سندھ میں صوبائی مشیر مذہبی امور‘عبدالقیوم سومرو نے تجویز پیش کی ہے کہ صوبہ بھر کی تمام مساجد کے لئے جمعے کا خطبہ‘ وزارت مذہبی امور تیار کرے گی۔ اس سلسلے میں علما کے ساتھ تین ماہ سے مذاکرات ہو رہے ہیں‘ جو مزید جاری رہیں گے۔علما کی اکثریت نے اس تجویز کی تائید کی ہے جبکہ بعض علما کرام نے اس سوال پر کئی اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن اکثریت نے اس کے حق میں رائے دی ہے۔ واضح رہے کہ متعدد مسلمان ملکوں میں خطبے کا متن ‘حکومتی ادارے ہی تیار کرتے ہیں اور جمعہ پڑھانے والے علما کرام‘ خطبہ جمعہ کا سرکاری مسودہ پڑھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ بیشتر علما کی رائے ہے کہ بعض خطیب‘ جمعے کے دن فرقہ وارانہ مسائل اٹھا کرفرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں ۔ مختلف فرقوں کے عقائد پر تنقید کر کے باہمی نفرتوں کو ابھارتے ہیں اور پھر گمراہ کن تصورات پیش کر کے‘ نہ صرف ان کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں‘ بلکہ بعض تو اتنے جوش میں آجاتے ہیں کہ عقائد کا حوالہ دے کر ان پر کفر کا الزام لگاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنے سامعین کو اکساتے ہیں کہ ان کے ساتھ میل جول اور تبادلۂ خیال ترک کر دیں۔یہ فرقہ وارانہ منافرت بڑے فسادات پیدا کرتی ہے۔ اسی خرابی سے بچنے کے لئے متعدد ممالک نے‘ خطبہ جمعہ کا ایک ہی مسودہ تیار کر رکھا ہے‘ جسے پڑھنا ہر مسجد کے امام پر لازم کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے خصوصاً ٹی وی پر بولنے والے اینکرز اور نصف اینکرز نے اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ تو آزادیٔ اظہار پر پابندی ہے جبکہ اسی آزادیٔ اظہار کے نام پر‘ گمراہ کن تصورات پھیلائے جاتے ہیں۔یہ اسی نام نہاد آزادیٔ اظہار کا نتیجہ ہے کہ ایک ہی دین کے ماننے والے‘ اکٹھے نماز ادانہیں کر سکتے۔
فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسجدیں تعمیر کی جاتی ہیں۔صرف اسی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ ان مساجد میں نماز کے لئے جا سکتے ہیں جبکہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو وہاں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔مختلف فرقوں نے اپنے اپنے عقائد کے نام پر‘ ایسے گمراہ کن تصورات پھیلا رکھے ہیں کہ کوئی بھی صاحب ایمان‘ انہیں سننا بھی برداشت نہیں کرتا۔دنیا بھر کے مسلمان‘ دو مقدس مقامات پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں وہ اپنے فرقے اور عقیدے کی پابندی نہیں کرتے۔ وہی خطبہ سنتے ہیں‘ جو امام کعبہ یا مسجد نبویؐ کا امام دے۔ اس کے برعکس ان دو مقدس مقامات سے باہر نکلنے کے بعد‘ ایک ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے۔ وہاں وہ اپنے اپنے فرقے کی مسجد ڈھونڈتے ہیں‘حالانکہ دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔سوال یہ ہے کہ جب ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان‘ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں اکٹھے نماز پڑھتے ہیں‘ تو باقی مقامات پران کی مساجد کیوں الگ الگ ہیں؟ اسی طرح مسجد نبویؐ اور خانہ کعبہ میں نمازیں ادا کرنے کے لئے‘ مردوزن کی کوئی تقسیم نہیں۔ سب ایک ساتھ طواف کرتے ہیں۔ایک ساتھ سعی کرتے ہیں۔ ایک ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں۔لیکن جیسے ہی ان دو مقدس مقامات سے باہر نکلتے ہیں توا پنے اپنے راستے‘ الگ الگ چنتے ہیں۔ کئی فرقے ہیں‘ جو اپنی مساجد میں صرف مردوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں‘ جہاں مسجد میں خواتین کے لئے علیحدہ جگہ بنائی جاتی ہے اور مردوں کے لئے علیحدہ۔میں صرف پاکستان کی بات کر رہا ہوں۔ یہاں شاذو نادر ہی مساجد میں خواتین کو نمازیں پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔البتہ اہل تشیع کے ہاں ‘اس سلسلے میں زیادہ سختی سے کام نہیں لیا جاتا۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ بہت سے موقعے ایسے آئے جب تمام سیاسی جماعتوں نے متحدہ محاذ بنائے۔ کئی اسلام کے نام پر بنائے گئے۔ کئی قوم پرستی کے نام پر اور کئی فرقوں کے نام پر۔ بظاہر ان سب کا نعرہ‘ یکجہتی اوراتحادہوتا ہے لیکن نمازیں سب اکٹھے نہیں پڑھتے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایک اسلامی اتحاد میں اہل حدیث کی ایک تنظیم شامل ہوتی تھی اور اہل تشیع کی دوسری۔ سنی اپنی جماعت آپ کھڑی کرتے تھے اور دوسرے اپنے فرقے والوں کے ساتھ نماز ادا کرتے۔ جن سیاسی کارکنوں نے ایسے اجتماعات میں حصہ لیا ہے‘ انہیں یقیناً ایسے مناظر یاد ہوں گے کہ ایک ہی اتحاد میں شامل ایک فرقے کے لوگ اپنی نماز علیحدہ پڑھتے ہیں اور دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے علیحدہ۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سب کا ایک خدا ہے۔ سب ایک ہی رسول اکرم ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔سب ایک ہی نماز پڑھتے ہیں۔ بعض نے تو نماز میں بھی اپنے اپنے اضافے کر رکھے ہیں۔ اگر دین کو دیکھا جائے تو اس میں نمازوں کے لئے علیحدہ علیحدہ جماعتیں کھڑی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر فرقے کے لوگ‘ ایک ہی میدان یا مسجد میں کھڑے ہو کر‘ ایک ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مگر عملاً ہم ایسا نہیں کرتے۔ اتحاد ضرور بنائیں گے۔ نعرے بھی ایک جیسے لگائیں گے۔ کلمہ بھی ایک پڑھیں گے لیکن نماز پڑھنے کے لئے‘ الگ الگ صفیں بنا کر‘ علیحدہ اماموں کے پیچھے نمازیں پڑھیں گے۔یہی کافی نہیں بلکہ مختلف فرقوں کے لوگ سات محلے چھوڑ کر‘ اپنے فرقے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں۔یہ تقسیم دین میں موجود نہیں۔ ہر مسلمان کا خدا ایک ہے۔ اللہ کا رسول ﷺ ایک ہے۔ قرآن ایک ہے۔نمازیں ایک برابر ہیں۔پھر یہ جمع کیوں نہیں ہوتے؟ اکٹھے نمازیں کیوں نہیں پڑھتے؟ اکٹھے دعائیں کیوں نہیں مانگتے؟
ہر ملک کی سیاست اور معاشرت الگ الگ ہوتی ہے۔اگر ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو یقینی طور پر‘ مملکت کا سربراہ بھی مسلمان ہی ہو گا‘ جیسا کہ بیشتر ملکوں میں ہے۔ ان کے مسائل بھی ایک جیسے ہوں گے۔ دعائیں بھی ایک جیسی ہونی چاہئیں۔ خطبے کے ساتھ‘ ہر امام کو اپنی قوم اور ملک کی سلامتی اوربہتری کے لئے دعائیں مانگنا چاہئیں۔ یہ دعائیں اجتماعی کیوں نہ ہوں؟سب کا خطبہ ایک جیسا کیوں نہ ہو؟پورے ملک میں یکساں خطبے کا مطلب‘ سب کے لئے خیر‘نیکی اور ملک و قوم کی فلاح ہونا چاہئے۔ ایک خطبے پر اتفاق ‘نماز جمعہ کی روح کے عین مطابق ہے کیونکہ ہم ہر مسجد کو جامع مسجد نہیں کہتے۔گویا کئی مساجد میں جمعے کی نماز نہیں پڑھائی جاتی بلکہ ایسی مسجد کا انتخاب کیا جاتا ہے‘ جہاں زیادہ لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ سکیں۔ہفتے بھر میں صرف یہی ایک نماز ہے‘ جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور اسے زیادہ لوگ‘ سننے آتے ہیں۔اگر علما کرام کا مرتب کیا ہوا ایک ہی خطبہ‘ پورے ملک میں پڑھا جائے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟بعض خبروں میں تاثر دیا گیا ہے ‘ جیسے یہ تجویز صرف سندھ کے لئے ہے ۔ میرا یہ خیال نہیں ‘کیونکہ صوبائی مشیر مذہبی امور کے بیان میں یہ بات موجود ہے کہ سندھ میں اتفاق رائے کے بعد‘ وہاں کی صوبائی حکومت یہ تجویز لے کر‘ وفاق میں بھی جائے گی اور کوشش کرے گی کہ سارے صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں بھی‘ جمعتہ المبارک کا ایک ہی خطبہ پڑھا جائے۔ جب 95 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے تو سب کے سب جمعے کے روز ایک ہی خطبہ کیوں نہ سنیں؟ پورے ملک کے لئے علما کرام کا تیار کردہ خطبہ دینی‘ علمی اور قومی اعتبار سے زیادہ وقیع اور اعلیٰ ہو گا۔جمعے کی نماز پڑھانے والے ہر امام کی علمی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘توکچھ کم۔جو خطیب دوسروں کے مقابلے میں دین کا علم زیادہ رکھتے ہوں‘ ان کا مرتب کیا ہوا خطبہ‘ انفرادی خطبے سے بہتر ہو گا۔زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہو کر جمعتہ المبارک کی نماز پڑھنا‘ زیادہ مبارک اور یکجہتی کا ثبوت ہو گا۔