"NNC" (space) message & send to 7575

کون نہیں چاہے گا؟

چند روز سے‘ پیپلزپارٹی نے اس تصور کے تحت‘ خوف میں بیان بازی شروع کر رکھی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ‘اپنی مدت ملازمت میں‘ جنرل کیانی کی طرح توسیع لیں گے۔ میں دوسری مثالوں تک نہیں جائوں گا۔ جنرل کیانی کی مثال اس لئے بے ضرر ہے کہ انہوں نے توسیع لینے کے بعد ‘کسی سیاسی پارٹی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ البتہ پاکستان کو خاصا نقصان پہنچا گئے۔ خصوصاً دہشت گردوں کوپنپنے کا خوب موقع دیا۔ اس کے نتیجے میں پاک فوج کو طویل جنگ لڑنا پڑی۔ 6ہزار کے قریب افسروں اور جوانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں وحشیانہ حملہ کر کے ‘ 141افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان میں 132 معصوم طالب علم تھے۔ اس کے علاوہ 50ہزار کے قریب پاکستانی شہری جانوں سے گئے۔ اگر بروقت کارروائی شروع کر دی جاتی‘ تو اتنے بڑے قومی نقصان سے بڑی حد تک محفوظ رہا جا سکتا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے‘ چارج لینے کے تھوڑے ہی دنوں بعد‘آپریشن ضرب عضب کی تیاری کر کے‘ دہشت گردوں کے سب سے بڑے اڈے ‘شمالی وزیرستان کے وسیع و عریض علاقے میں مجاہدانہ آپریشن شروع کر دیا۔ اس وقت حکومت پاکستان‘ دہشت گردوں سے مذاکرات میں مصروف تھی۔ یہ عجیب طرز کے مذاکرات تھے‘ جن میں حکومت پاکستان تو اپنے باضابطہ نمائندے بھیج رہی تھی‘ جبکہ طالبان اپنی کسی تنظیم کے لیڈر کو مذاکرات کے لئے نہیں بھیج رہے تھے‘ بلکہ وہی لوگ جن کے رابطے طالبان اور حکومت دونوں کے ساتھ تھے‘ طالبان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ طالبان مذاکرات میں امن کے لئے شریک نہیں تھے بلکہ وہ ان کی آڑ میں زیادہ بڑے حملوں کی تیاریاں کر رہے تھے۔ فوج نے اس صورتحال کا اندازہ کر لیا اور قبل اس کے کہ طالبان بڑے حملوں کی ابتداء کرتے‘ فوج نے اچانک شمالی وزیرستان میں ان کے اڈے پر حملہ کر دیا۔ قبل اس کے کہ وہ سنبھلتے‘ فوج نے انہیں بھاری نقصانات پہنچائے اور پھر یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا‘ جب تک ان کے تمام اڈے‘ تباہ و برباد کر کے‘ پورا علاقہ صاف نہ کر دیاگیا۔ 
ضرب عضب کا اگلا مرحلہ پاکستانی شہروں کو دہشت گردوں سے محفوظ کرنا تھا۔ ان میں کراچی کا شہر بری طرح سے بدامنی‘ غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ فوج نے کراچی میں رینجرز کو بھیج کر‘ اس شہر کے تباہ شدہ امن کو بحال کرنا شروع کیا۔ اس شہر کے امراض لاتعداد تھے۔ ٹارگٹ کلنگ عام تھی۔ اغوا برائے تاوان کا بازار گرم تھا۔ یہ اغوا عموماً دہشت گرد کیا کرتے۔ اغوا ہونے والوں کو‘شمالی وزیرستان پہنچا دیا جاتا اور بھاری سرمایہ وصول کر کے انہیں رہائی ملتی۔ سرمایہ اکٹھا کرنے کا دوسرا ذریعہ بھتہ خوری تھی۔ اس کے علاوہ بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ دہشت گردی کے لئے سرمایہ وافر مقدار میں کراچی سے مہیا ہوا کرتا تھا۔ پاک فوج نے تھوڑے ہی عرصے میں کراچی کے برسوں پرانے امراض کا خاتمہ کر کے‘ اس شہر کے70فیصد علاقوں کو دہشت گردی اور غنڈہ گردی سے نجات دلا دی۔ ملک کے باقی علاقوں میں بھی دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا‘ لیکن ضرب عضب کے آپریشن کی کراچی تک توسیع کا زیادہ نقصان پاکستان پیپلزپارٹی کو پہنچا۔ وہاں پارٹی کی صوبائی حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اس کے بیشترمشیر‘ وزیر اور پارٹی عہدیدار دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے۔ کرپشن انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ شہر کی بہتری اور ترقی کے لئے جتنی بھی رقوم رکھی جاتیں‘ وہ سب کی سب حکومت کے ذمہ دار افراد ہضم کر جاتے۔ ظاہر ہے‘ رینجرز کے آپریشن کا سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کے بعض لٹیروں کو پہنچا‘ جو دونوں ہاتھوں سے ناجائز دولت سمیٹ رہے تھے۔ اس سلسلے میں ان گنت کہانیاں کراچی‘ سندھ اور پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں‘ جن میں کسی لیڈر کے گھر سے بھاری مقدار میں سونے کی برآمدگی ہے اور کہیں سے نوٹوں کے ڈھیر برآمد ہو رہے تھے اور یہ بھاری رقوم ناجائز طریقوں سے دبئی بھیجی جا رہی تھیں۔ جب تک فوج نے لوٹ مار کے نظام میں‘ کلیدی حیثیت رکھنے والوں کو نہیں چھیڑا‘ پیپلزپارٹی خاموش رہی‘ مگر جیسے ہی ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ ڈالا گیا‘ تو ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے پورا زور لگانا شروع کر دیا کہ کسی طرح ڈاکٹر عاصم کو فوج کی گرفت سے نکال لیا جائے۔ ابتدا میں اس مقصد کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے گئے اور رینجرز نے بھی شریفانہ طریقوں سے کرپشن کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی‘ لیکن ڈاکٹر عاصم کے ہاتھ بڑے لمبے تھے۔ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آرام و آسائش مہیا کیا جا رہا تھا۔ رینجرز نے ہر قسم کے دبائو کا سامنا کرتے ہوئے‘ لوٹ کا مال تلاش کرنے کی مہم جاری رکھی۔ جب پیپلزپارٹی کے بعض لوگوں نے دیکھ لیا کہ ڈاکٹر عاصم‘ اب سارے راز اگلنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ تو خصوصاً ان کی طبی رپورٹ تیار کرائی گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب نیم پاگل پن کی حالت میں ہیں۔ ان کے اعصاب کمزور ہو چکے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت‘ کیا کہہ رہے ہیں؟ اب اسی بنیاد پر انہیں طبی وجوہ سے رہا کرانے یا ہسپتال پہنچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ 
پیپلزپارٹی نے سب سے بڑا حملہ ‘براہ راست چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف کی ذات پر شروع کر دیا اور براہ راست مطالبہ کیا کہ جنرل صاحب بروقت ریٹائرمنٹ لے کر گھر چلے جائیں۔ انہیں اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کرنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کے مزاج‘ ریکارڈ اور کردار کو دیکھتے ہوئے‘ ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ اقتدار کی ہوس نہیں رکھتے۔ اگر ان میں ایسی کوئی خواہش ہوتی‘ تو فوجی سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد‘ انہیں موقع مل گیا تھا۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد کا گھیرائو کر رکھا تھا۔ حکومت بے دست و پا ہو چکی تھی۔ وزیراعظم اپنے نزدیکی لوگوں میں‘ اس خیال کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ اقتدار سے دستبرداری کا سوچ رہے ہیں اور ایک وقت پر انہوں نے سارے معاملات‘ جنرل راحیل شریف کے سپرد کر دیئے تھے اور انہیں اختیار دے دیا تھا کہ وہ جس طرح کا سمجھوتہ بھی چاہیں‘ ان کے اور اپوزیشن کے درمیان کرا دیں۔ جب جنرل صاحب نے دھرنے کے لیڈروں سے بات چیت کی‘ تو انہوں نے وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کر لیا۔ جنرل راحیل شریف کا فیصلہ کن جواب یہ تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے سوا‘ آپ جو مطالبہ بھی کریں گے‘ میں اسے منوانے کی کوشش کروں گا۔ جو جنرل‘ طالع آزما ہوتے ہیں‘ ان کے ہاتھ جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے‘ تو وہ برسراقتدار حکمران کو آسانی سے ہٹا کر‘ خود اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور جب حکمران خود ہی راستہ چھوڑنے کو تیار ہو‘ تو پھر مشکل کیا رہ جاتی ہے؟ جنرل راحیل شریف کے ذہن میں کوئی لالچ ہوتا‘ تو وہ آسانی سے موقع کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس وقت کوئی سیاسی پارٹی اور کوئی پارلیمانی گروپ ‘ وزیراعظم کی مدد کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن جب یہ خبر ان تک پہنچی کہ راحیل شریف نے وزیراعظم کو ہٹانے سے انکار کر دیا ہے‘ تو وہ سب کے سب راتوں رات شیر بن گئے۔ وزیراعظم کی حمایت میں سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے آئین کو لہرا لہرا کر‘ ایسی پرجوش تقریر کی کہ خود ن لیگ والوں میں سے بھی‘ کسی کو ایسی تقریر کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
دہشت گردوں کے خلاف منظم اور بامقصد مہم کے دوران‘ فوج کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ دہشت گردوں کی اصل طاقت وہ سرمایہ ہے‘ جو انہیں مختلف ذرائع سے فراہم ہوتا ہے اور اس سرمائے میں براہ راست لوٹ مار کے علاوہ ‘ کرپشن کا پیسہ بھی شامل ہوتا ہے۔ فوج نے‘ دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کا رخ کرپشن کی طرف بھی موڑ دیا۔ بعض لوگوں کے خیال میں کرپشن کے مرکزی خزانے کی کنجی‘ ڈاکٹر عاصم کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے جیسے ڈاکٹر عاصم پر رینجرز کی گرفت مضبوط ہوتی گئی‘ کرپشن کرنے والوں کی طرف سے آہ و بکا کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور اچانک فیصلہ ہوا کہ جنرل راحیل شریف پر براہ راست حملے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس کا فائدہ بالواسطہ وزیراعظم کو بھی پہنچنا تھا‘ کیونکہ حملہ آوروں کے خیال میں‘ وہ جنرل راحیل شریف کی بروقت ریٹائرمنٹ کا مطالبہ کر کے‘ درپردہ انہی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ جنرل راحیل شریف دبائو ڈال کے‘ انہیںبروقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیں گے۔ عام لوگوں کا خیال یہی ہے کہ جنرل راحیل شریف ‘ اقتدار کے بھوکے نہیں۔ ان کے دل میں ایسی خواہش ہوتی‘ تو وہ دھرنے کے دنوں میں ہی اسے پورا کر سکتے تھے‘ لیکن کرپشن کے خلاف فوج کی مہم سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے‘ جنرل راحیل شریف کو ہدف بنا کر‘ اچانک اور بلاوجہ ایسی مہم چلا دی ہے ‘ جس کا موقع محل ہی موجود نہیں۔ البتہ جنرل راحیل کو عوام اور فوج میں ‘جو پرجوش مقبولیت حاصل ہے‘ کہیں وہی کرپشن والوں کے راستے کا پتھر نہ بن جائے؟ کون نہیںچاہے گا کہ لوٹ مار کا موجودہ نظام ختم ہو؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں