بھارتی فضائیہ کے پٹھان کوٹ اڈے پر‘ چند دہشت گردوں کا حملہ تادم تحریر جاری ہے۔ ابتداء میں بھارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ کُل 7دہشت گردوں نے ‘4دن پہلے کارروائی شروع کی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق 7دہشت گرد‘ پاکستان کی طرف سے بھارت میں داخل ہوئے تھے‘ جن میں سے 6کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور ابھی تک ایک یا دو ‘پرائیویٹ عمارتوں میں پناہ لے کر بیٹھے ہیں۔ ایک ہوائی اڈے پر محض 7دہشت گردوں کی کارروائی‘ 4دن تک جاری رہنے پر حیرت ہوتی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا برسوں سے نشانہ ہے اور ہمارے حساس مقامات پر متعدد حملے ہوئے۔ کوئی بھی چند گھنٹوں سے زیادہ طول نہ پکڑ سکا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر بہت بڑا حملہ کیا گیا تھا۔ یہ حملہ شام کے وقت ہوا اور رات ختم ہونے سے پہلے ‘ سارے دہشت گرد کیفرکردار کو پہنچا دیئے گئے تھے۔ ہماری فضائیہ کی اعلیٰ ترین ورکشاپ پر‘ جس میں جنگی طیارے بھی بنائے جاتے ہیں‘ دہشت گردوں کا حملہ بھی چند گھنٹے سے زیادہ جاری نہ رکھا جا سکا۔ میں اس سلسلے میں ان گنت مثالیں پیش کر سکتا ہوں کہ پاکستان کی دفاعی فورسز نے دہشت گردوں کے کتنے بڑے بڑے حملے ناکام بنائے‘ اور دہشت گردوں کی ایک بھی کارروائی ایسی نہیں‘ جو ایک دن سے زیادہ جاری رہ سکی ہو۔ بھارت مدت سے مقامی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کی دفاعی مشینری‘ دہشت گردوں کے حملوں کو 4 روز تک ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا محکمہ دفاع‘ اپنی کارکردگی پر نظرثانی کرے۔
پٹھان کوٹ کے حملے سے ایک بات ضرور واضح ہو گئی کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے مابین‘ عدم اعتماد کی فضا میں پہلی مرتبہ بہتری نظر آئی ہے‘ ورنہ روایت یہ رہی ہے کہ بھارت میں خواہ وہاں کے مقامی دہشت گردوں نے کارروائی کی ہو‘ الزام فوراً پاکستان پر لگ جاتا تھا۔ اس مرتبہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے مابین ‘براہ راست رابطوں اور مشیروں میں تبادلۂ خیال کے نتائج کافی بہتر رہے۔ اگرچہ یہ حملہ پاکستانی سرحدوں کے عین قریب ہوا تھا‘ بھارتی حکومت نے ‘خلاف معمول پاکستان پر الزام دھرنے سے ‘مقامی میڈیا کی اشتعال انگیزی کے باوجود گریز کیا؛ حالانکہ اس وقت وہاں انتہاپسند ہندو جماعت برسراقتدار ہے۔ ابھی تک پٹھان کوٹ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر‘ بھارتی حکومت نے باقاعدہ کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ اس احتیاط سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ چند روز کے دوران اچانک جو اعلیٰ سطحی رابطے قائم ہوئے ہیں‘ وہ بے اثر نہیں رہے اور بھارتی حکومت کے کسی وزیریا ترجمان نے روایتی انداز میں پاکستان پر الزام تراشی نہیں کی۔ دہشت گردی کے واقعات سے قطع نظر‘ مقبوضہ کشمیر کے حالات میں بھی قابل ذکر فرق ظاہر ہو رہا ہے۔ وہاں خلاف توقع ‘بی جے پی اور مفتی سعید کی مقامی پارٹی کی مخلوط حکومت ‘ابھی تک برقرار ہے۔ حالانکہ اندازے کئے جا رہے تھے کہ دو انتہائوں سے تعلق رکھنے والی یہ جماعتیں‘ جن میں ہندو اور مسلم کی واضح تقسیم بھی ہے‘ زیادہ عرصہ ایک ساتھ نہیں چل سکیں گی۔ ان میں باہمی اختلافات بھی سامنے آئے‘ لیکن دونوں فریقوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ سیاسی اتحاد قائم رکھا۔
مقبوضہ کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد‘ کشمیر پر بھارت کے قبضے اور پاکستان کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے‘ جو عموماً ہر جمعے کے دن ہوتے ہیں۔ ان میں پاکستان کے حق میں نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قومی پرچم بھی لہراتے ہیں اور ایک ناقابل ذکر گروہ تو عالمی دہشت گرد تنظیم ‘داعش کے پرچم بھی بلند کرتا ہے۔ ریاستی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تھوڑی بہت جھڑپیں ہوتی ہیں لیکن شام تک معمول کی صورتحال بحال ہو جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت میں‘ بی جے پی کی موجودگی کے باوجود‘ ان مظاہروں پر شدید حکومتی ردعمل کے بجائے‘ معمول کی انتظامی کارروائیوں کے بعد‘ حالات کے معمول پر آ جانے سے بھی بی جے پی کے محتاط طرزعمل کا اندازہ ہوتا ہے۔
ریاستی حکومت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں مظاہرین کی نعرے بازی پر ‘ مقامی حکومت کی طرف سے ‘پاکستان پر الزام تراشی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے بعض اراکین انفرادی طور پر تو الزام تراشی کر لیتے ہیں‘لیکن مخلوط حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس ریاستی حکومت کے سربراہ‘ مفتی سعید اور ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی‘ دونوں ہی اعتدال پسندانہ بیانات جاری کرتے ہیں اور کشمیری عوام کے حقوق کے بارے میں ان کا طرزعمل بھی انتہاپسند بھارتی سیاسی پارٹیوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر مقبوضہ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کے مطالبات اور مظاہروںپر شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا جاتا‘ تو اس میں بین السطورپڑھنے کے لئے‘ بہت سی گنجائشیں نکالی جا سکتی ہیں اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے‘ اب تک کے رویے سے ‘مستقبل کے اچھے امکانات میں جھانکا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی پالیسیوں کے پس منظر میں ‘بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ اقدامات کو دیکھیں‘ تومستقبل کے بارے میں اچھی امیدوں کی گنجائشیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ خصوصاً پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کے چار روزہ واقعات کے باوجود ‘ بی جے پی کی حکومت نے روایتی الزام تراشی سے جو گریز کیا ہے‘ اس پر بھی ہمارے پالیسی سازوں کو‘ بدلی ہوئی سوچ کے ساتھ غوروفکر کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بی جے پی کی موجودہ حکومت میں بھارت کی تمام قابل ذکر مسلم اور پاکستان دشمن طاقتیں شامل ہیں۔موجودہ حکومت کے ساتھ شیوسینا کا تعاون بھی جاری ہے اور مہاراشٹر میں مخلوط حکومت بنانے کے سوال پر باہمی رابطے بھی ہو رہے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ‘ جس کی بنیاد میں ہی مسلم دشمنی پائی جاتی ہے‘ بی جے پی کی موجودہ حکومت میں‘ اس کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ آر ایس ایس کی قیادت درپردہ‘ بی جے پی کی حکومت کو مختلف مواقع پر مشورے بھی دیتی ہے اور ان مشوروں کو توجہ سے سنا بھی جاتا ہے۔ اس کے باوجود آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں‘ باہمی مشاورت کے بارے میں کھل کر اظہار خیال نہیں کرتے۔ ان کے درمیان درپردہ جو باتیں بھی ہوتی ہوں ‘حکومتی پالیسیوں میں ان کے منفی اثرات بھی ظاہر نہیں ہوتے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے باہمی رابطوں کے بعد‘ بھارتی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی منفی بات سننے میں نہیں آئی۔ حال میں وزیراعظم نوازشریف کے دورہ ٔسری لنکا کے دوران جے ایف-17تھنڈرکی خریداری کے سوال پر ‘بھارت کی جانب سے اعتراض ضرور کیا گیا‘ لیکن یہ بھارت اور سری لنکا کا باہمی معاملہ ہے۔ یہ دونوں بھی پڑوسی ہیں اور ان کے باہمی تعلقات کی نوعیت اور تاریخ مختلف ہے۔ جے ایف-17تھنڈرکی خریداری‘ سری لنکا اور بھارت کا معاملہ ہے‘ہم اس میں فریق نہیں۔ سری لنکا نے بطورخریدار ‘ہم سے کسی چیز کی خریداری پر بات چیت کی۔ اگر بھارت کو اس پر اعتراض ہے‘ تو یہ اُن دونوں کا باہمی معاملہ ہے۔ ہم نے تو اپنا یہ طیارہ کھلی مارکیٹ میں برائے فروخت رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی خریدار آئے‘ ہم اسے غیرمشروط طور پر فروخت کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے حوالے سے‘ ہم بھارتی اور پاکستانی میڈیا کی پالیسیوں پر تبصرہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔پٹھان کوٹ کے واقعات پر‘ بھارتی میڈیا نے روایت کے عین مطابق‘ انتہائی پاکستان مخالف رویہ اختیار کیا ہے ‘جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بدلتی نوعیت پر‘ بھارتی میڈیا نے ابھی توجہ نہیں دی یا وہ نئے حقائق کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ مگر میں پاکستانی میڈیا کی ضرور تعریف کروں گا کہ اس نے حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نہ صرف محسوس کر لیا ہے بلکہ اس کی روایتی پالیسی میں بھی نمایاں فرق ظاہر ہونے لگا ہے۔ یکسر تبدیلی تو ظاہر ہے ‘اچانک نہیں آ سکتی‘لیکن پاکستانی میڈیا میں جتنی تبدیلی ظاہر ہو رہی ہے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا میڈیا سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کے معاملے میں ذمہ داری کا ثبوت دے رہا ہے۔ پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کے تیسرے دن‘ کشمیر جہاد کونسل نے ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے‘ مگر پاکستان میں اس تنظیم کا وجود‘ عوامی سطح پر نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستانی میڈیا میں اس کا تذکرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ان گنت گروپ پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی واقعہ کے کئی کئی دعویدار سامنے آ جاتے ہیں۔ ایسے دعووں کا پاکستان کی حکومت اور عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ ممکن ہے بھارتی میڈیا اس دعوے کو بہانہ بنا کر الزام تراشی کی دیرینہ عادت کا مظاہرہ کر دے‘لیکن ہمیں اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔چند برس پہلے تک‘ بھارتی انتہاپسندوں میں پاکستان کے وجود کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ آج زمینی حقائق نے یہ فرسودہ تصور ختم کر دیا ہے۔دونوں ملکوں کی ایٹمی صلاحیتوں نے ایک دوسرے کو ختم کرنے کی بے بنیاد سوچوں کو ترک کر دیا ہے۔ اب برصغیر کو بقائے باہمی کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے انتہاپسند نئے حقائق کوآخر کار تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔