حکومتیں تو کالا دھن برآمد کرنے کے قابل نہیں۔ کہنے کو تو ہر حکومت نے کالا دھن نکالنے کی پالیسیاں بنائیں‘ لیکن ٹیکس چوروں نے کالا دھن مزید جمع کر لیا۔ حکومت کے ہاتھ کالے دھن کا ایک پیسہ نہیں لگا اور اب تو حکومت ڈار صاحب کی ہے۔ ڈار صاحب سے زیادہ منی لانڈرنگ کے بارے میں کون جانتا ہے؟ منی لانڈرنگ کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹیکس چوری کا جو پیسہ سرمایہ دار جمع کرتے ہیں‘ اسے کاغذات میں لا کر ‘رائج الوقت قوانین کے مطابق سفید کر دیا جاتا ہے۔ ڈار صاحب کی حالیہ سکیم بھی‘ منی لانڈرنگ سکیم ہے۔ اس بار چونکہ وہ خود وزیر خزانہ ہیں‘ لہٰذا رعایت کر دی کہ دھن وان اطمینان سے ایک روپیہ حکومت کو دے کر‘ اپنی جمع شدہ منی کی‘ لانڈرنگ کر لیں۔ عام حالات میں منی لانڈرنگ کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ کالے دھن والوں کی مدد کے لئے ہمارے وزیر خزانہ نے خود ہی گھروں یا بینکوں میں پڑے کالے دھن کے سو روپے پر‘ ایک روپے کے بدلے‘ لانڈرنگ کر دی۔ کالے دھن والے جس طبقے سے ڈار صاحب ٹیکس چوری سے جمع شدہ جو رقم نکلوانا چاہتے ہیں‘ وہی تو خاص ہنر ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ وہ چھپایا گیا کالا دھن برآمد کر کے‘ اسے باضابطہ ریکارڈ کا حصہ بنائیں‘ لیکن ان کی فنی مہارت اس کے برعکس ہے۔ ڈار صاحب کی فنی مہارت سے فائدہ اٹھانے والوں میں ممکن ہے حکمران خاندان بھی شامل ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس خاندان کو کبھی کالا دھن جائز کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی‘ کیونکہ وہ جو بھی کماتے ہیں‘ وہ جائز ہی ہوتا ہے۔ ڈار صاحب کی سکیم پر تبصرہ کرنے کی مجھ میں قطعی اہلیت نہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے متعدد حکومتوں کو کالا دھن باضابطہ بنانے کے اعلانات کرتے دیکھا ہے۔ حکومت کو تو کچھ حاصل نہ ہوا؛ البتہ کالے دھن میں مزید اضافہ ہو گیا۔ فوجی حکمرانوں نے ڈنڈا دکھایا تو کالے دھن والوں نے انہیں ٹھینگا دکھا دیا اور اپنے کالے دھن میں مزید اضافہ کر لیا۔
یہ میرے نہیں‘ خود ڈار صاحب کے الفاظ ہیں کہ پاکستان میں کالے دھن کی مقدار‘ ریکارڈ پر آئی ہوئی معیشت سے زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان میں اکائونٹ تیار کرنے کے ماہرین اگر اپنے پیشے کا احترام کریں‘ تو انہیں کام نہیں ملتا اور کام کریں‘ تو اس میں کالا دھن سرکار کی نظروں سے بچانا پڑتا ہے۔ گویا ان بیچاروں کی پوزیشن بھی یہی ہوتی ہے کہ ''چوری میرا پیشہ ہے‘ نماز میرا فرض ہے۔‘‘
پاکستان کے سرمایہ داروں میں ہو سکتا ہے‘ بہت سے لوگ‘ ایمانداری سے ٹیکس بھی دیتے ہوں۔ انہوں نے اپنے سرمائے کو‘ کالا ہونے سے بچا کے رکھا ہو گا‘ لیکن عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دار بننے کے لئے کالے دھن سے استفادہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بطور سیاستدان‘ معاشرے کے سارے رموز جانتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی حس مزاح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچ بھی کہہ جاتے ہیں۔ مثلاً جن لوگوں سے کالا دھن نکلوانے کے لئے ڈار صاحب نے انہیں جمع کر کے‘ وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ ان کی طرف سے‘ وزیر اعظم کو ایک سونے کا میڈل پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم اپنی زندہ دلی پر قابو نہ رکھ سکے اور میڈل لیتے ہوئے ہنس کر پوچھا ''کیا یہ خالص ہے؟‘‘ وزیر اعظم سمیت سچائی کو سب جانتے ہیں۔ سچائی کو ہم بھی جانتے ہیں۔ عوام بھی جانتے ہیں۔ وہ اہلکار بھی جانتے ہیں‘ جن کی ڈیوٹی کالا دھن سفید کرنے پر لگے گی‘ لیکن کیا کریں؟ ہمارا رہن سہن ہی اس طرح کا ہو گیا ہے۔ حلال کی کھانا چاہیں‘ تو گزارا نہیں ہوتا اور گزر اوقات کرنا ہو‘ تو کالے دھن سے بچنا مشکل ہے۔
آج ہی کی ایک خبر پڑھ کے‘ میرے ذہن میں ترکیب آئی کہ کیوں نہ کالا دھن برآمد کرنے کا کام‘ پولیس کے سپرد کر دیا جائے اور ساتھ ہی وصولی کے لئے‘ پولیس کو موقع پر ملزم ہلاک کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ یہ بات میں وثوق سے لکھ سکتا ہوں کہ پولیس کو یہ اختیار مل گیا‘ تو نہ کالا دھن رہے گا‘ نہ کالے دھن والے۔ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے گداگر کی جیب سے بھی‘ کالا دھن برآمد کر کے‘ پولیس ''سنبھال‘‘ لے گی اور پولیس موڈ میں ہوئی‘ تو اس گداگر کو گولی بھی مار دے گی۔ مگر کل ملائشیا سے چھٹی پر آئے ہوئے‘ ایک طالب علم کو‘ جس کے گھر والے اس کی شادی کی تیاری کر رہے تھے‘ پولیس نے اپنے مقابلے پر لا کر‘ ہلاک کر دیا۔ مقتول کے اہل خاندان‘ پولیس سے اس کا شناختی کارڈ مانگ رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے‘ وہ طالب علم بیچارہ اپنی خالی جیب لے کر‘ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے گیا تھا۔ پولیس کے جی میں آئی اور اس پر از راہ تفنن گولی چلا کر دیکھ لیا۔ اگر وہ ہلاک ہو گیا‘ تو اس میں پولیس کا کیا قصور؟ اسے تو الٹا اپنے پاس سے ایک ہتھیار فراہم کرنا پڑا‘ جسے مقتول کے ذمے لگایا جائے۔ یہ سانحہ اپنی جگہ‘ لیکن میں پولیس کے لامحدود اختیارات کو دیکھتے ہوئے‘ سوچ رہا ہوں کہ اگر کالا دھن برآمد کرنے کی ذمہ داری‘ پولیس کے سپرد کر دی جائے‘ کالا دھن تو محلات سے لے کر جھگیوں تک ہر گھر سے برآمد کر لیا جائے گا‘ لیکن وہ جائے گا کہاں؟ اس کا ذمہ دار میں نہیں۔ جس کام کا اختیار پولیس کو دے دیا جائے‘ اس کا ذمہ دار پھر کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ صدر اور وزیر اعظم بھی نہیں۔
بعض قارئین کو شاید بُرا لگے کہ میں ایک سنجیدہ مالیاتی موضوع پر‘ مسخرے پن کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ سوچا میں نے بھی یہی تھا کہ ایسے سنجیدہ موضوع پر طنز و مزاح سے کام نہ لیا جائے۔ میں نے حکومت کے اعلان کو بار بار پڑھا کہ اس میں کوئی سنجیدہ بات نکل آئے۔ مجھے اس میں سنجیدگی کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیا۔ کالا دھن برآمد کرنے کے اعلانات پڑھتے پڑھتے‘ میں قبر کے کنارے پہنچ گیا ہوں۔ لیکن کسی وزیر خزانہ نے کالے دھن کی پالیسی بناتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہر وزیر خزانہ کو معلوم تھا کہ پاکستانی سرمایہ داروں سے ٹیکس وصول کرنا‘ پتھر سے شہد نچوڑنے کے مترادف ہے۔ پتھر کو نچوڑ کے شہد تو نکالا جا سکتا ہے‘ لیکن پاکستانی سرمایہ دار سے کالا دھن نکلوانا ناممکنات میں سے ہے۔ بیشتر وزرائے خزانہ تو ایسے بھی تھے‘ جو کالا دھن برآمد کرنے کی پالیسی بیان کرتے وقت‘ اپنی ہنسی پر بمشکل قابو پا سکے۔ ایسی مضحکہ خیز پالیسی بیان کرتے ہوئے‘ صرف ڈار صاحب ہی اپنی ہنسی پر قابو پا سکتے ہیں‘ جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں ہنسی آتی ہی نہیں اور جس بات پر وہ ہنستے ہیں‘ وہ ہنسنے کی بات ہی نہیں ہوتی۔ میں تو کبھی کبھی اہل وطن کی بے بسی پر ہنستا ہوں کہ ایک تو ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار ہیں‘ اوپر سے وہ طنز و مزاح سے بھرپور مالیاتی پالیسیاں تخلیق کرتے ہیں۔ انہیں سناتے وقت وہ اتنے سنجیدہ ہوتے ہیں کہ سامعین کو اپنی ہنسی پر بمشکل قابو پانا پڑتا ہے۔ کئی بار تو خود اسحق ڈار‘ سامعین کی
بدذوقی پر بدمزہ ہو جاتے ہیں کہ میں کتنی مضحکہ خیز باتیں کر رہا ہوں اور یہ لوگ انتہائی سنجیدگی کے عالم میں‘ خاموش بیٹھے سن رہے ہیں۔ یہ بات عام آدمی بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں سفید دھن وہ ہوتا ہے‘ جو ٹیکس وصول کرنے والوں سے محفوظ رہ جائے۔ ٹیکس لینے والے محکموںکی مجبوریاں کیسے بیان کروں؟ انہیں حکومت کے لئے الگ رقم اکٹھی کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد وزارت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے لے کر افسروں تک سب کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد گھر کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ٹیکس وصول کرنے والے ہر افسر کی بیوی‘ اپنے میل جول والیوں کے ساتھ‘ مقابلے کی دوڑ میں مسلسل مصروف رہتی ہے۔ ایسے افسران کی بیویوں میں کوئی دوسری سے ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ وہ صرف ہار مانگتی ہے‘ مانتی نہیں۔ پھر انسان کے ذاتی اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ جن کا بڑا حصہ دوست احباب میں خرچ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی بڑا حصہ وہاں خرچ ہوتا ہے‘ جہاں گھر جانے سے پہلے خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ سارے مراحل طے کرنے کے بعد جو چار پیسے بچتے ہیں وہ سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی سی وصولی پر ملک نہیں چلایا جا سکتا؛ چنانچہ کمی پوری کرنے کے لئے‘ ہمیں قرض دینے والے عالمی اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ انہیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کون سا ملک قرض مانگنے آئے گا؟ معاہدوں کے مسودے پہلے سے تیار پڑے ہوتے ہیں۔ قرض مانگنے والے وزیر خزانہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے کہ وہ کتنی
رقم کے کاغذوں پر دستخط کرے گا؟ کتنی رقم دستخطوں کے بغیر استعمال ہو گی؟ اور کس کے استعمال میں آئے گی؟ سچ بتائوں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں‘ وزارت خزانہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ خزانہ وہ ہوتا ہے‘ جس میں کچھ جمع کرایا جائے۔ جس خزانے میں ملک کے اندر سے کچھ جمع ہی نہ کرایا جاتا ہو‘ خدا لگتی کہیے‘ وہاں وزارت خزانہ کا جھنجھٹ پالنے کی ضرورت کیا ہے؟ اسے تو ایک وزارت کشکول چاہیے۔ کشکول بھی ایسا‘ جس میں ڈالی گئی رقم کئی گنا کر کے‘ واپس دینا پڑے۔ یہ سب کچھ لکھنے کے بعد‘ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سارے اللّے تللّے کراتا کون ہے؟ تب میں اپنے آپ سے کہتا ہوں ''بیوقوف آدمی! تمہارے سوا اور کون ہے؟‘‘