"NNC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹرعاصم اور قوانین کی بیچارگی

جب ڈاکٹر عاصم ریمانڈ میںرینجرز کو‘کرپشن کے بڑے بڑے واقعات کی تفصیل بتا رہا تھا‘ عین انہی دنوں کراچی میں گشت پر نکلے ہوئے رینجرز کے چار جوانوں کو گولیاں مار کے شہید کر دیا گیا۔سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ‘ جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے پر مامور رینجرزکی ٹیموں کا کپتان قرار دیتے ہیں‘ ان کی کپتانی کسی اور ہی طرف نظر آئی۔وہ لمحہ بہ لمحہ دبئی میں رپورٹ دے رہے تھے کہ آج ڈاکٹر عاصم کو وہاں لے گئے ہیں۔ ان سے یہ تفتیش ہو رہی ہے۔ وہ پوچھا جا رہا ہے۔ کپتان صاحب اور ان کے حواری بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ اسمبلی کی قرارداد کے مطابق رینجرز‘کرپشن میں ملوث کسی سرکاری افسر سے پوچھ گچھ کرنے کے لئے پہلے وزیراعلیٰ سے اجازت لے گی۔یہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہے۔ حکمرانوں کا جو ٹولہ اس وقت پاکستان پر مسلط ہے‘ یہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ صرف اسی پر غور کر لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پر کس قسم کے لوگ حکومت کر رہے ہیں؟ حال ہی میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار پر الزام لگایا گیا کہ اسے ‘اس کے پرانے محکمے سے بدچلنی کے الزام میں برطرف کیا گیا تھا۔ ان صاحب نے اخلاقی دبائو میں آ کر استعفیٰ دے دیا۔ جب یہ بات وزیراعظم کے علم میں آئی‘ تو انہوں نے استعفیٰ منظور کرنے کے بجائے‘ اسے حکم دیا کہ آرام سے گھر میں بیٹھو۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اس شخص کو جلد ہی کوئی بڑا عہدہ دے دیا جائے گا۔ پنجاب میں دن دہاڑے ایک درجن کے قریب نہتے عورتوں اور مردوں کو پولیس نے گولیاں مار کے ‘ ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ کی تحقیق کے لئے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا۔ جب تمام شہادتیں مکمل ہونے کے بعداس کمیشن کی رپورٹ آئی‘ تو بے گناہوں کے قتل کی ذمہ داری پولیس پر ڈال دی گئی اور بہت سے دیگر معززین کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کی اس رپورٹ کو حکومت نے حقارت سے ‘کوڑے دان میں پھینک دیا اور وفاداروں پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اس نے پولیس کو بری الذمہ کرتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا۔ ان 14مردوں اور خواتین کو کس نے مارا؟ کو ن اس کا ذمہ دار ہے؟ حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اس نے یہ زحمت بھی نہیں کی کہ اگر انہیں پولیس نے نہیں مارا تھا‘ تو پھر یہ قتل کس نے کئے؟ حکومت جس پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ اس نے تکلفاً بھی اصل قاتلوں کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ 
یہ خون خاک نشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا
اس طرح کی حکومتوں میں تفتیشی ٹیمیں گرفتاری سے پہلے اگر بڑے ملزموں کے نام وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کریںاور وزیراعلیٰ بھی ایسا‘ جو بیرون ملک بیٹھے ''گاڈ فادر‘‘ کے ذاتی غلام کی حیثیت رکھتا ہو‘ تو اس پر کوئی کیسے بھروسہ کرے گا؟ یہ واقعہ بھی تو انہی دنوں ہوا‘ جب ڈاکٹر عاصم حسین کو تفتیش کے لئے حراست میں لیا گیا تھا اور رینجرز کے جوانوں کو برسرعام گولی مار دی گئی۔ ہو سکتا ہے‘ یہ شاہ سائیں کی طرف سے ہی کوئی وارننگ ہو۔ بہرحال اب اسمبلی نے قراردادپاس کر دی ہے اور جس طریقے سے یہ پاس کی گئی‘ وہ بھی اراکین اسمبلی کی کھلی توہین کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کی وفاداری کی داد دینا پڑتی ہے‘ جنہیں بطور رکن اسمبلی قرارداد کا مسودہ دینے کی زحمت بھی نہیں کی گئی کہ وہ حق یا مخالفت میں رائے دینے سے پہلے‘ ذاتی طور پر اس کا مطالعہ ہی کر لیں۔ اسمبلی کے اندر قرارداد کا صرف ایک مسودہ ‘ اسے پڑھنے والے شخص کے حوالے کیا گیا اور اس نے توتے کی طرح رٹے ہوئے سبق کو ایوان کے سامنے پڑھ دیا۔ اس وقت اپوزیشن احتجاج کر رہی تھی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے حامی اراکین کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ قرارداد پڑھنے والے صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ جیسے ہی وہ پڑھ کے فارغ ہوئے‘ سپیکر نے کسی کو اظہار خیال کی دعوت نہیں دی۔ جس نے بولنا چاہا‘ اسے بھی موقع نہیں دیا گیا اور فوراً اعلان کر دیا گیا کہ قرارداد پاس ہو گئی ہے۔ پارلیمانی قراردادیں اس طرح پاس نہیں کی جاتیں۔ ان میں حزب اقتدار سمیت‘ حزب اختلاف کو اظہار خیال کا موقع دیا جاتا ہے۔ مگر مذکورہ قرارداد کی تو کاپی بھی حزب اختلاف کو نہیں دی گئی۔ صرف ایک رکن نے ریڈنگ کی اور سپیکر نے قرارداد پاس ہونے کا اعلان کر دیا۔ 
ایسی حکومت پر اعتماد کیسے کیا جائے؟ اسمبلی کے ہر رکن کو معلوم تھا کہ یہ قرارداد کس ملزم کے بچائو کے لئے تیار کی گئی ہے؟ یہ ملزم کون ہے؟ اور حکومت نے دھڑادھڑ اقدامات کر کے کس طرح ملزم کو مقدموں سے نکلوایا؟ خود مقدمے پیش کرنے والوں نے اپنی فرد جرم واپس لے کر‘ اسے کم و بیش ان سارے مقدمات سے باہر کر دیا‘ جن پر ریمانڈ لیا گیا تھا۔ رینجرز نے بڑی محنت اور جستجو کے بعد‘ ڈاکٹر عاصم کے خلاف چارج شیٹ تیار کی تھی اور وہ ملزم سے مزید پوچھ گچھ میں مصروف تھے کہ دھڑادھڑ سارے الزام واپس لے کر‘ ملزم کو ریمانڈ سے آزاد کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے‘ عوام یا رینجرز کے ڈر سے ملزم کو فوری طور پررہا کرنے سے گریز کیا گیا ہو اور
سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسے دیگر مقدمات میں تفتیش کے لئے نیب کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ لیکن نیب براہ راست سول انتظامیہ کے ماتحت ہے اور سول انتظامیہ‘ ڈاکٹر عاصم کی فرمانبردار ہے۔ رینجرز اور فوج کی قیادت نے قانون کو یقینی طور پر برسرعام پامال ہوتے دیکھ لیا ہو گا اور عوام بھی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ قانون کے نام پر‘ ان کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکی جا رہی ہے؟ مگر اس باخبری کے باوجود‘ ڈاکٹر عاصم کو نکال لے جانے کا عمل جاری رہا۔ اسمبلی کی قرارداد بھی درحقیقت اسی عمل کا حصہ ہے۔ شاہ سائیں تو اسی رات نوٹیفکیشن کر کے‘ قانون کی شکل دینے والے تھے اور پھر فوراً ہی ڈاکٹر عاصم کو خصوصی طیارے میں بیرون ملک بھیجنے والے تھے کہ رینجرز کاردعمل سامنے آ گیا اور فوج کو بھی اندازہ ہو گیا کہ انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑا کے‘ ایک صوبائی حکومت ‘کس طرح ایک اقبالی ملزم کو غیرقانونی طریقوں سے آزاد کر رہی ہے؟ 
یہ معاملہ ابھی انجام کو نہیں پہنچا۔ سرکار نے درجنوں قانونی ماہرین کو‘ ایسے دائو پیچ ڈھونڈنے پر بٹھارکھا ہے‘ جن سے ڈاکٹر عاصم حسین کو آزاد کرا لیا جائے۔ فی الحال عدالت عالیہ‘ ماہرانہ چالاکیوںکا اثر نہیں لے رہی۔ لیکن قانون آخر قانون ہوتا ہے۔ جب ماہر وکیل دن رات بیٹھ کر‘ ہر کیس کے اندر سے ایسے نکتے نکالیں گے‘ جو عدالت کو قبول کرنے پڑیں گے‘ تو تفتیش کرنے والے افسران‘ ڈاکٹر عاصم حسین کو کیسے زیرتفتیش رکھ سکیں گے؟ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے درجنوں معززین ‘گہری توجہ سے ڈاکٹر عاصم کے کیس کی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جیسے جیسے ڈاکٹر عاصم پر آزادی کے راستے کھلتے جائیں گے‘ ان کے انجام کے منتظر معززین کا سکون بھی بحال ہوتا جائے گا اور جس دن ڈاکٹر عاصم بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوا‘ اقتدار کے ایوانوں میں جشن منائے جائیں گے۔ لیکن آخری انصاف خالق کائنات کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس میں دیر تو ہوتی ہے‘ اندھیر نہیں۔ اگر پاکستان کے غریب اور معصوم عوام کی آنکھوں میں قانونی ڈرامے کی دھول جھونکی جا سکتی ہے‘ تو قانون کے شکنجے میں آئے ہوئے ملزم کو کیفرکردار تک پہنچانے کا انتظام بھی بحال کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں سندھ حکومت کی یہ دلیل کہ گرفتاری سے پہلے ملزم کا نام‘ وزیراعلیٰ کے سامنے پیش کیا جائے‘ تو ادب سے کہنا چاہیے کہ وزیراعلیٰ پر بھروسہ کون کرے؟ جو کچھ وہ‘ ڈاکٹر عاصم کو قانون کے پنجے سے نکالنے کے لئے کر رہے ہیں‘ اسے دیکھ کر کیا یہ اندازہ کرنا غلط ہو گا کہ وزیراعلیٰ صاحب کے سامنے جو نام کارروائی شروع کرنے کے لئے رکھا جائے گا‘ دو منٹ میں اس کی ای میل‘ دبئی پہنچ چکی ہو گی؟ کرپشن اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فوج دہشت گردی کے خاتمے کی مہم میں‘ کرپشن کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ریاستی اداروں کے ذریعے قوم کو انصاف مل گیا‘ تو مل گیا۔ ورنہ موجودہ نظام باقی رہا‘ تو اس کے اندر سے انارکی ہی نکلے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں