"NNC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں سب بے قصور ہیں

جس اقتصادی راہداری پر ہمارے سیاست دان حسب عادت اور بصد شوق جھگڑا کر رہے ہیں‘ اگر کبھی وہ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کا اصل نقشہ نکال کر دیکھ لیں‘ تو انہیں دو چیزوں کا اندازہ ہو گا۔ ایک یہ کہ اصل نقشے میں پاکستان کہیں نظر نہیں آتا اور دوسرا یہ کہ اگر ہم نے آپس میں لڑتے جھگڑتے‘ چین والوں کے اصل منصوبے پر نظر ڈالی ہو تو اس میں بھی پاکستان نہیں آتا۔ اصل نقشے میں سڑک کا حصہ وینس(اٹلی) سے شروع ہوتا ہے اور ماسکو‘ استنبول‘ تہران‘ثمرقند‘ دوشنبے‘ الماتی‘ارومچی... اس کے بعد چین شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ہے سڑک کا راستہ۔ دوسری طرف استنبول ماسکو سے ہوتی ہوئی یہ سڑک یونان میں داخل ہوتی ہے اور وینس سے میری ٹائم سلک روڈ شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے سڑک کا آبی راستہ۔ یہ وینس سے شروع ہوتا ہے۔ ایتھنز‘ نیروبی سے ہوتا ہوا کولمبو جاتا ہے اور وہاں سے کولکتہ۔ دوسری جانب کوالالمپور سے گزرتا ہوا جکارتہ اور وہاں سے باقی ماندہ انڈونیشیا کو نکل جاتا ہے۔مغرب کی طرف اس کا آخری سرا یونان سے یورپ کی طرف نکل جاتا ہے اور وہاں پر بڑی سڑکوں سے جا ملتا ہے۔اس طویل ترین راستے میں نہ کہیں قومی رشتے یا تعصبات کا دخل ہے اور نہ سیاسی حمایت یا مخالفت کا۔یہ طویل مدتی منصوبہ ہے اور جیسا کہ سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ طویل منصوبے تیار کرتے وقت‘ قوموں کے باہمی تعلقات کے مخصوص وقت پر انحصار نہیں کیا جاتا۔ آج بھارت اور چین کے تعلقات اچھے نہیں‘ لیکن آنے والے کسی بھی دور میں کولکتہ‘ میری ٹائم سلک روڈ کا حصہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم پاکستانیوں نے اپنے ملک سے گزرنے والی سلک روڈ پر فساد جاری رکھا تو چین کے اصل نقشے کے مطابق سلک روڈ ایران سے گزرتی ہوئی استنبول اور ماسکو کی طرف نکل جائے گی اور دوسری جانب ثمرقند سے ہوتی ہوئی‘ ارومچی جا پہنچے گی جو چین میں واقع ہے۔
چین عہدِ حاضر کی ایک متحرک طاقت ہے جس کی نہ تو پالیسیاں جامد ہیں اور نہ سیاسی اور تجارتی تعلقات۔چین وقت کے ساتھ اپنی پالیسیاں ڈھالتا رہتا ہے۔اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ آج سے دو عشرے پہلے کی طرف دیکھیں تو چین اورفارموسا ‘ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔ اتنے کہ ان کے اسلحہ کے ذخیرے‘ ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا امکان سامنے رکھتے ہوئے جمع کئے جاتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں کے مابین نہ صرف باضابطہ رابطے قائم ہو چکے ہیں بلکہ باہمی تجارت بھی شروع ہو چکی ہے اور چین نے مستقبل کے حالات میں بھی مزید تعاون یا مزید تصادم ‘دونوں کی گنجائشیں چھوڑ رکھی ہیں۔ چین کی پختہ کار قیادت‘ اپنے مسائل کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کا راستہ ترک کر چکی ہے۔ ساری دنیا کو دیکھنا چاہئے کہ چین ‘پڑوسیوں کے ساتھ اپنے پیچیدہ ترین مسائل کو بھی جنگ کے بغیر‘ حل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔یہی صورت حال بھارت کے ساتھ ہے۔ارونا پردیش کے سوال پر چین اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی ہے۔ اس محاذ پر دونوں جنگ بھی لڑچکے ہیں اور سرحدی جھڑپیں تو روزمرہ کا معمول ہیں۔ لیکن چین اور بھارت دونوں نے‘ آنے والے دور کے لئے دوسری گنجائشیں بھی چھوڑ رکھی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقائی جھگڑا‘ جسے وہ ابھی تک جنگ سے طے نہیں کر پائے‘ وہ کسی وقت امن کے حالات میں طے کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین نے میری ٹائم سلک روڈ‘ کولکتہ سے منسلک کرنے کی گنجائش بھی چھوڑ رکھی ہے اوربحر الکاہل کی طرف بھی سڑکوں کے راستے بنا رکھے ہیں۔ہمارے سیاسی رہنما اور فوجی ماہرین‘ اس نکتے پر بھی غور نہیں فرما رہے اور نہ میں نے ‘ نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس میں‘ اس سوال پر کسی کو بات کرتے سنا ہے کہ میری ٹائم سلک روڈ پر ماسکو بھی آتا ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ چین نے اس بری اور بحری سڑک کا راستہ اختیار کرتے وقت‘ نہ تو ماسکو کی پالیسیوں کو دیکھا نہ ترکی‘نہ یونان‘ نہ بھارت اور نہ برما کا خیال رکھا۔ بطور ایک عالمی طاقت‘ اس نے دنیا کے نقشے پر نظر رکھی اور مستقبل میں اپنی پالیسیوں میں مضمر امکانات کو دیکھتے ہوئے راستہ بناتے چلے گئے۔ جتنا راستہ تعمیر کرنا ممکن ہو گا‘ کرتے جائیںگے۔ جتنا بحری راستہ استعمال میں لایا جائے گا‘ اس کی تنصیبات بناتے جائیں گے اور جہاں پر مشکل آئے گی‘ اسے آئندہ پیدا ہونے والے امکانات کے لئے محفوظ رکھتے جائیں گے۔اس ہزاروں میل لمبی بری اور بحری سڑک پر‘ ہمارے حصے میں صرف2500کلو میٹر کی سڑک آتی ہے۔ ہزاروں کلو میٹر کے طویل حصے میں‘ جسے آدھی سے زیادہ دنیا کی بیلٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بیلٹ میں ہماری حصے داری‘ صرف اڑھائی ہزار کلو میٹر کے قریب ہے۔ پاکستان کے اندر اس وقت سیاست دانوں کے مابین جو بحث چل رہی ہے‘ وہ صرف پاکستانی حصے تک محدود ہے۔ ہمارے جو سیاست دان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے‘ نظر آرہے ہیں‘ ان کے تصور میں صرف پاکستان کے اندر واقع‘ اڑھائی ہزار کلو میٹر کی سڑک آتی ہے لیکن اگر ہم نے اسی حصے پر جھگڑا جاری رکھا تو ہم میری ٹائم سلک روڈ پر‘ صرف زمینی سڑک تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ اس پوری بیلٹ سے منسلک ہونے کے جو فوائد ہمیں حاصل ہو سکتے ہیں‘ ان پرہمارے لیڈروں کی شاید نظر نہیں ہے۔
ان سے شکایت بھی کیا کی جائے؟ حکومتیں بنانے اور توڑنے والے ‘یہی سیاست دان تھے۔ جنہوں نے ہمارے ملک کو دولخت کر کے‘ اس پر امکانی خوش حالی کے دروازے بند کر دیے۔ بات صرف اتنی تھی کہ مغربی پاکستان میں اقتدار پر قابض ہونے والے‘ انگریز کے پٹھوتھے اور مشرقی پاکستان کی قیادت‘ قومی لیڈروں کے پاس تھی۔ جن کی اکثریت نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ حسین شہید سہروردی‘ تحریک آزادی کے دوران‘ پورے بنگال کے وزیراعلیٰ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد‘ اگر مغربی پاکستان میں ‘اقتدار پر قابض ہونے والے سہروردی‘ جیسے مقبول عوامی لیڈر کو مشرقی پاکستان کی قیادت سونپ دیتے ‘تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کے فوائد کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خود پاکستان کا قیام اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وقت اور جغرافیہ‘ ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ہم نے برصغیر کا جغرافیہ بدل کر‘ جو پاکستان حاصل کیا اس کا ایک حصہ مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں۔ اسی میں ہماری طاقت تھی اور اسی میں کمزوری۔ ہماری سیاسی قیادت میں اہلیت ہوتی تو ہم اس جغرافیائی پوزیشن سے طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ ہم ایسا نہیں کر سکے۔ اور ہماری یہی جغرافیائی پوزیشن‘ ہماری کمزوری بن گئی۔اقتدار کے جھگڑے نے مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت کی طاقت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ مسلسل انہیں حق اقتدار سے محروم رکھتے ہوئے‘ تصادم کی راہ پر دھکیل دیا۔ اس تصادم کا نتیجہ 1971ء میں سامنے آگیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام گولیاں کھا کر اور بھارتی فوج کے قبضے میں آنے کے بعد‘اپنے آپ کو آزاد سمجھ بیٹھے اور آج وہ بھارت کی جس بالادستی کے شکنجے میں ہیں‘ اس سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہوتے لیکن میں انہیں قصور وار نہیں ٹھہرائوں گا۔ بطور اکثریت ان کا حق تھا کہ پاکستان میں اقتدار ان کی قیادت کے حوالے کر دیا جاتا۔ مشرقی پاکستان کی قیادت قوم پرست بھی تھی اور وہ متحدہ ہندوستان میں کامیاب سیاست کا تجربہ بھی کر چکی تھی۔ وہاں کے لیڈر‘ بھارتی قیادت کے ساتھ نپٹنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ان کی اکثریت نے کانگرس کے ساتھ کام بھی کر رکھا تھا جبکہ مغربی پاکستان کی وہ قیادت ‘جو بد قسمتی سے ہماری ریاستی طاقت پر قابض ہو گئی تھی‘ اس نے مشرقی پاکستان کے عوام کو جمہوری حق سے محروم رکھا۔ اگر اقتدار حسین شہید سہروردی یا فضل الحق کے پاس آجاتا تو یہ ‘بھارت کے ساتھ‘ باہمی جھگڑوں کو سیاست اور مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتے تھے۔ ہم نے وہ موقع بھی گنوایا‘ تجربہ کار سیاست دان بھی گنوائے اور مشرقی پاکستان بھی گنوا دیا۔ آج بھی پاکستان میں ایسے دانشور وںکی کثرت ہے ‘جو مشرقی پاکستان کی شکست کا سبب‘ مشرقی پاکستان کے عوام کے اندر تلاش کرتے ہیں۔
آج میری ٹائم سلک روڈ پر پھڈا ڈال کر‘ہم پھر ایک بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں بند ہیں اور ٹانگوں میں دم نہیں۔ ہمیں چین کی دوستی نظر آرہی ہے مگر اس کے اور اپنے مفادات کی حدود دکھائی نہیں دے رہیں۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے میں‘ تعمیر و ترقی کے جو امکانات کے پی کے اور بلوچستان کو دکھائی دے رہے ہیں‘ اسلام آباد اس کی راہ میں حائل ہو رہا ہے۔ آپ نقشہ اٹھا کر دیکھ لیں تو اقتصادی راہداری‘ گوادر سے نکل کر‘ بلوچستان اور کے پی کے میں سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں صوبوں کی سیاسی قیادت بھی اسی پر یقین رکھتی ہے لیکن اسلام آباد کا حکمران طبقہ انہیں یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ اسلام آباد کے ساتھ 70سالہ شراکت کے نتیجے میں‘ ان دونوں صوبوں کو جو کچھ ملا‘ وہاں کے عوام کے لئے‘ تلخ یادوں کے سوا کچھ نہیں لیکن دوسری طرف اگر چین نے اپنے اس عالمگیر بری اور بحری راستے کو‘ اپنے مفادات کی نظر سے دیکھااور دونوں صوبوں کے عوام نے بھی اپنے مفادات کو چین سے ہم آہنگ پایا‘ تو اسلام آباد کی قیادت کو جس مشرقی پاکستان کے بحران کی سمجھ نہیں آئی تھی‘ اسے کے پی کے اور بلوچستان کی بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ اقتصادی راہداری پر آپس کے جھگڑے ہمیں کہاں پہنچائیں گے؟ آج کوئی اس کا اندازہ نہیں کر پارہا۔سچ یہ ہے کہ بعد میں بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو گی۔ کوئی اپنا قصور نہیں مانے گا۔ پاکستان میں سب بے قصور ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں