بلاول بھٹو زرداری‘ جن کا نام ہی سیاسی ضروریات کے تحت رکھا گیا‘ ہماری روایات کے مطابق بیٹے بیٹی کا نام‘ والد کی نسبت سے ہوتا ہے۔ اس بیچارے نوجوان کو سیاسی ضرورت کے تحت کم سنی میں ہی نام بدلنا پڑا۔ بدلنا کیا؟ خود ان کے والد محترم نے مسلط کر دیا۔ اب یہ ننھیال کی طرف سے بھٹو ہیں اور باپ دادا کی طرف سے زرداری۔ یہ مجبوری کیا ہے؟ مجبوری صرف یہ ہے کہ اگر انہیں سیاسی وراثت دی جائے‘ تو نانا اور والدہ محترمہ کی نسبت سے ہے ۔ اگر باپ دادا سے منسوب کیا جائے‘ تو وہ زرداری ہیں‘ جن کا اپنا کوئی سیاسی جغرافیہ ہی نہیں اور دادا صاحب اے این پی کے ''وغیرہ وغیرہ‘‘ میں تھے۔ غلام مصطفی جتوئی کے مصاحبین میں ہونے کی بنا پر‘ 70ء میں پیپلزپارٹی کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی موروثی سیاست میں باپ دادا کا نام ہی چلتا ہے۔ لیکن چیئرمین بلاول کے سیاسی ورثے میں نہ باپ کی کوئی حیثیت ہے اور نہ دادا کی۔ چنانچہ والدہ محترمہ اور نانا پر‘ گزار کیا جا رہا ہے۔ بھٹو صاحب اور شہید بی بی کے جاں نثار‘ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ایک سادہ لوح سیاسی ورکر یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ باپ کے حوالے سے سیاسی پہچان بنائے‘ تو کیا بنائے؟ اور نانا اور والدہ محترمہ کا نام استعمال کرے‘ تو کیسے کرے؟ پیپلزپارٹی والے ان دنوں اسی مخمصے میں ہیں کہ عوام کے پاس جاتے ہیں ‘ تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ آصف زرداری کے بیٹے کو سیاسی اثاثہ کیسے بنائیں؟ بی بی شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت ‘ مرتضیٰ بھٹو اور ان کے بچوں کی طرف جاتی ہے۔ سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے۔ اس میں اول تو سیاسی وراثت ہوتی ہی نہیں۔ یہ لیڈر کی اپنی لیاقت اور صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ بھارت میں پنڈت نہرو کی وراثت‘ اندراگاندھی پر تو واجب تھی۔ لیکن آگے اندراگاندھی کی اولاد کو‘ پنڈت نہرو کا سیاسی ورثہ نہیں مل سکا۔ جس کا ثبوت بھارت کے حالیہ انتخابات ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک معمولی سیاسی کارکن‘ ملک کا وزیراعظم بن گیا۔
میرا دل چاہا کہ بلاول کے لئے‘ آصف زرداری کی چنی ہوئی سیاسی ٹیم کا موازنہ‘ بھٹو صاحب کی ٹیم سے کروں‘ تو معلوم ہوا کہ بھٹو کی شخصیت اور تاریخی حیثیت سے فائدہ اٹھانے والے‘ اس پارٹی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ جس کا نام لے کروہ پیپلزپارٹی والوں کے ووٹ‘ اپنے کاسے میں ڈلوا سکیں۔ یہ 2016ء کا زمانہ ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر بھٹوصاحب کی پہلی کابینہ اور ان کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کے نام دیکھنا چاہا‘ تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جدیدمغربی تعلیم کے سائے میں پروان چڑھے ہوئے لیڈر‘ بلاول یا ان کی والدہ اور نانا کے ادوار میں پارٹی کی تاریخ یا اس کے اداروں کے اراکین کی فہرست کچھ بھی موجود نہیں ۔ میں نے اپنے ادارے کے ریسرچ سیل کی مدد سے بھٹو صاحب کی پہلی کابینہ کی فہرست تلاش کی‘ تو پتہ چلا کہ بھٹو صاحب کی پہلی کابینہ میں وہ خود‘ جے اے رحیم‘ ان کے مسلم لیگی اتحادی خان عبدالقیوم خان‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ حیات محمد خان شیرپائو‘ شیخ محمد رشید‘ خورشیدحسن میر(وزیربے محکمہ)‘ غلام مصطفی خاں جتوئی‘ عبدالحفیظ پیرزادہ‘ مولانا کوثر نیازی‘ سردار غوث بخش رئیسانی‘ راجہ تری دیو رائے(یہ اپنے قبیلے کے سربراہ اور ریاست کے راجہ تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان میں آ گئے۔ بھٹو صاحب کے گہرے دوست تھے۔) دیگر وزرا میں میاں محمود علی قصوری اور عزیزاحمدشامل تھے۔ اس دور کے لیڈروں ‘خصوصاً ڈاکٹر مبشرحسن کے پاس پارٹی کا باقاعدہ لٹریچر تھا۔ بھٹو صاحب خود احکامات دے کر مختلف موضوعات پر پمفلٹ چھپوایا کرتے۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی ہر میٹنگ کے ریکارڈ پر مشتمل ایک کتابچہ شائع ہوا کرتا۔ حنیف رامے‘ وزارت میں آنے سے پہلے تک‘ ہفت روزہ ''نصرت‘‘ میں پارٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹ شائع کیا کرتے۔ واضح رہے‘ اس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا۔ سب کچھ طبع ہوا کرتا(ہوتا اب بھی ہے لیکن طبع کی بجائے ''تباہ ‘‘پڑھ لیں)۔
جس طرح پیپلزپارٹی کے باپ بیٹے‘ عوام میں جاتے ہیں‘ تو ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر‘ پنجابی شیروں کی جوڑی یاد آ جاتی ہے۔ یہ دونوں تو اپنے منصب کے حوالے سے پروٹوکول کے نام پر اپنا جلوس نکلواتے ہیں۔ لیکن باپ بیٹا بظاہرحفاظتی ضروریات کے تحت ‘ اپنا جلوس ہائیر کرتے ہیں۔ ان خدا کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ وہ ڈرتے کس سے ہیں؟ بھٹو صاحب تاریخ ساز انسان تھے۔ ان سے ملکی اور عالمی طاقتوں کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا اور یہ انہی کا دم خم تھا کہ کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر بھی عدلیہ‘ فوج‘ بیوروکریسی اور تمام مخالف سیاسی طاقتوں کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ جب انہیں پھانسی دی گئی‘ تو برصغیر ہی نہیں‘ پوری دنیا میں سوگ منایا گیا۔ میں نے بھٹو صاحب کے ساتھ بہت سے انتخابی دورے کر رکھے ہیں۔ و ہ اپنی اور چند دوستوں کی کاروں میں بیٹھ کر‘ نکل کھڑے ہوتے اور کچے پکے راستوں پر چلتے ہوئے‘ شہروں اور دیہات میں عوام کے درمیان جا پہنچتے۔ ان کے ساتھ کوئی اسلحہ بردار نہیںہوتا تھا۔ ایک بار سندھ کا دورہ کرتے ہوئے‘ انہیں پیرپگاڑا مرحوم کی دھمکی ملی‘ تو اس کے باوجود انہوں نے اسلحہ کا انتظام نہیں کیا۔ نہتے ساتھیوں کے ہمراہ ‘خود بھی نہتے ‘جلوس نکالتے۔ ان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک بارملتان میں‘ قادرپورراں نامی گائوں سے گولیوں کی بوچھاڑوں میں گزرتے ہوئے زندہ بچے اور دوسری بار سانگھڑ کے بازار میں‘ ان کے جلوس پر گولیاں برسیں۔ اردگرد کے ساتھیوں نے انہیں زمین پر گرایا اور اپنے جسموں کو ڈھالیں بنا کر‘ ان کے اوپر لیٹ گئے۔ دونوں واقعات کے بعد بھی‘ بھٹو صاحب نے اپنی مسلح حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ موجودہ باپ بیٹا‘ جوبھٹو صاحب کی جانشینی کے دعویدار ہیں (حالانکہ سیاسی ورثہ جہیز میں نہیں ملتا)زبردست قسم کے حفاظتی انتظامات میں ‘ عوامی رابطوں کی مہم پر نکلتے ہیں۔ نام اس بھٹو کا استعمال کرتے ہیں‘ جسے نواب آف کالاباغ ملیا میٹ کرنے پر تلے تھے اور وہ اپنے عوام کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے‘ شہرشہر‘ گائوں گائوں‘ چند نہتے ساتھیوں کے ہمراہ‘ اپنے عوام کے درمیان رواں دواں رہتے۔ ایک بار ملتان میں قاسم باغ کے جلسے میں بھی بھٹو صاحب پر حملے کا پروگرام تھا‘ جسے مصطفی کھر نے ناکام بنایا۔ ایسے واقعات میں مصطفی کھر نے‘ اتنی مرتبہ مخالفین کا سامنا کیا کہ شاید خود کھر صاحب کو بھی یاد نہ ہو۔ یہاں برسبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ متحدہ بنگال کے سابق وزیراعلیٰ ‘ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت میں مغربی پاکستان آتے‘ تو اکیلے ہی گلیوں اور سڑکوں پر نکل جاتے۔ ایک بار میں نے انہیں لائل پور میںتانگے پر بیٹھے‘ اپنے ہی جلسے کا اعلان کرتے ہوئے سنا تھا۔ نوازشریف کا بھٹو صاحب سے موازنہ تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ دونوں بھائی ملک کے وزیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں بھی حفاظتی بند توڑ کر‘ عوام کے اندر گھس جاتے ہیں۔ چند روز پہلے لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر122 کے ضمنی الیکشن کے لئے نوازشریف ‘ اپنے گارڈز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے‘ ہجوم کے اندر گھس گئے اور اپنا ووٹ ڈال کے‘ عام آدمیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھے۔ حالانکہ ان دونوں بھائیوں پر بھی کئی بار قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ایک حملے میں تو میں خود بھی ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تھا۔ نوازشریف نے گاڑی پیچھے موڑنے کے بجائے‘ سیدھی آگے چلوا دی اور گولیوں کی بوچھاڑوں میں سے گزرتے ہوئے‘ لکشمی چوک کی طرف جا نکلے۔ یہاں کسی بھی طور بھٹو اور نوازشریف کا موازنہ مطلوب نہیں۔ وہ اور سطح کے لیڈر تھے‘ یہ اور درجے کے لیڈر ہیں۔
مجھے تو بلاول بھٹو زرداری کی حالت زارپر تعجب ہوتا ہے‘ جس کی سیاسی وراثت پر وہ سیاست کر رہا ہے‘ اس کی نسل میں سے نہیں ہے اور جس کی نسل میں سے ہے‘ اس کے پاس سیاسی وراثت ہی نہیں۔ اکیلے بچے کو ‘ گھاگ سیاسی پہلوانوں کے اکھاڑے میں دھکیل دیا جاتا ہے اور معصومیت ملاحظہ ہو کہ پیپلزپارٹی کو عوامی طاقت میں بدلنے کے لئے‘ منظوروٹو کو سرگرم ہونے کی ہدایت دیتا ہے۔ تقریر پڑھ کے کرتا ہے اورنظریں عوام پر نہیں‘ کاغذ پر ہوتی ہیں۔پیپلزپارٹی میں بے شمار مخلص اور جاں نثار کارکن موجود ہیں۔ لیکن جس گاڑی کا انجن آصف زرداری ہو اور اس کے اندر بیٹھ کے بلاول رابطہ عوام کی مہم چلا رہا ہو‘ یہ بھٹو اور بی بی شہید کی زخمی روحوں کے ساتھ ‘مذاق نہیں تو کیا ہے؟ ماں کا سایہ سر پر رہتا‘ تو نانا کا ہاتھ بھی سر پہ ہوتا۔ مگر یہاں توتاجروں کے خاندان کا گھیرا ہے۔ مجھے شفیق الرحمن کا لکھا ہوا ایک قصہ یاد آ گیا۔ وہ ماں کے پیار کی کیفیت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ صبح اسے گود میں لے کر‘ کیِچ بھری آنکھیں صاف کرتی ہے۔ ہونٹوں سے بہہ کر گالوں پر پھیلی رال ہٹاتی ہے۔ اس کے کچھے میں بھرا ہوا گُو نکالتی ہے۔ لت پت ٹانگیں ‘صاف کر کے دھوتی ہے۔ بال بناتی ہے اور کان کے پیچھے سیاہی کا دھبہ لگاتے ہوئے ‘دل کڑا کر کے کہتی ہے ''میرا چاند‘‘۔یہاں تو ماں بھی نہیں‘ جو میرا چاند کہہ سکے۔ صرف باپ کے کارندے ہیں‘ جو ماں اور نانا کی نشانی کو گاڑیوں اور گنوںسے آراستہ کر کے‘ خوفزدہ عوام کو راستے سے ہٹاتے ہوئے‘ تیزی سے گزر جاتے ہیں ۔ نانا کا نواسہ اور باپ کا بیٹا پورے پنجاب میں شکست کھائے ہوئے‘ مایوس پرستاروں سے کہتا ہے ''خوب دل لگا کر محنت کرو۔ اس مرتبہ ہار کے گھر مت آنا‘‘ اور گھروں میں بیٹھی‘ ان کی بیویاں بیٹیاں دل میں کہتی ہیں ''ہمارا کیا قصور ہے؟ ‘‘