بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی اچانک ملاقاتوں سے‘ دونوں طرف کے ماہرین‘ طرح طرح کی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ خوب سوچ سمجھ کر کیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ‘ وہ اسے مستحکم کرتا چلا گیا۔ کشمیر‘ بھارت کے لئے محض ایک پُرفضا علاقہ نہیں‘ اس کے لئے وسائل کابھنڈار اہے۔ ستلج‘ راوی اور بیاس‘ تین دریا تو وہ ایک معاہدے کے تحت ہم سے لے چکا‘باقی دونوں دریا یعنی چناب اور جہلم‘ مقبوضہ علاقوں سے گزر کے آتے ہیں۔بیشک معاہدے کے تحت ‘ ان دونوں دریائوں کے پانی پر ہمارا حق تسلیم کیا گیا ہے‘ لیکن بھارت کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ان دونوں دریائوں کے پانی پر بھی قبضہ کر لیا جائے۔ چناب پر تو وولربیراج کی تعمیرعرصے سے جاری ہے۔ وہ کسی بھی وقت چناب کے پانی سے اپنے حصے سے زیادہ پانی روک سکتا ہے۔ یہی صورتحال جہلم کی ہے۔ کشیدگی اور لڑائی کی صورت میں‘ ہم جنگ تو کر سکتے ہیں‘لیکن بھارت سے اپنے حصے کے دریائوں کا پانی نہیں چھین سکتے۔ بیشک ان دونوں دریائوں پر ہمارے حق کو عالمی بنک اور بعض دیگر اداروں نے تسلیم کر کے‘ ضمانتیں دے رکھی ہیں‘لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آج کی دنیا میں بڑے بڑے عالمی اداروں کی ضمانتوں کے باوجود‘ کمزور سے اس کا حق چھینا گیا اور ضمانتیں دینے والی طاقتیں کچھ نہ کر سکیں۔ فلسطین کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ یو این نے فلسطینیوں کے جتنے حقوق بھی تسلیم کر رکھے ہیں‘ وہ ان سے محروم ہیں۔ دنیا‘ اقوام متحدہ کو اس کی قراردادیں اور ضمانتیں یاد کراتی ہے‘لیکن یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ جو بڑی طاقتیں یو این پر اثرانداز ہو سکتی ہیں‘ وہ سب کی سب اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں کسی کو متاثر نہیں کرتیں۔ پوری فلسطینی قوم کو نیست و نابود کیا جا رہا ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد کو وطن سے نکال کر دیگر کئی ملکوں میں پھینکا جا چکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ فلسطینیوں کے بڑے حصے کو بھی دیگر ملکوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہ اقوام متحدہ کی طے شدہ پالیسی نظر آتی ہے۔ کوئی بڑی طاقت ان کے لئے عملی اقدام کرنے کو تیار نہیں اور خود فلسطینیوں میں اتنی طاقت نہیں رہ گئی کہ وہ اسرائیلیوں کو اپنے علاقوں سے زبردستی نکال سکیں۔
پاکستان کے معاملات مختلف ہیں۔کشمیر میں رائے شماری کا حق اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے‘ لیکن وہ اس سمت میں کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہمارے لئے تنازعہ کشمیرکا بہترین لمحہ وہ تھا‘ جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور آ کر‘ تنازعہ کشمیر پر تصادم کے امکان کو بہت دور کر دیا تھا۔ یو این کی قراردادوں کی روشنی میں اس سے بہتر کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکتا تھا‘ جس پر واجپائی اور نوازشریف نے اتفاق کر لیا تھا۔ میں بارہا اپنے کالموں میں اس قابل عمل حل کا خاکہ بیان کر چکا ہوں۔ مناسب ہو گا کہ آج پھر اسے دہرا دوں۔ دونوں وزرائے اعظم نے اتفاق کیا تھا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیا جائے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے 25سال کی آزمائشی مدت حاصل کی جائے۔ اس آزمائشی مدت میں کشمیریوں کے لئے لائن آف کنٹرول کو غیرموثر کر دیا جائے گا۔ دونوں طرف کے کشمیریوں کو ‘لائن آف کنٹرول کے آر پار آنے جانے کا حق ہو گا۔ وہ باہمی تجارت بھی کر سکیں گے۔ قدرتی وسائل سے فیض یاب بھی ہوں گے۔ دونوں طرف کے کشمیر کی سلامتی کی ذمہ داری ‘پاکستان اور بھارت دونوں لیں گے۔ 25سال تک اس طریقہ کار پر عملدرآمد کیا جائے گا اور اس کے بعد‘ کشمیریوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ اس انتظام کو مستقل کرنا چاہیں گے؟ اسی کو درحقیقت استصواب رائے تصور کیا جائے گا۔ اگر 25سال تک اس انتظام کے تحت رہنا‘ کشمیری عوام قبول کر لیتے ہیں ‘ تو پھر اگلے قدم کے طوپر نیا انتظام یہ کیا جائے گا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی سکیورٹی فورسز ‘امن و امان قائم رکھنے کے لئے‘ دونوں طرف کی ذمہ داریاں اٹھائیں گی۔ کشمیر کی لائن آف کنٹرول ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے گی۔ کشمیری عوام کو اپنی ریاست کا انتظام چلانے کی آزادی حاصل ہو گی۔ ریاست میں دونوں ملکوں کی کرنسیاں چلائی جا سکیں گی۔ کشمیریوں کو یہ آزادی ہو گی کہ دونوں میں سے جس ملک کا پاسپورٹ وہ چاہیں حاصل کر سکیں گے اور اسی پر دنیا بھر کی سیروسیاحت کرنے کا انہیں حق حاصل ہو گا۔ پوری ریاست جموں و کشمیر میں عوامی ووٹوں کے ذریعے جمہوری حکومت قائم کی جائے گی‘جسے داخلی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ صرف سکیورٹی کی ذمہ داری دونوں ملک اٹھائیں گے۔ سکیورٹی فورسز کی تعداد کا تعین‘ تینوں فریقوں یعنی کشمیریوں‘ بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کی باہمی رضامندی سے ہو گا۔پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں کے باشندوں کو سیروسیاحت کے لئے کشمیر جانے کی آزادی ہو گی۔ یہ محض ابتدائی خاکہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو ضرورتیں سامنے آئیں گی‘ انہیں پورا کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔
25سال تک اس طریقہ کار کے تحت ریاستی امور منتخب حکومت کے تحت چلائے جائیں گے۔ جہاں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہوا‘ اس کا فیصلہ ریاست جموں و کشمیر کی منتخب اسمبلی کیا کرے گی اور اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہوا‘ تو پاکستان اور بھارت دونوں ‘ کشمیریوں کی رضامندی سے اسے حل کریں گے۔کشمیر کے مستقل حل کے لئے اس تجرباتی مدت کے اندر جو بھی مشکلات اور مسائل سامنے آئیں گے‘ انہیں وقت کے ساتھ ساتھ حل کیا جائے گا اور 25سال گزرنے کے بعد‘ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی کہ وہاں کے عوام اس عبوری عرصے میں آزمائے ہوئے بندوبست کو جاری رکھنا چاہیں گے یا موجودہ تقسیم کے مطابق اپنے اپنے حصے کا انتظام علیحدہ کر کے رہنا پسند کریں گے۔ جس طریقے سے یہ آزمائشی مدت گزاری جائے گی‘ اس کے اندر چھوٹے چھوٹے باہمی مسائل ‘ کشمیری عوام آپس
میں طے کرتے رہیں گے اور اندازہ یہی لگایا گیا ہے کہ کشمیری اپنی قومی اور جغرافیائی شناخت برقرار رکھیں گے۔ ریاست کو داخلی خودمختاری حاصل ہو گی۔ اپنا آئین اور قوانین‘ خود کشمیری عوام تیار کریں گے۔ ریاست کا دفاع اور خارجہ پالیسی‘ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی‘ جو کشمیری عوام کی رضامندی سے بنائی جائے گی۔ 25سال کا تجرباتی عرصہ بہت ہوتا ہے۔اندازہ یہی لگایا گیا کہ یہ عرصہ پورا ہونے تک کشمیری‘ اپنے وطن کے اندر صلح صفائی اور امن و امان کے ساتھ رہ سکیں گے۔ عام ریاستوں پر دفاع اور امن و امان برقرار رکھنے کے اخراجات پورے کرنے کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں‘ ان کا بوجھ کشمیری عوام پر نہیں پڑے گا اور آزمائشی مدت کے لئے وہ ٹیکسوں کے بغیر زندگی گزار سکیں گے۔ اس دوران عوامی معیشت نہ صرف مستحکم ہو گی بلکہ کشمیری عوام کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آ جائے گی اور وہ داخلی امن و امان برقرار رکھنے کے لئے سکیورٹی کے اخراجات خود برداشت کر سکیں گے‘ جبکہ بیرونی خطرے کی صورت میں پاکستان اور بھارت دونوں ‘ کشمیر کے دفاع کے ذمہ دار ہوں گے۔ فی الحال یہ انتظام بہت پیچیدہ نظر آتا ہے۔ لیکن واجپائی اور نوازشریف دونوں نے اس پر کام شروع کر دیا تھا۔ کارگل پر دغابازی سے حملہ کر کے پاکستان کے چند جرنیلوں نے‘ پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ یہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں اور امریکہ کی معاملہ فہمی تھی کہ ان تینوں نے جنگ کو پھیلنے سے روکا۔ جنگ بندی لائن دوبارہ بحال کی گئی۔ ورنہ ہمارے چند جنرلوںنے جو صورتحال پیدا کر دی تھی‘ وہ ہماری فوج کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتی۔ کم از کم چار پانچ ہزار پاکستانی فوجی‘ بھارتیوں کے حصار میں آ چکے تھے۔ ان کی واپسی کے راستے مسدود کر دیئے گئے تھے اور انہیں خوراک پہنچانے کا کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔ یہ صدر کلنٹن اور بھارتی وزیراعظم واجپائی دونوں کی دانشمندی تھی کہ انہوں نے بھارت کی بالادستی سے فائدہ اٹھا کر مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور پہلے والی سرحد پر واپس چلے گئے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان یا بھارت میں سے کوئی بھی اپنا زیرانتظام علاقہ آزاد کر دے گا‘ تو یہ خام خیالی ہو گی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی جوں کی توں برقرار رہے گی۔ امن ہر وقت خطرے میں رہے گا۔ یہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ان کے قائدین میں انتہاپسندی کے رحجانات پائے جاتے ہیں۔ دنیا کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ یہ کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کے شعلے بھڑکا سکتے ہیں‘ جو پوری دنیا کے لئے خطرناک ہو گا۔ اس وقت دنیا کی تمام طاقتوں کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کا پرامن حل کر کے‘ اپنے خطے سے کشیدگی اور تصادم کے امکانات ختم کریں‘ ورنہ ایٹمی جنگ کے خطرے کے سائے میں رہنا دونوں ملکوں کے لئے انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہو گا۔ ہمارا میڈیا اور رائے عامہ‘ پاکستان اور بھارت کے حالیہ رابطوں سے جو امیدیں لگائے بیٹھے ہیں‘ ان کا پورا ہوناآسان نہیں۔ امن کی منزل تک پہنچنے کے لئے جتنی حکمت اور تدبر کی ضرورت ہے‘ ہم آسانی سے اسے پورا نہیں کر پائیں گے۔ یہ بڑے صبرآزما لمحات ہوں گے۔ امن کی فضا پیدا کر کے‘ اسے استحکام دینا بہت مشکل ہے اور یہ مشکل حل کئے بغیرہم امن کی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔