"NNC" (space) message & send to 7575

رام رام بھی سچ ہے اور خنجر بھی

پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر‘ دہشت گردوں کی کارروائی کو آج تیسرا دن ہے اور خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ حملہ آوروں کے کچھ ساتھی ابھی تک اڈے پر کہیں چھپے ہوئے ہیں۔بھارت میں جب بھی ایسی کارروائی ہوتی ہے‘ تو وہاں کی سرکاری مشینری اور میڈیا دونوں ایک ساتھ ‘پاکستان پر الزام تراشی کرنے لگتے ہیں۔ اس بار یہ واضح فرق نظر آیا کہ نہ صرف بھارتی حکومت نے پاکستان کو موردالزام نہیں ٹھہرایا بلکہ پاکستان نے بھی دہشت گردی کی اس کارروائی کی مذمت کی۔ یہ دونوں ملکوں کی روایات کے خلاف ہے۔ صاف ظاہر ہے‘ گزشتہ چند روز کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے مابین جو مختصر رابطے ہوئے‘ یہ انہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ یہ ملاقاتیں بھی اتنی اتفاقیہ نہیں تھیں‘ جتنی کہ نظر آئیں۔ ہندپاک تعلقات کا پس منظرسامنے رکھتے ہوئے‘ مناسب یہی لگتا ہے کہ باضابطہ مذاکرات کا فوری جواز موجود نہیں۔ خصوصاً انتہاپسند بی جے پی کی حکومت کے لئے ایسا کرنا مشکل ہے۔ جیسے ہی مذاکرات کے سلسلے میں پیش رفت شروع ہو گی‘ مخالف قوتیں بلاتاخیر حرکت میں آ جائیں گی اور مودی حکومت کے لئے مثبت پیش رفت مشکل ہو جائے گی۔ 
عالمی برادری اس خطرے پر بھی فکر مند ہے کہ یہ دونوں روایتی حریف ‘ خطرناک ترین ایٹمی اسلحہ کے ذخیرے اکٹھے کر چکے ہیں۔ دونوں کے پاس صبروتحمل کی مزید گنجائش موجود نہیں۔ دہشت گردی کے دو واقعات ‘ہمیں جنگ کے کنارے پر لے آئے تھے۔ خصوصاً ایک مرتبہ تو فوجیں سرحدوں پر آمنے سامنے آ گئی تھیں اور کم و بیش ایک سال تک جنگ کی سی کیفیت موجود رہی۔ اس مرتبہ کوئی بھارتی پارلیمنٹ یا ممبئی جیسا واقعہ ہو جاتا‘ تو موجودہ انتہاپسند بھارتی حکومت کے پاس جنگ کو ٹالنے کے لئے کسی عذر کی گنجائش نہیں تھی۔ انہی امکانات کو دیکھتے ہوئے‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ حتیٰ کہ روس بھی یہ سمجھتا ہے کہ ایٹمی اسلحہ سے لیس یہ دو حریف ملک‘ اب اگر کسی اتفاقیہ حادثے کا شکار ہو کر‘ اشتعال میں آتے ہیں‘ تو انہیں جنگ سے باز رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ملکوں کو باضابطہ مذاکرات کی راہ پر ڈالنے کے بجائے‘ ان کے مابین اتفاقیہ رابطے کرائے جائیں۔ جن میں باضابطہ مذاکرات کی راہ نکالی جائے۔ یہ ترکیب کافی موثر ثابت ہوئی۔ پیرس میں پاک و ہند ‘دونوں کے وزرائے اعظم کی ''اتفاقیہ‘‘ ملاقات‘ پیشرفت کا ذریعہ بنی۔ اس کے نتیجے میں بھارتی وزیرخارجہ ایک علاقائی کانفرنس میں ''شرکت‘‘ کے لئے پاکستان آئیں اور اس دوران‘ ان کا وزیراعظم پاکستان سے رابطہ ہوا اور اس کے نتیجے میں ‘ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات پر نہ صرف مثبت گفتگو کی بلکہ جامع مذاکرات کی تجویز بھی پیش کر دی۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ وزرائے اعظم کی اتفاقیہ ملاقاتیں‘ اس قدر اتفاقیہ بھی نہیں تھیں۔ ان کے لئے کئی دوست ملکوں کے توسط سے درپردہ رابطے ہوئے‘ جن میں باضابطہ مذاکرات شروع کرنے کے طریقے سوچے گئے اور بات چیت آگے بڑھنے لگی۔ ابھی حکومتی عہدیداروں کی ملاقاتیں طے ہوئی تھیں کہ پٹھان کوٹ کے واقعات رونما ہو گئے۔ یہ غیرمتوقع نہیں تھے۔ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں پیش رفت ہو رہی تھی‘ تو حریت کانفرنس کے سیاسی گروپ سے تعلق رکھنے والے میرواعظ عمرفاروق نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ دہشت گرد عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کو بھارت اور پاکستان کی دوستی راس نہیں آتی۔ عمر فاروق کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ مودی کے دورئہ لاہور کو ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ہوائی اڈے کی سکیورٹی پہلے سے ایسے حملے کے لئے تیار تھی۔ وہاں کے حساس مقامات اور طیاروں کے حفاظتی انتظامات کر لئے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے تین روزہ جھڑپوں کے دوران بھی کوئی نقصان نہیں ہوا، لیکن ایک بات ثابت ہو گئی کہ بھارت میں وہ انتہاپسند عناصر پوری طرح سے متحرک ہیں‘ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور باہمی رابطوں کے شدید مخالف ہیں۔ خلاف توقع‘ انتہاپسند پارٹی کی حکومت نے بھی تخریب کاری کے ان واقعات کی آڑ میں ماضی کی طرح‘ پاکستان کو براہ راست موردالزام ٹھہرانے سے گریز کیا۔ اس کے برعکس میڈیا نے روایتی طور پر پاکستان مخالف پراپیگنڈے کی عادت نہیں چھوڑی اور الزام تراشیوں پر مبنی من گھڑت قصے دہرانے شروع کر دیئے۔ جو کہانی بنائی گئی‘ وہ بنیادی حقائق سے متصادم ہے۔ مثلاً کہا گیا کہ دہشت گردوں کا تعلق بہاولپور کی ایک خفیہ تنظیم سے تھا اور انہوں نے وہاں سے پٹھان کوٹ پہنچ کر کارروائی کی۔ اگر پاکستانی اور بھارتی میڈیا کو دونوں ملکوں میں آنے جانے کی آزادیاں میسر ہوتیں‘ تو کم ازکم وہاں کے میڈیا والوں کو یہ علم ہوتا کہ پاک بھارت سرحد سے‘ بہاولپور کتنی دور واقع ہے؟ بہاولپور سے بھارت میں داخل ہو کر کارروائیاں کرنے والے راجستھان کی طرف جا سکتے تھے۔ پٹھان کوٹ پہنچنے کے لئے انہیں طویل فاصلے طے کرنا پڑتے اور وہ سرحد کے اس حصے کو استعمال کر کے کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ انہیں ایسا کرنے کے لئے جس قسم کے تجربے کی ضرورت تھی‘ وہ حاصل کرنا ان کے لئے دشوار تھا۔ پاکستانیوں نے تو بہاولپور کی اس کہانی کو اہمیت نہیں دی، لیکن بھارتی میڈیا اور وہاں کے عام شہری ضرور اس بے بنیاد کہانی سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ 
برصغیر میں ہندومسلم تعلقات کی تاریخ باہمی دشمنی‘ مسلسل کشمکش‘ کبھی خیرسگالی اور کبھی خونریز جھڑپوں سے بھری ہے۔ انگریزوں سے آزادی کی تحریک بھی دونوں قوموں نے ایک ساتھ شروع کی۔ کانگرس میں سب اکٹھے تھے۔ ہندو لیڈروں کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی ‘ تحریک آزادی کے نمایاں لیڈروں میں شامل تھے۔ لیکن مسلمانوں سے ہندو کی نفرت‘ تحریک آزادی میں ساتھ ساتھ شامل ہونے کے باوجود سر اٹھاتی رہی۔ خصوصاً مہاتما گاندھی‘ جو بظاہر مذہبی منافرت سے لاتعلقی ظاہر کیا کرتے تھے‘ وہ بھی بنیادی طور پر ہندوئوں کے مفادات کو آگے بڑھانے میں لگے رہتے تھے۔ ان کے اسی انداز سیاست نے ‘ قائد اعظمؒ کو شکوک و شبہات اور بدگمانیوں میں مبتلا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ واقعاتی شہادتیں سامنے آ گئیں اور قائد اعظمؒ جو متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ حقوق کا تحفظ مانگ رہے تھے‘ ہندو قیادت نے ‘ مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں۔ 1940ء میں جب مسلمانوں کے مطالبات پر مبنی قرارداد پاس کی گئی‘ تو اسے ہندو میڈیا نے پاکستان کا مطالبہ قرار دیا اور پھر مشترکہ تحریک آزادی‘ دومتوازی تحریکوں میں تقسیم ہو گئی۔ مسلمان اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے،جبکہ ہندو پورے برصغیر پر حکومت کرنے کے طلبگار تھے۔ میں یہ پس منظر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ مسلمان خلوص کے ساتھ جدوجہد آزادی میں کانگرس کے ساتھ تھے، لیکن کانگرس کی ہندو لیڈرشپ نے ‘ مسلمانوں کو کبھی اپنا ساتھی نہیں سمجھا۔ قدم قدم پر مسلمان لیڈروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی۔ حد یہ ہے کہ تقسیم ہند کا فارمولا قبول کرنے کے بعد بھی کانگرسی قیادت ‘سارے عہدوپیمان فراموش کر کے‘ طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزیوں پر اتر آئی۔ تقسیم کے اصولوں کے مطابق نظام حیدر آباد کو یہ حق تھا کہ وہ اپنی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتے تھے، لیکن بھارت نے فوج کشی سے ‘ریاست پر قبضہ کر لیا۔ وہاں بہانہ لگایا گیا کہ حیدرآباد کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں فوج کشی کے لئے بھارتی حکمرانوں نے بہانہ بنایا کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر میں فوجی مداخلت ہو رہی ہے اور خود فوج کشی کر کے‘ سلامتی کونسل میں شکایت کر دی کہ پاکستان کو کشمیر میں مداخلت سے روکا جائے۔ وہاں پر عالمی برادری سے باربار وعدے کئے گئے کہ بھارت ‘ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ماحول فراہم کرے گا، مگر آج وہ عالمی برادری سے کئے گئے سارے وعدے فراموش کر کے‘ کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہندومسلم تعلقات کی تاریخ میں ‘ مسلمانوں کو ہمیشہ دھوکہ دیا گیا۔ اسی بنا پر یہ محاورہ عام استعمال ہوتا تھا کہ بغل میں چھری‘ منہ پررام رام۔ 
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بحالی کے موجودہ عمل کو‘ اسی محاورے کی روشنی میں دیکھنا پڑے گا۔ اس وقت بھارت سرکار کے منہ پر رام رام ہے، لیکن ہمیں بغل میں چھپی ہوئی چھری سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ شیواجی مرہٹہ اور افضل خان کا تاریخی واقعہ یاد رکھنے والی مثال ہے۔ دونوں میں طے پایا تھا کہ وہ اپنی اپنی تلوار لے کر باہمی مقابلہ کریں گے۔ لیکن شیوا جی خنجر بھی چھپا لیاتھا۔ طویل قامت افضل خان نے تلوار اٹھائی‘ تو پانچ فٹ کے شیوا جی نے چپکے سے خنجر نکال کر‘ افضل خان کی پیٹھ میں گھونپ دیا۔رام رام بھی درست ہے اور خنجر بھی حقیقت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں