پاکستان اور بھارت کے معاملات بھی برصغیر میں بسنے والی قوموں کے باہمی روابط کی طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف کی گانٹھ کھلتی ہے‘ تو دس جگہ دھاگہ الجھ جاتا ہے۔ آپ ایسی جنگوں کا تو سوچ سکتے ہیں‘ جو دو ملک اپنی سرحدوں پر لڑتے یا ایک دوسرے کے علاقے میں گھس جاتے ہیں‘ لیکن ایسی جنگیں صرف امریکہ اور روس ہی لڑ سکتے ہیں‘ جن کا ان کی اپنی سرحدوں سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔ تاریخ میں اس طرح کے تجربے زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ حال میں افغانستان اور عراق پر امریکی قبضوں کے جو نتائج نکل رہے ہیں اور جو آگے جا کر نکلیں گے‘ وہ متاثرہ خطے کے عوام کے لئے تو تباہ کن ہیں ہی‘ خود امریکہ کے لئے بھی اتنے خوشگوار نہیں۔ امریکہ ‘ عراق پر قبضہ کر کے‘ کئی دوسرے پھندوں میں اپنا پیر پھنسا کر بیٹھ گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان جابجا پھیلے پھندوں میں سے امریکہ کیسے نکل پائے گا؟ فی الحال تو ان پھندوں سے نکلنے کے لئے ‘اس نے اپنے ساتھ فرانس اور برطانیہ کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ عراق کی جنگ میں برطانیہ اور امریکہ اکٹھے تھے ‘اب فرانس بھی شامل ہو گیاہے۔ روس‘ جو ان جنگوں میں امریکہ کا حریف تھا‘ عجیب طریقے سے اس جنگ میں آ کودا ہے۔ بظاہر وہ داعش کے فرانس آپریشن کے نتیجے میں شرقِ اوسط کی جنگ میں کودا ہے۔ ان کے باہمی تضادات بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔ روس اور ترکی کے درمیان ایک نیا ہی پھڈا پڑ گیاہے۔ بات اتنی سی تھی کہ ترکی کی سرحدوں کے اندر بظاہر روس نے بغیراطلاع کے جنگی طیارے بھیج دیئے‘ جن میں سے ترکی نے ایک کو مار گرایا۔ روسی صدر پوٹن نے‘ جو غیرمعمولی ردعمل ظاہر کیا‘ اس کے پیچھے اتفاقیہ واقعات نہیں ۔ پوٹن کے ذہن میں کوئی اور مقصد ہے‘ جس کو سمجھنا فی الحال میرے بس کی بات نہیں۔
خطے میں ایران اور شام‘ روس کے اتحادی ضرور ہیں‘ لیکن ان تینوں کے قومی عزائم‘ تہذیب اور نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس برسوں سے‘ ان دونوں ملکوں کا سٹریٹیجک اتحادی ضرور ہے‘ لیکن ان دونوںملکوں کے ساتھ روس کے اتحاد کی ٹھوس بنیادیں موجود نہیں۔ ایران سوفیصد ایک مذہبی ملک ہے۔ روس کی ریاستی پالیسی میں‘ مذہب بنیادی کردار ادا نہیں کرتا جبکہ ایران کی سیاسی اور نظریاتی بنیاد ہی مذہبی ہے۔یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے‘ جو زیربحث موضوع کا حصہ نہیں۔ اصل معاملہ ترکی اور روس کا نہیں‘ روس اور امریکہ کا ہے۔ روس اور امریکہ نے غلط فہمی کی بنا پر‘ باہمی تصادم سے بچنے کے لئے ‘حساس معاملات پر تبادلہ اطلاعات کا ایک سمجھوتا کر رکھا ہے۔ روس ‘داعش پر فضائی حملوں کے جو ایکشن لیتا ہے‘ ان کے بارے میں ضروری اطلاعات امریکہ کو بھی فراہم کر دی جاتی ہیں۔ یہ حفظ ماتقدم کے طور پر ہوتا ہے تاکہ نیٹوکا رکن ہونے کی وجہ سے‘ امریکہ بلااطلاع نیٹو کی حدود میں اچانک روس کے جنگی طیارے کو دیکھ کر‘ غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔ امریکہ تو باخبر تھا‘ لیکن اس نے اپنے نیٹو کے اتحادی ‘ترکی کو یہ خبر دینا مناسب نہیں سمجھا‘ کیونکہ یہ چند سیکنڈ کا معاملہ تھا۔ غالباً امریکیوں نے سوچا ہو گا کہ چند سیکنڈ کے اندر روسی طیارہ‘ ترک فضائوں کو پار کر جائے گا‘ لہٰذاترکی کو اس کی قبل از وقت اطلاع دینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ نے جان بوجھ کر ترکی کو بروقت اطلاع نہیں دی یا غلط انداز میں اسے باخبر کیا تاکہ ترکی‘ روسی طیارے کو مار گرائے۔ روس نے ‘ترکی کے اس ''اتفاقیہ‘‘ اقدام پر جس شدیدردعمل کا اظہار کیا ہے‘ وہ بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ روس نے ترکی کے ساتھ بول چال تک ختم کر دی ہے۔ وہ براہ راست اس کا موقف سننے کا بھی روادار نہیں۔ امریکہ اگر چاہے تو بیچ میں آ کر روس کے غیرمعمولی غم و غصے کو ٹھنڈا کر سکتا ہے‘ لیکن امریکہ نے ایسی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف روس‘ امریکہ کو بھی بری الذمہ قرار دینے کو تیار نہیں۔ اس کا الزام ہے کہ ہمارے طیارے کی‘ ترک فضائوں میں پرواز کے چند سیکنڈ کے دوران اتنا وقت نہیں تھا کہ ترکی اس طیارے کو اچانک دیکھ کر‘ اسے مار گراتا۔ جب تک ترکی کا ردعمل واقعاتی شکل اختیار کرتا‘ روسی طیارہ‘ ترک فضائوں سے باہر نکل چکا ہوتا۔ ترکی کے میزائل کا عین وقت پر‘ روسی طیارے کو نشانہ بنا لینا‘ روسیوں کے ذہن میں یہ خدشہ پیدا کرنے کا باعث بنا کہ ہو نہ ہو‘ یہ خبر امریکہ نے ہی قبل ازوقت ترکی کو دی ہو گی تاکہ وہ چند سیکنڈ کے دوران روسی طیارے کو نشانہ بنا دے۔ یہ شکوک و شبہات تینوں ملکوں کے درمیان ''اتفاقیہ‘‘ بدگمانیوں یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ''مینوفیکچر‘‘ کی گئی بدگمانیوں کو پیدا کرنے کا سبب بن گئے‘لیکن فرانس کے سانحے کے فوراً بعد‘ امریکہ کی قیادت میں مغربی طاقتوں کا غیرمعمولی ردعمل سامنے آیا اور پھر عراق اور شام پر باقاعدہ فضائی حملے شروع ہو گئے۔ بعد میں روس بھی ان میں کود پڑا۔ ان سب واقعات کو دیکھ کرپوپ فرانسس کی پیش گوئی یاد آتی ہے‘ جس میں انہوں نے تیسری عالمی جنگ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ظاہر ہے ‘وہ انتہائی باخبر شخصیت ہیں اور ان کا یہ خدشہ بغیر کسی بنیاد کے نہیں ہو سکتا۔ تو کیا ہم واقعی تیسری عالمی جنگ کی طرف جا رہے ہیں؟ بڑی طاقتوں نے اسلحہ کے جو انبار لگا رکھے ہیں‘ انہیں دیکھتے ہوئے‘ تیسری عالمی جنگ کا تو کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ چند سرپھرے دہشت گردوں کے خلاف ‘عالمی سطح کی چار طاقتوں کا جنگ میں کودنا‘کسی بھی طور عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرقِ اوسط کے چند سرپھروں پر ‘ہوائی حملوں کا یہ سلسلہ ‘عالمی جنگ میں کیسے بدل سکتا ہے؟ روس اور ترکی کے مابین باہمی تلخی‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اور ترکی کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت کے بعد‘ روس کو بھی اتنے زیادہ طیش میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات یہاں تک کیوں پہنچ گئی؟ روس کے غم و غصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ترکی کو سزا دینے پر تلا ہوا ہے۔ جنگی طیارے کو مار گرائے جانے پر‘ اتنے شدیدردعمل کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ روس نے امریکہ کو ملوث کر کے‘ ایک اور جہت کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ یہ ساری طاقتیں جمع ہو کر‘ شرق اوسط کے چند غیرتربیت یافتہ جنگجوئوں کے خلاف ‘اتنے بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں کس لئے کر رہی ہیں؟ اس جنگ کو کہاں تک پھیلانے کے ارادے ہیں؟ ایک ہی نشانے پر بم پھینکنے والی یہ چار بڑی طاقتیں‘ یعنی امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ اور روس کے مقاصد میں کیا یکسانیت ہے؟ داعش نے تو روس کو کچھ نہیں کہا۔ فرانس روس کا اتحادی نہیں۔ پھر ایک جنگی کارروائی میں ‘روس اپنے تین حریفوں کا ''اتحادی‘‘ کیسے بن گیا؟ واقعات کی یہ غیرمعمولی نوعیت ‘طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔
ہو سکتا ہے ‘ اسلام آبادمیں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع محل کا انتخاب اتفاقیہ ہو‘ لیکن اس کانفرنس کا بنیادی مقصد‘ افغانستان میں امن بحال کرنا ہے۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں افغانستان کے علاوہ آذربائیجان‘ چین‘ بھارت‘ ایران‘ قازقستان‘ کرغیزستان‘ روس‘ سعودی عرب‘ تاجکستان‘ ترکی‘ ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ظاہر ہے‘ پاکستان میزبان ہے۔ افغانستان میں امن بحال کرنے کی کوشش کرنے والوں میں بے شک متضاد رجحانات اور پالیسیاں رکھنے والے ممالک شامل ہوں لیکن ان کی جغرافیائی نزدیکیاں ‘ایک مشترکہ مفاد کو بھی جنم دیتی ہیں‘ یعنی یہ ممالک کسی ناگہانی تباہی کی لپیٹ میں نہ آئیں۔ افغانستان ایک مدت سے مختلف طاقتوں کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ اس میں کسی بھی وقت آگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ کئی بار یہ ملک ایک بڑی جنگ کا مرکز بھی بن سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے ہارٹ آف ایشیا کا یہ اجتماع کسی پیش بندی کے لئے ہو۔ ہو سکتا ہے‘ہارٹ آف ایشیا کی اصطلاح میںکسی وسیع تر حکمت عملی کا رازمضمر ہو۔بے شک ان ملکوں میں سے بیشتر ‘ایک دوسرے کے اتحادی نہ ہوں‘ جیسے چین‘ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ روس اور چین بھی ایک دوسرے کے اتحادی نہیں‘ لیکن ہارٹ آف ایشیا میں یہ سارے یکجا ہیں۔ اس غیرمعمولی یکجائی کی بنیاد کیا ہے؟ فرانس میں دہشت گردی کے ایک واقعے پر‘اتنی بڑی طاقتوں کی طرف سے ایسا خوفناک ردعمل محض داعش کو سزا دینے کی خاطر تو نہیں ہو سکتا۔