"NNC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کیلئے بہتر‘ استحکام کیلئے خطرناک

پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے تمام کرپٹ بیوروکریٹس‘ سیاستدانوں ‘ منی لانڈرنگ کرنے والوں ‘عوام کے سرمائے پر دولت مند بننے والوں اور دہشت گردوں میں اطمینان اور خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ میں نے اس کالم کی سرخی‘ واشنگٹن پوسٹ کی طویل سرخی کو سمیٹ کر بنائی ہے۔ بہرحال ''پوسٹ ‘‘کی سرخی کا مفہوم یہی ہے۔ مذکورہ امریکی اخبار نے اپنی سرخی میںانہی کیفیات کی ترجمانی کی ہے۔ امریکیوں سے زیادہ ہمیں کون جانتا ہے؟ میں وثوق سے لکھ سکتا ہوں کہ پاکستان کے جتنے فوجی سربراہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ وہ سب کے سب امریکی ساختہ تھے۔ مجھے ایک بھی ایسا فوجی سربراہ یاد نہیں‘ جس نے ریٹائرمنٹ سے بچنے کے لئے اقتدار پر قبضہ نہ کیا ہو۔ ہمارے محض چند ایک جنرل ایسے ہوئے ہیںجنہوں نے فوج کی نوکری کو ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ سمجھا ۔ ہمارے جتنے بھی سربراہان مملکت نے وردی کے اندر رہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا‘ وہ بزعم خودملک کو جمہوریت دینے آئے تھے۔ جو خاموشی سے گھر چلے گئے‘ وہ سچے فوجی تھے۔سب سے پہلے ہمارے کمانڈر انچیف‘ فیلڈمارشل ایوب خان نے نالائق سیاستدانوں کو نکال کر‘ ملک کو ترقی اور استحکام دینے کے لئے اقتدار کا بوجھ اٹھایا‘ وہ محض جمہوریت کے لئے تھا۔ ان کی رائے تھی کہ جمہوریت انتہائی بیہودہ طرزحکومت ہے‘ جسے قائداعظم‘ شہید ملت لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ سردار عبدالرب نشتر‘ اے کے فضل حق اور حسین شہید سروردی جیسے ''عوام دشمن ‘‘لیڈروں نے ‘ عوام پر ''مسلط ‘‘کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مختلف بیرونی دوروں کے دوران ‘جب بھی انہیں غوروفکر کا موقع ملا‘ وہ پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنانے کے طریقے سوچا کرتے تھے۔ آخر کار انہوں نے بنیادی جمہوریتوں کا طریقہ سوچا۔ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے تمام سرکردہ لیڈروں کو ایوان اقتدار سے باہر کر کے‘ ان پر کرپشن کے مقدمات قائم کئے اور میدان سیاست سے باہر کر دیا۔ 
ایوب خان‘ پاکستان کے پہلے اصلی اور خالص محب وطن پاکستانی تھے‘ جنہوں نے دنیا کے دوسرے کونے پر جا کر‘ ہمارا عظیم دوست امریکہ تلاش کیا۔ امریکہ نے ایوب خان کو مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کے دونوں حصوں میں (یاد رہے پاکستان پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان ‘ سے پہچانا جاتا تھا) اپنے پسندیدہ جنرل ‘ سیاستدان اور بیوروکریٹ مسلط کئے اور ان کے گٹھ جوڑ کا نام ''بنیادی جمہوریت ‘‘رکھ دیا۔ اس بنیادی جمہوریت کے نسخے کے تحت جو حکومت تیار کی گئی‘ اس کا سربراہ سکندر مرزا تھا‘ جسے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ہی روز بعد‘ دیس نکالا دے دیا گیا۔ ایوب خانی جمہوریت نے دریافت کیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان غیرفطری جغرافیائی سرحدیں رکھتے ہیں۔انہوں نے اندازہ لگایا کہ اگر یہ دونوں اکٹھے رہے‘ تو پورے ملک میں جمہوریت مسلط کر دیں گے۔ اگر جنرلوں کا اقتدار قائم رکھنا ہے‘ تو اپنے شاگرد یحییٰ خان کو جانشین بنانا پڑے گا۔ ایوب خان نے خوب غوروفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر کسی جنرل کو اقتدار دیا گیا‘ تو یہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو الگ الگ کر دیں گے۔ 1970ء کے انتخابات ہوئے‘ تو مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں طرف سے ‘ایسی سیاسی قیادتیں سامنے آئیں‘ جن سے خطرہ تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے پورے ملک پر دوبارہ جمہوریت ''مسلط ‘‘کر دیں گے۔ مغربی پاکستان میں جرنیلوں کے پروردہ سیاستدانوں اور میڈیا نے بھرپور مہم چلائی کہ شیخ مجیب پاکستان دشمن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عوامی لیگ کے حامیوں کو ٹینکوں کے نیچے کچل کر ہمیشہ کے لئے پاکستان سے دور کر دیا جائے۔ یہ ترکیب کامیاب رہی۔ مشرقی پاکستانیوں نے اپنی ہی فوج کے ٹینک‘ گلیوں اور سڑکوں پر دندناتے ہوئے دیکھے اور خود انہی کے محافظوں نے انہیں کچلنا شروع کردیا۔ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستانیوں کو آزادی دلوا کر‘ پاک فوج کوبھارت میں منتقل کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد واپس پاکستان بھیج دیا۔ آج میں قریباً 44برس کے بعد‘ سوچ رہا ہوں کہ اس وقت انتخابات کے بعد مجیب اور بھٹو میں جو مذاکرات ہو رہے تھے‘ کیا ان کی کامیابی میں پاکستان کی بقا مضمر تھی یا مذاکرات ناکام ہونے میں؟ آج کی حکومت اور شیخ مجیب الرحمن کے فلسفہ سیاست میں کیا فرق تھا؟ شیخ مجیب ایسی کونسی بات کہہ رہا تھا‘ جو آج نہیں کہی جا رہی؟ مجیب ‘تنازعۂ کشمیر کا وہی حل چاہتا تھا‘ جو جنرل مشرف نے تسلیم کر لیا تھا۔ وہ بھارت کے ساتھ اسی قسم کے تعلقات چاہتا تھا‘ جو ہم آج بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال جمہوریت کو مستحکم کرنے والی طاقتوں نے‘ دونوں منتخب لیڈروں کو راستے سے ہٹایا اور سابق پاکستان کے دونوں حصوں پر جنرلوں کی حکمرانی ہو گئی۔ دونوں نے جمہوریت کو مستحکم کیا اور دونوں نے عوام کے منتخب لیڈروں کو غیرفطری موت دی۔ شیخ مجیب کو اس کی فوج نے قتل کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو خوداس کے چیف آف آرمی سٹاف نے پھانسی چڑھایا۔ ہمیں جنرل ضیاالحق نے جمہوریت دی اور بنگلہ دیش کو ضیاالرحمن نے۔ 
ان دونوں جنرلوں نے دولخت پاکستان میںایسی جمہوریت قائم کی کہ'' عدم استحکام کو استحکام‘‘ مل گیا۔ جب سے پاکستان دو لخت ہوا ہے‘ اس بدنصیب ملک کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ بنگلہ دیش میں ضیاالرحمن کے پیروکار اقتدار میں آئے اور موجودہ پاکستان میں ضیاالحق کے ماننے والوں نے ہمیں جمہوریت سے نوازا۔ کبھی سوچیں تو ہم امریکہ کی مہربانیوں کو کیسی کیسی شکلوں میں یاد کریں؟ ایوب خان کی شکل میں؟ یحییٰ خان کی شکل میں؟ ضیاالحق کی شکل میں؟ جنرل مشرف کی شکل میں؟ دونوں طرف جو کچھ بھی ہوا‘ امریکیوں کی مہربانی سے ہوا۔ ہماری طرف جنرل مشرف اور جنرل ضیاالحق امریکیوں کے قابل اعتماد دوست تھے۔ دونوں نے امریکیوں سے پیسے لے کر 
''مجاہدین‘‘ تیار کئے اور ان مجاہدین نے دونوں ملکوں یعنی افغانستان اور پاکستان میں ‘ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانا شروع کیا اور آج وہی امریکہ‘ ہمارے حکمرانوں کو کہہ رہا ہے کہ جو ''مجاہدین‘‘ تم نے ہم سے ڈالر لے کر بنائے تھے‘ اب اگر مزید ڈالر لینا ہیں‘ تو ہمارے سابق وفادار ''مجاہدین‘‘ کو کچل کر رکھ دو۔ تاریخ بھی کیسے کیسے عجیب منظر دکھاتی ہے؟ جنرل ضیاالحق نے امریکہ کے ڈالروں اور سرپرستی سے‘ روسیوں کے ساتھ لڑنے کے لئے''مجاہدین‘‘ تیار کئے۔ انہی کے جانشین حکمران‘ اب ان ''مجاہدین‘‘ کو ختم کرنے پر تلے ہیں۔ 
بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں جا کر تاریخ کا ایک ورق الٹتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا کہ ''بنگلہ دیش کو پاکستان سے آزاد کرانے میں ‘ہم نے بنیادی کردار ادا کیا۔‘‘ اس کے بعد مودی صاحب کو پاکستان میں جو پذیرائی ملی‘ وہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ اب ایک نیا ورق کھلنے والا ہے۔ اس کا اعلان بی جے پی سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے ایک رکن سبرامنیم سوامی نے ان الفاظ میں کیا ''پہلے ہم نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے تھے‘ اب چار کریں گے۔‘‘ واضح رہے‘ اس اعلان پر بھارتی حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے اظہار خیال نہیں کیا۔ ایسی باتیں‘ اسی طرح کے سرپھروں سے کہلوائی جاتی ہیں اور انہیں لو پروفائل پر رکھا جاتا ہے۔ اب جو خطہ عالمی اور علاقائی کھلاڑیوں کا نیا اکھاڑہ بن رہا ہے‘ اسے شرق اوسط کہتے ہیں۔ چند روز پہلے‘ بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج نے‘ بحرین میں ایک وزارتی کانفرنس میں شرکت کی۔ جس تنظیم کے تحت یہ میٹنگ بلائی گئی تھی‘ اس کا نام ہے ''انڈیا عرب لیگ کوآپریشن فورم‘‘۔ اس میں بھارت کے ساتھ 22اراکین کا تعلق عرب لیگ سے ہے۔ تین ماہ پہلے بھارت کے صدر پرناب مکھر جی‘ اسرائیل اور فلسطین کا دورے کر کے آئے ہیں۔ اس دورے کے بعد‘ اسرائیل کے وزیراعظم ‘ بھارت کے دورے پر آنے والے ہیں۔ ان کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرمودی‘ تل ابیب جائیں گے۔ ادھر چین کے صدر نے بھی شرق اوسط میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس کے ساتھ افغانستان اور ایران جڑے ہوئے ہیں۔ اس پورے علاقے پر نظردوڑا کر دیکھیں اور امکانی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو ایک ہیبت ناک منظر تصور میں آتا ہے۔ اس پس منظر میں امریکی صدر اوباما کا یہ بیان انتہائی قابل غور ہے۔ انہوں نے دو مرتبہ کہا ''آنے والے چند عشروں میں پاکستان غیرمستحکم رہے گا۔‘‘ امریکہ میں آنے والے دور کی پالیسی وہی ہوتی ہے‘ جورخصت ہونے والا صدر نہیں''واشنگٹن پوسٹ‘‘ بتاتا ہے اور واشنگٹن پوسٹ نے‘ جنرل راحیل شریف کی رخصت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''پاکستانی جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ ممکن ہے ڈیموکریسی کے لئے بہتر ہو لیکن استحکام کے لئے بری ہے۔‘‘ یہی بات بارک اوباما نے‘ کانگرس میں اپنا آخری خطاب کرتے ہوئے کہی اور اس میں واقعاتی اضافہ کرتے ہوئے‘ واشنگٹن پوسٹ نے لکھ دیا۔ میرے اہل وطن ''ایک کو دو کرنے‘‘ کے دعووں کے وقت بھی الجھائو کا شکار تھے اور آج بھی ان کی سوچ میں کوئی واضح سمت نہیں ہے۔ کیا ہمارا استحکام؟ اور کیا عدم استحکام؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں