"NNC" (space) message & send to 7575

ہم تو کرپشن کرے گا

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ‘ دور حاضر کے انتہائی عمر رسیدہ لیڈر اور بلند حوصلہ رکھنے والے انسان ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی شہریوں کے امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کے لئے ریاست کوئی انتہائی اقدام کرتی ہے تو اسے فوج کو مدد کے لئے بلانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سول انتظامیہ نے فوج سے بارہا مدد حاصل کی۔ 50ء کے عشرے میں‘ جب ایک انتہا پسندانہ مذہبی تحریک چلائی گئی اور اس نے پنجاب میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کر دیا تو مرکز کی منتخب حکومت نے پنجاب میں فوج سے مدد لینے کا فیصلہ کیا‘ اور باقاعدہ مارشل لا نافذ کیا گیا۔ فوج نے فوری طور سے شہری نظم و نسق سنبھالا اور چند ہی روز میں‘ بدامنی پر قابو پا کے‘ نارمل شہری زندگی بحال کر دی۔ فوج اپنا کام کرکے واپس بیرکوں میں چلی گئی۔ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوا۔ مرکز اور صوبائی حکومت کے درمیان کوئی تلخی نہ ہوئی۔ پاکستان میں نافذ ہونے والا پہلا مارشل لا‘ جتنے محدود مقصد کے لئے لگایا گیا تھا‘ فوج اسے حاصل کرنے کے بعد بڑے وقار سے واپس چلی گئی۔ عوام کی نگاہوں میں اس کی عزت مزید بڑھ گئی تھی کیونکہ اس نے بگڑے ہوئے حالات کو معمول پر لا کر‘ عوام کے دلوں میں زیادہ جگہ بنا لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسی محدود مارشل لا کے خوشگوار اثرات تھے کہ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ایوب خان اور ان کے ساتھیوں نے پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ ابتدائی دنوں میں جنرل اعظم خان کے مارشل لا کو سامنے رکھتے ہوئے‘ عوام نے اس مارشل لا کا بھی خیرمقدم کیا‘ لیکن عوام کو معلوم نہیں تھا کہ ایک پیشہ ور فوجی اور اقتدار کے بھوکے فوجی میں‘ کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کے بعد ملک میں یکے بعد دیگرے‘ مارشل لا نافذ ہوئے اور جن فوجی سربراہوں نے مارشل لا مسلط کر کے‘ جس طرح اقتدار کے مزے لوٹے‘ وہ پاکستانی عوام کے لئے ایک ڈرائونے خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت کئی مارشل لائوں کے بعد بحال ہوئی لیکن جمہوریت کی یہ بحالی‘ مارشل لائوں سے بھی زیادہ برائیاں پیدا کر گئی۔ جس جمہوری دور سے ان دنوں ہم گزر رہے ہیں‘ اس میں فوجی ادوار کی تمام برائیوں کے ساتھ‘ سیاست دانوں کی برائیاں بھی شامل ہو چکی ہیں۔
کراچی‘ سیاست دانوں اور سابق حکمران جنرلوں کی قائم کی ہوئی روایات کا شکار ہے۔ سیاست دانوں نے فوجی آمروں کے زیر سایہ کرپشن کے جو مزے لوٹے تھے‘ اب وہ ان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جنرل ضیا کے زمانے میں سماجی اور حکومتی خرابیوں کا نشانہ بننے والی ایک کمیونٹی‘ صوبہ سندھ کے شہری حصوں میں غیر سیاسی تنظیمی طاقت کے ساتھ نمودار ہوئی اور وہ ایک اور طرح کے کلچر کو پروان چڑھانے لگی۔ سندھ کے دیہی اور شہری وڈیروں میں شدید کشمکش شروع ہو گئی۔ یہ دونوں کبھی اقتدار میں حصہ دار بنے اور کبھی ایک دوسرے کے ساجھے دار۔ نتیجے میں شہر کا امن و امان تباہ ہو گیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز کراچی‘ لوٹ مار کرنے والوں کی آماجگاہ بن گیا۔ دیہی اور شہری نیم سیاسی طاقتوں کی کشمکش نے‘ ایک انوکھی صورت حال پیدا کر دی۔ دیہی وڈیروں نے دیہی آبادی کے ووٹ لے کر‘ صوبائی حکومت پر قبضہ کر لیا اور شہری وڈیرے اقتدار میں حصہ نہ ملنے کی وجہ سے‘ مقابلے پر اتر آئے۔ پھر ان دونوں کے زیر اثر مسلح گروہوں کے مابین مقابلہ شروع ہو گیا۔ اہلِ کراچی ان مقابلوں کے تلخ دنوں کو آج بھی تکلیف سے یاد کرتے ہیں۔
ان دونوں کی کشمکش میں شہر کا امن برباد ہوا۔ متحارب گروہوں نے شہر کو اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں بانٹ لیا۔ مسلح تصادم ہونے لگے۔ اغوا برائے تاوان عام ہو گیا۔ دہشت گردوں نے شہر میں اپنے ٹھکانے قائم کر لیے اور کراچی کے معصوم شہری‘ ان متصادم گروہوں کی باہمی لڑائیوں کا شکار بنے۔ صنعت کار اور سرمایہ دار گھبرا کر شہر چھوڑنے لگے۔ ہر کسی نے اپنا اپنا علاقہ بانٹ رکھا تھا اور کوئی دوسرا یا تیسرا فریق‘ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ سارے شہر میں امن بحال کر سکے۔ یہ تھی وہ صورت حال جس پر ملک بھر کے صنعت کاروں‘ سرمایہ داروں اور وفاق کے حکمرانوں نے پریشان ہو کر شہر کے حالات معمول پر لانے کی تدبیریں شروع کر دیں۔ وڈیروں کی حکومت میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ مسلح گروہوں کا مقابلہ کر 
سکے۔ یہ درست تھا کہ شہری انتظامیہ اس حکومت کے ماتحت تھی لیکن حکومت کے مخالف عناصر اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ محض پولیس کے ذریعے انہیں غیر موثر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے مالِ غنیمت میں سے اپنا اپنا حصہ لینے والے خود کوئی نظام وضع نہ کر سکے اور رائج الوقت نظام کی توڑ پھوڑ میں سب اپنی طاقت کے مطابق کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ تھی وہ صورت حال جس میں وفاقی حکومت نے مداخلت کی۔ تمام فریقوں نے فوج کی مدد لینے کی تجویز سے اتفاق کیا۔ شہر میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری رینجرز کے سپرد کی گئی۔ جو فرائض رینجرز کے سپرد کئے گئے تھے‘ اس نے تیز رفتاری سے انہیں پورا کرنا شروع کیا۔ لوٹ مار کرنے والوں کو دبوچا۔ بھتہ خوروں کی کمر توڑی۔ اغوا برائے تاوان والے گروہوں کے ہاتھ توڑے۔ لینڈ مافیا کو قانون کے شکنجے میں لینا شروع کر دیا اور ٹارگٹ کلرز کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پکڑا۔ اس دوران رینجرز اور پولیس کے جوانوں کو جانی قربانیاں دینا پڑیں اور نتیجے میں جب شہر کے حالات قدرے بہتر ہوئے تو پرانے سیاسی حریف‘ شہر میں بحال کئے گئے امن کا فائدہ اٹھا کر‘ اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔
رینجرز اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے‘ جب بااثر لوگوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگی تو دیہی وڈیرے حرکت میں آ گئے۔ سیاسی جماعتیں جو لاقانونیت کے دور میں‘ مافیائوں کے طرز پر کام کرنے لگیں تھیں‘ انہیں رینجرز کی کامیابیاں کھلنے لگیں۔ دیہی وڈیرے جو وفاق میں شہری وڈیروں کی حکومت کا ہر حال میں ساتھ دے رہے تھے‘ اب رینجرز کے لائے ہوئے امن میں من مانیاں کرنے کے لئے بے تاب تھے۔ جب رینجرز نے کرپشن کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو تمام حکمرانوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور ایم کیو ایم کے سوا سب رینجرز کو بے اثر کرنے پر متفق ہو گئے۔ ان دنوں یہی صورت حال ہے۔ وفاقی حکومت کراچی میں رینجرز کے بڑی حد تک بحال کردہ امن میں‘ اپنا دائو لگانے کی خواہش مند ہے اور صوبائی حکومت اس ماحول کو اپنے وارے نیاروں کے لئے استعمال کو بے چین ہے۔ رینجرز پاکستان کے سب سے باوقار اور عوامی مقبولیت کے حامل ادارے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ پیشہ ورانہ تربیت کی وجہ سے‘ اپنا مشن ادھورا نہیں چھوڑ سکتی۔ فوج ‘ بحیثیت ادارہ کرپشن کرنے والوں کی باہمی کشمکش میں فریق بننے سے گریزاں ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے سارے نقاب اتار کے وڈیرا شاہی کے اصل خدوخال دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ وہ ان دنوں جس زبان میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مافیائوں کی زبان ہے۔ مثلاً کل انہوں نے فرمایا کہ ''وفاق نے سندھ پر چڑھائی کر دی ہے‘‘۔ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ فلاں گروپ‘ ہم پر حملہ آور ہے۔ مزید فرماتے ہیں۔
''تین چار وفاقی ایجنسیاں ہم سے لڑ رہی ہیں‘‘۔
''وفاقی حکومت بدعنوانی سے پاک ہے تو پھر یہاں حملے کرے‘‘۔
شاہ سائیں نے حساب لینے کے انداز میں رینجرز سے پوچھا کہ ''اس نے کرپشن کے کتنے کیسز پکڑے؟ کتنی رقم واپس لی؟ اس کا جواب ہے‘ صفر‘‘۔ شاہ سائیں نے جوش و خروش میں شہید ملت لیاقت علی خان کو بھی نہیں بخشا اور ان کا کفن نوچتے ہوئے الزام لگایا کہ ''کرپشن لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہوئی‘‘۔ شاید شاہ سائیں کو معلوم نہیں کہ شہید ملت خود‘ متحدہ ہندوستان کے نوابوں میں شامل تھے۔ ان کی اپنی جاگیر تھی۔ دہلی میں محل نما گھر تھا‘ جو انہوں نے مفت میں پاکستان کو عطا کر دیا۔ آج اس میں پاکستان کا ہائی کمشن قائم ہے۔ میری بیچارگی دیکھیے کہ میں قائد اعظمؒ کے دست راست شہید ملت لیاقت علی خان کا ذکر‘ سندھ کے موجودہ وڈیروں کے تذکرے میں کر رہا ہوں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین ہونے والی تکرار سے‘ حالات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ اب حکمران جو چاہیں کریں۔ فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے یا وہ اپنے وقار کا تحفظ کرے یاکرپشن کے تحفظ پر تلے ہوئے‘ سیاسی حکمرانوںکے سامنے سے پسپا ہو کر‘ بیرکوں میں واپس چلی جائے۔ سندھی وڈیروں کے ترجمان‘ شاہ سائیں نے تو سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ ''ہم تو کرپشن کرے گا‘‘۔ اگر شاہ سائیں کے پسندیدہ ملزم کو چھوڑ کر کرپشن کا راستہ کھول دیا گیا تو باقی رہنے والے کیا فرشتے ہیں؟ پاکستان ہر طرح کے حکمرانوںکی کرپشن کا مارا ہوا ہے۔ بحران میں آئی ہوئی کرپشن اگر فاتح بن کر سامنے آ گئی تو پھر عوام کا خدا ہی حافظ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں