پاکستان کے 40فیصد غریب جنہیں پیٹ بھر روٹی نصیب نہیں ہوتی‘ ان کے لئے خوشخبری ہے کہ ہمارے ملک میں چار وں طرف‘ سڑکیں ہی سڑکیں بچھائی جا رہی ہیں۔ یہ عالمی معیار کے مطابق‘ اعلیٰ ترین کوالٹی کی سڑکیں ہوں گی۔ مزید خوشخبری یہ ہے کہ ان ساری سڑکوں کے لئے بیشتر رقوم ہمارا دیرینہ دوست ‘چین مہیا کرے گا۔جس طرح قارئین‘ ترقی کی خبریں پڑھ کر خوش ہوئے ‘ مجھے بھی اقتصادی راہداری کے لئے چین کی طرف سے46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر خوشی ہوئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس راہداری اور دیگر تعمیرات پر چین جو سرمایہ لگائے گا‘ وہ ہم پر قرض ہو گا۔مغربی ملکوں یا اداروں سے جو قرض ملتا تھا‘ اس میں کم از کم یہ آزادی ضرور ہوا کرتی تھی کہ ہم قرض کی رقم جیسے منصوبوں پر چاہیں‘ خرچ کر سکتے تھے۔ چین جو اقتصادی راہداری اور اس کی شاخیں تعمیر کر ے گا‘ان میں بیشتر کے نقشے چینیوں ہی کے منصوبوں کے مطابق ہوں گے۔ کہیں کہیں ہماری درخواست قبول کر کے‘ اگر ہمارے منصوبوں کے مطابق کوئی سڑک بنائی جائے گی تو اس میں بھی دو طرفہ مفادات کو ملحوظ رکھا جائے گا۔آنے والے چھ سات برس میں ہمارے بیرونی قرضے ‘ 100ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو جائیں گے جس پر ہمیں ہر سال20ارب ڈالر بطور سود ادا کرنا پڑیں گے۔سوال یہ ہے کہ قرضے اٹھائے کیو ں جا رہے ہیں؟ ہسپتالوں میں دوائیں نہیں۔ بچوں کو پڑھانے کے لئے سکول نہیں اور جو سکول ہیں‘ ان کے لئے اساتذہ نہیں۔یہ قرضے کہاں جا رہے ہیں؟ اس کا راز ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے کی وجہ سے کھلا۔خدا جانے یہ غلطی کس سے ہوئی؟ کہ کراچی میں حد سے بڑھے ہوئے جرائم پر قابو پانے کے لئے ‘تمام نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے‘ رینجرز کو ذمہ داریاں دی گئیں کہ وہ شہر کا امن و امان بحال کرے۔ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ رینجرز کی آمد سے پہلے شہر کا حال کیا تھا؟ پولیس کرپٹ حکمرانوں کی آلہ کار تھی۔ رینجرز تھوڑے ہی عرصے میں جرائم کے جال تک پہنچ گئی اور اس نے چند ستلیاں کاٹ کر شہریوں کی آزادی بحال کی ۔ غلطی یہ ہو گئی کہ جرائم اور دہشت گردی کے لئے‘ پیسہ فراہم کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیااور جو شخصیت گرفت میں آئی‘ وہ کرپشن کی ''اشرافیہ‘‘ میں نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ یہ تھے ڈاکٹر عاصم حسین۔یہ خطے کے سب سے بڑے ڈان ‘کے قریبی دوست تھے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں گرفتار کرنے پر حکومت کے تمام ستون لرزنے لگے۔ وفاقی حکومت جھٹکے کھانے لگی۔ سندھ کی صوبائی حکومت لڑکھڑانے لگی اور رینجرز ‘جس نے کرپشن کے سرغنوں میں سے ایک کردار پر ہاتھ ڈالا۔ وہ عوامی حکمرانوں کے زیر عتاب آگئی۔
یہ مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے ‘جو اس عتاب کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کرنے والی ایجنسیاں تھرتھرا گئیں۔انہیں گرفتار کرنے والے ادارے‘ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے۔ان کے خلاف تیار کئے گئے مقدموں کی فائلیں‘ لرزہ براندام ہو گئیں اور رینجرز کو چھوڑ کر ‘ تمام محکمے افرا تفری میں ڈاکٹر عاصم حسین کو آزاد کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے چند روز کے اندر‘ انتھک محنت اور تحقیقات کے بعد تیار کئے گئے سارے مقدمے‘ عوام کے منتخب نمائندوں کے احکامات پر دھڑادھڑ ختم کئے جانے لگے۔اب صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کوعملی طور پر رینجرز کے شکنجے سے نکال لیا گیا ہے۔وہ نیب کی میزبانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔نیب کا ادارہ بنایا ہی اس مقصد کے لئے گیا تھا کہ جو سیاست دان یا افسر‘ لوٹ مار میں بے احتیاطی کر کے‘ قانون کی گرفت میں آجائے تو وہ آبرومندانہ طور پر‘اپنے جرائم کے داغ دھبے دھوکے‘ شریف شہریوں میں شامل ہو جائے۔طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ملزم اپنے جرائم کا اعترا ف کر کے‘ کرپشن میں کمائی ہوئی کل رقم کا25فیصد حصہ‘ نیب کی نذرکر دے اور کپڑے جھاڑتا ہوا شریف شہریوں کی صفوں میں شامل ہو جائے۔ کرپشن کو جائز کرنے کا یہ آسان ترین طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بہت سے کرپٹ لوگ آبرومندانہ زندگی گزار رہے ہیں اور اب دوران ملازمت کے ساتھیوں کی کرپشن میں ‘ان کے مددگار بن چکے ہیں۔ نیب کے ساتھ سودے بازی کر کے‘ آزاد ہونے والا کوئی بھی کرپٹ آدمی‘ناجائز دولت سے تجارت کرنے میں آزاد ہے۔ وہ دوران ملازمت بنائے گئے تعلقات کی مدد سے‘ بھاری بھرکم کنٹریکٹ حاصل کر کے ‘دوران ملازمت سے بھی زیادہ کمانے لگتا ہے۔ اس کے سابق ساتھی بھی‘ دولت سے کھیلنے لگتے ہیں۔
یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستانی عوام کے حقیقی مسائل روزگار‘ علاج‘ بچوں کی تعلیم‘ بجلی اور گیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ منتخب نمائندوں اور ان کے ووٹوں سے بنی حکومتوں سے امید تو یہ رکھی جاتی ہے کہ وہ جن کے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی ہیں۔ا ن کے دُکھ درد دُور کرنے کی کوشش کریں گی‘ لیکن یہ حکومتیں ٹیکسوں اور عوام پر چڑھائے گئے قرضوں کی رقوم سے‘ بھاری بھرکم منصوبے بنانے لگتی ہیں۔لاہور شہر‘ جس میں آپ رکشہ یا ٹیکسی میں بیٹھ کرتھوڑے سے وقت میں ہر جگہ جا سکتے ہیں۔ آپ کو اسی شہر میں آنے جانے کے لئے میٹروبس سروس مہیا کی جارہی ہے۔ اس پر اربوں روپے خرچ آئے اور اس کی سروس برقرار رکھنے کے لئے‘ اربوں روپے کی سبسڈی مزید دی جا رہی
ہے۔اس سروس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو‘ جو میٹرو سے استفادہ کر کے بچائی ہوئی رقم ‘کسی کام میں لا سکتا ہو۔کوئی تاجر‘ کوئی صنعت کار یا کوئی بڑا دکاندار‘ میٹرو بس کی مد د سے کچھ نہیں بچا سکتا۔ اس کے پاس سفر کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔کسی کے پاس اپنی کار ہے‘ کسی کے پاس موٹر سائیکل اوراہل تجارت میں جوسب سے نچلے درجے پر ہوتا ہے‘ وہ رکشہ یا ٹیکسی لے کے‘ میٹرو سے پہلے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔قوم کی اتنی بھاری رقم خرچ کر کے‘ ایسا بے فائدہ منصوبہ تیار کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اربوں روپے خرچ کئے جائیں گے تو ان میں سے ہونے والی ''کمائی ‘‘بھی اربوں میں ہو گی۔ زیادہ طاقتور اور با اثر لوگ تو کاغذوں میں منصوبہ بنا کر‘ کاغذوں میں ہی مکمل کر ڈالتے ہیں اور ایک پیسہ لگائے بغیر‘ منصوبے کی ساری رقم‘ جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
ملک میں سیاسی بحران صرف ایک شخص‘ ڈاکٹر عاصم کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر عاصم کرپشن کے گلیشیئر کے ایک چھوٹے سے کونے کی طرح ہے۔ یہ پکڑ میں آگیا تو پورا گلیشیئرکنٹرول میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ڈاکٹر عاصم کی وجہ سے حکومتیں ہل رہی ہیں۔ بحران پیدا ہو رہے ہیں اور قائد حزب اختلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ'' سندھ میں گورنر راج لگائیں یا ایمرجنسی نافذ کریں۔ جنگ بہت دور تک جائے گی‘‘۔ جنگ واقعی بہت دور تک جائے گی۔ پاکستانی ایوان اقتدار کا سارا ڈھانچہ‘ ایک گلیشیئر کی طرح ہے جو عوام کی بھوک‘ غریبی‘ بے روزگاری‘ بیماریوں اور لاچاریوں کے نیچے دبا ہوا ہے۔ یہ گلیشیئر غریب عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ جس دن اس کا ایک کونہ عوام کی نظروں کے سامنے آگیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر‘ اسے گرفت میں لینے کی کوشش شروع کر دی۔ اس دن یہ گلیشیئر عوام کے کھلے سمندر میں گھل کر غائب ہو جائے گا۔ جمع شدہ دولت تقسیم ہو جائے گی۔ غریبی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عوام کے پائوں زمین کے اوپر آجائیں گے۔ قائد حزب اختلاف بلاوجہ نہیں کہہ رہے کہ ایک شخص کی وجہ سے بحران ہے۔ بحران کی اصل وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کرپشن کے گلیشیئر کا ایک کونہ ہیں۔ اسے فوری طور پر بیرون ملک فرار ہونے کا موقع دے کر‘ گلیشیئر کو نظروں سے اوجھل نہ کیا گیا تو عوام اسے توڑ پھوڑ کرکھا پی جائیں گے۔پاکستان میں اقتدار کا گلیشیئر اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ اسے مزید چھپا کر نہیں رکھا جا سکے گا۔ آج ڈاکٹر عاصم حسین قانون کے شکنجے سے نکل گیا‘ تو کل کئی عاصم حسین گرفت میں آئیں گے۔ اس گلیشیئر کو بہر حال ایک نہ ایک دن پارہ پارہ ہوکر پگھلنا ہے۔ پاکستان کے20کروڑ جفا کش اور محنت کے عادی عوام کو‘انسانی زندگی کے چھینے گئے حقوق ‘واپس مل کر رہیں گے۔ اگر جمہوریت کو حقیقی اور شفاف نہ بنایا گیا تو تبدیلی دھماکوں کے اندر سے نمودار ہو گی۔سابق وزیر ماحولیات‘ مشاہد اللہ خان نے پیپلز پارٹی کے لئے‘ عوامی ترانہ تجویز کیا ہے۔
میرا پیغام کرپشن ہے‘ جہاں تک پہنچے