سندھ کے سائیں‘ قائم علی شاہ اپنے صوبے میں وفاقی اداروں کی مداخلت پر پھٹ پڑے اور کہا کہ '' سندھ پر حملہ ہوا ہے‘ رینجرز کو دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بلایا تھا وہ کرپشن میں بھی گھس گئی‘‘۔ سائیں کا غصہ بالکل بجا ہے۔انہوں نے رینجرز کو یہ سوچ کر بلایا تھا ‘کہ وہ دہشت گردوں کا صفایا کرے گی اور کرپشن کرنے والے اطمینان سے‘ اپنا دھندہ جاری رکھیں گے اور ان کی جمع شدہ دولت محفوظ رہے گی‘ جس پر دہشت گرد بھی ہاتھ مارتے تھے اور بھتہ خور بھی۔ ایک ایک ٹیلی فون پر لاکھوں کروڑوں وصول کر لیتے تھے۔ سائیں کا خیال ہو گا کہ رینجرز آئے گی تو ان کے لیڈر اور مصاحبین اطمینان سے کرپشن کر کے‘ دولت جمع کریں گے اور جو زیادہ جمع ہو گی تو اسے دبئی‘ ہانگ کانگ اور گمنام جزیروں میں محفوظ کر دیں گے لیکن رینجرزنے تو حد کر دی۔ اسے دہشت گردی اور بھتہ خوری ختم کرنے کے لئے بلایا گیا اور وہ ہاتھ دھو کے‘ کرپشن کے پیچھے پڑ گئی۔فوجیوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں جو ڈیوٹی دی جائے‘ وہ اسے پورے انہماک اور یکسوئی سے ادا کرتے ہیں۔یہ بات سادہ لوح سپاہیوںکی سمجھ میں نہیں آتی کہ ٹیلی فون پر بھتہ مانگنے ‘ بندوق دکھا کر بنک یا دکانوں کے کیش باکس توڑ کر دولت نکالنے میں کیا فرق ہے؟ لیکن سائیں کی ضد ہے کہ کرپشن منتخب حکومت کے دائرہ ٔاختیار میں ہے‘ جو ایک فوجی کے لئے جائز نہیں۔ ادھر رینجرز والے ہیں کہ وہ ڈاکے پڑتے ہوئے دیکھ کر‘ اسے دہشت گردی سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر جیسے ہی ممکن ہو‘ ا نہیں گرفتار کر لیتے ہیں‘ اگر گرفتار نہ کر سکیں تو وہیں ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ یہ بالکل کسی بھی سیاسی حکومت کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کی خاطر‘ اس لئے دھکے نہیں کھاتے کہ اقتدار کا چانس ملنے پر وہ کرپشن بھی نہ کریں۔
سائیں نے وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں پر خوب غصہ نکالا اور کہا کہ'' ایف آئی اے ایک وفاقی ادارہ ہے‘ جس کا کام وفاقی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی روک تھام ہے‘‘۔ سائیں نے یہ بات بھی اصولوں کے عین مطابق کی۔جس پارٹی کو وفاق اور پنجاب کی حکومت مل گئی‘ اسے کراچی میں کرپشن روکنے کا کیا حق ہے؟وہ اپنے اپنے علاقوں میں کرپشن کریں اورشاہ جی کو کرپشن کے دروازے اپنے حواریوں پر‘ کھلے رکھنے کی اجازت ہو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہ بڑے خزانے تو ن لیگ لوٹتی رہے اور کراچی میں جو چھوٹا سا خزانہ بچ جائے‘ اسے رینجرز کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ کرپشن کرنے والوں کو پکڑ دھکڑ کے‘ جیلوں میں بھجوا دے جبکہ وفاق اور پنجاب میں کرپشن کرنے والے من مانیاں کریں۔شاہ جی اس پر بہت اداس ہیں کہ جب سے کراچی میں رینجرز آئی ہے‘ بڑے بڑے سرمایہ دار وہاں سے بھاگ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے لیڈر بھی‘ دبئی جا بیٹھے ہیں اور انہیں کابینہ کی میٹنگ دبئی جا کے‘ کرنا پڑتی ہے۔سائیں نے پیشہ ورانہ اصول پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے‘ پنجاب کے حکمرانوں کو انتباہ کیا کہ'' اگر انہوں نے اپنے زیر اقتدار علاقوں میں رینجرز کو بلوا لیا تو پنجاب کے مالدارلوگ بھاگنا شروع کر دیں گے‘‘۔ یہ بات ن لیگ والوں کے علم میں ہے کہ اب پاکستان کے کسی بھی حصے میں کرپشن کے بغیر‘ دولت مند بننا ممکن نہیں۔شاہ جی نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ن لیگ والوں کو دعوت دی ہے کہ اگر وفاق والوں کو وہاں کرپشن کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے تو وہ سیدھے سندھ چلے آئیں اور ہمارے ساتھ مل کر‘ رینجرز کا بندوبست کریں۔ اس سے اختیارات چھین لئے جائیں یا بیرکوں میں واپس بھیج دیا جائے تو ہم سارے بھائی مل جل کے‘ کرپشن کر لیں گے۔سائیں کی یہ فراخدلانہ دعوت‘ ان کی فیاضی کا ثبوت ہے۔ اگر انہیں کراچی میں کرپشن کی اجازت دے دی جائے تو وہ پنجاب سے آنے والے ن لیگیوں کو خاطر خواہ حصہ دے دیں گے۔ مل جل کے ہی کھانا اچھا ہوتا ہے۔
کتنے اچھے دن تھے؟ جب سندھ اور پنجاب والوں نے مل جل کر‘ اقتدار کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا فیصلہ کیا۔تحریک انصاف نے ایوان کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ن لیگ اور اس کے حاشیہ برداروںکے خلاف کوئی سرگوشی بھی نہیں ہوتی تھی۔حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے تمام سیاسی فنکاروں نے حکومت کو خوش کرنے کے لئے‘ اپنے اپنے طریقے ڈھونڈ رکھے تھے۔حضرت مولانا فضل الرحمن‘ تو اسلامی اصولوں کی روشنی میں حکومت کو تقویت دے کر‘ اس کے حوصلے اور اپنے الفاظ کی قدرو قیمت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی ہر وقت چادر کندھے پر لئے پھرتے ہیں۔ جب چاہا اٹھا لی‘ جب چاہا بچھا لی۔قائد حزب اختلاف‘ جناب خورشید شاہ اپنے رتبے کے مطابق‘ ڈیل کرتے ہیں۔ انہیں صرف اپنے لئے ہی نہیں‘ اپنی پارٹی کے اراکین‘ لیڈروں اور ان کے بال بچوں کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ نوازشریف بھی سیدھی انگلی سے نکلنے والا گھی نہیں۔ جب ان کے اقتدار کا ''کلّہ‘‘ مضبوط ہو تو وہ کسی کو اپنا پلہ بھی چھونے نہیں دیتے اور جب گھیرے میں آئیں تو ''دیدہ و دل فرش راہ‘‘ کر دیتے ہیں۔اپوزیشن کا پیشہ‘ اختیار کرنے والے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔انہیں ایک ایک موڈ کا پتہ ہوتا ہے کہ کب حاکمِ اعلیٰ‘ فیاضی اور فراخدلی کے موڈ میں ہیں؟ اور کب گلّے پر بیٹھے دکاندار کی طرح کریانہ بھی انہماک سے گنتے ہیں؟اپوزیشن کے سردار ان باریکیوں کو خوب سمجھتے ہیں۔جب عمران خان نے تخت ہلانا شروع کیا تھا تو پی پی کے سردار نے دور سے اپنے ہاتھ بڑھا کر‘ تخت کے پائے زور سے تھام لئے تھے۔ اس وقت جو درد بھری تقریر شاہ صاحب نے نوازشریف کی حمایت میں کی تھی ‘ وہ پارلیمانی تاریخ کا یادگار واقعہ ہے۔ وہ سیاسی مقرر نہیں‘ اہل تشیع کے ذاکر دکھائی دے رہے تھے۔ اتنا درد تھاان کے الفاظ میں کہ ساری اپوزیشن آنسو بہا تے ہوئے ہچکیاں لے رہی تھی۔ادھر ن لیگ کے اراکین اسمبلی کا دل گھٹ رہا تھا۔ وہ اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے اگر وفاقی خزانے کی ساری گنجائش کا فائدہ اپوزیشن والے لے اڑے تو پھر ہمارے لئے کیا بچے گا؟ شاہ جی کو جتنی تالیاں اپوزیشن کی طرف سے ملیں‘ حکمران پارٹی کی طرف سے نہیں ملیں ۔ وجہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ایک کے فائدے میں دوسرے کا نقصان تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد ‘پیپلز پارٹی نے ایک نئی طرز ایجاد کر لی ہے۔ ماضی میں یوں ہوتا تھا کہ حزب اختلاف میں بیٹھنا سرا سر خسارے کا سوداتھا مگر اب باقی ماندہ پی پی پی نے ‘اپوزیشن کے پیشے کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ حکمران پارٹی کے اراکین اسمبلی ‘اپوزیشن والوں پر رشک کرتے ہیں کہ ''یہ لوگ تو ہم سے اچھے رہے‘ ہم نے دھاندلی کے ووٹ قبول کر کے‘ عوام کی گالیاں کھائیں اورجب الیکشن جیتنے کے ثمرات ملنے کا وقت آیا ہے تو ان سے بھی اپوزیشن والے جھولیاں بھر رہے ہیں اور ہم انہیں ٹک ٹک دیکھتے رہ جاتے ہیں‘‘۔
پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کے حقیقی جانشین‘ جناب آصف زرداری نے وزارت عظمیٰ کی کرسی کو بے وقعت بنا کے رکھ دیا ہے۔بی بی کی شہادت کے بعد‘ انہوں نے بھٹو صاحب کی کرسی تو آسانی سے سنبھال لی تھی۔ ووٹ بھی انہیں خوب ملے۔ وہ چاہتے تو خود وزیراعظم بن جاتے مگر انہوں نے اپنی پارٹی کا ''ممنون حسین‘‘ بننا پسند کیا۔سب لوگ حیران تھے کہ وہ مضبوط کرسی چھوڑ کر‘ مسکین کرسی پر کیوں جا بیٹھے ہیں؟ بعد میں پتہ چلا کہ رسوائیوں کے چرچے تو وزیراعظم کے ہورہے ہیں اور پارٹی کے سربراہ ایک بے نیاز درویش کی طرح‘ ایوان صدر میں پرندوں کو دانہ دنکا کھلا رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ احکامات ان کے چلتے تھے اور بدنامی بے چارے یوسف رضا گیلانی کی ہوتی تھی اور وہ بھی ایسے شریف آدمی ہیں کہ اُ ف تک نہیں کی۔جو ملا صبر شکر کر کے کھا لیا۔ اہل خاندان نے بھی یہی وتیرہ اختیار کئے رکھا۔قدرت بھی کیا کرشمے دکھاتی ہے؟ کہ پیپلز پارٹی کے بعد‘ شریف برادران نے اقتدار حاصل کیا اور عمران خان کی یلغار سے بچانے والے ''استاد‘‘ آصف زرداری کے ایک ایک لفظ کا حساب چکایا اور اب بھی چکا رہے ہیں۔ صرف میڈیا اور دنیا کی باتیں سن کر'' استاد‘‘ زرداری نے ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت دی تھی لیکن ان کی تھوڑی سے تکلیف پرہی پیپلز پارٹی کے سربراہ کا دل مغموم ہو گیا اور انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ اپنے سائیں کو حکم دیا کہ رینجرز پر دبائو بڑھا دو تاکہ ڈاکٹر عاصم حسین آزادی کے مزے اڑانے کے لئے قید سے رہائی پا لیں۔سندھ کے سائیں جس طرح رینجرز کو آنکھیں دکھا رہے ہیں‘ یہ ان کے بس کا کام نہیں۔ یہ ''استاد‘‘زرداری کا دیا ہوا حوصلہ ہے‘ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ رینجرز کو کڑک دار آواز میں للکارتے ہیں مگر وہ اپنے لیڈر اور'' استاد‘‘ کا دیا ہوا ایک سبق بھول گئے کہ انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی د ی تو پہلے سے جیب میں دبئی کا ٹکٹ رکھ لیا تھا۔شاہ صاحب نے للکار کر تو دکھا دیا ہے‘ ہو سکے تو جیب میں ہاتھ مار کر دیکھ لیں‘ انہوںنے بڑھک تو لگا دی ہے‘ اگر جیب سے عمان کا ٹکٹ نہ نکلا تو؟ ہوشیار لڑکے ایسی بے وقوفی نہیں کرتے۔ میرے ایک دوست کا چھوٹا بھائی تھا۔ وہ گلی میں جب کسی لڑکے سے ہاتھا پائی کر بیٹھتا تو حریف کو غالب آتے دیکھ کر کہتا کہ'' تم ذرا ٹھہرو‘ میں جوتے اتا ر آئوں‘‘ اور اگر وہ ننگے پائوں ہوتا تو یہی جملہ یوں ہو جاتا کہ '' بھاگنا نہیں‘ یہیں کھڑے رہنا‘ میں جوتے