سماجی رویوں پر مہاجروں میں تشویش ضرور موجود تھی۔ یہ حقیقت بھی واضح ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے کہ ایم کیو ایم کے معرض وجود میں آنے سے پہلے‘ مہاجرکمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد‘ ملک کے تمام تجارتی اور حکومتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہوتا تھا اور مہاجر مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اس لئے انہیں بڑے عہدوں پر کام کرنے کے مواقع بھی زیادہ ملتے تھے۔ مہاجروں کے ساتھ بعض طبقوں کے ناروا رویوں کی وجہ سے‘ ایم 
کیو ایم نے مہاجریت کا احساس ابھار کے‘ سماج میں سیاسی تقسیم پیدا کردی۔ مہاجروں میں عدم تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والی مفروضہ ناانصافی کے نعرے بلند کر کے‘ ایک ہی شہر کی آبادی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ اگر الطاف حسین کے نعرے سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود رہتے‘ تو مقامی اور مہاجر آبادی ‘ایک دوسرے کی طاقت بن کر‘ شہر کو تعمیروترقی کے راستے پر ڈال سکتے تھے۔ میں نے ایک زمانے میں خود دیکھا ہے کہ کراچی میں پورے پاکستان کے لوگ‘ اپنی اپنی زبانوں اور تہذیبی روایات پر قائم رہتے ہوئے‘ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے تھے اور جب تک مہاجروں کو ایک الگ کمیونٹی قرار دے کر‘ آبادی کے دوسرے حصے سے الگ نہیں کیا گیا‘ شہر میں تعمیروترقی کا عمل برقرار رہا اور جب مہاجر اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں‘ محاذآرائی شروع ہوئی‘ شہر کی ترقی بھی رک گئی۔اس کی تعمیر کا عمل بھی سست پڑ گیا۔ میں سوچتا ہوں اگر بیروت کی تباہی کے وقت‘ کراچی پُر امن ہوتا‘ تو دبئی نے تیزرفتاری سے جو ترقی کی ہے‘ اس کا موقع کراچی کو حاصل ہوتا‘ جس سے شہر کی سیاسی تقسیم کی بنا پر‘ ساری آبادی بلاامتیاز محروم رہ گئی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں