"NNC" (space) message & send to 7575

کچھ بھی نہیں لکھا

کہا جاتا ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ ‘اسحاق ڈارجو دعویٰ کرتے ہیں‘ اسے پورا کر کے دکھاتے ہیں۔ چند مہینے پہلے‘ انہو ں نے شیخ رشید احمد کو للکارا تھا کہ وہ ‘انہیں ڈالر کو ایک سو روپے سے نیچے لا کر دکھائیں گے۔انہوں نے کردکھایا۔روپے نے ڈالر کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔اگرہم ایک سو روپے کے سکے‘ ڈالر کے اوپر لا کر رکھ دیں تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ ڈالر جتنا آج نیچے گر چکا ہے‘ وہ ڈار صاحب کی توقع سے زیادہ ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ‘ڈالر کو اس سے بھی نیچے گرائیں گے۔ حتیٰ کہ جب اس پر سو ڈیڑھ سو روپے کے سکے رکھیں گے تو ڈالر چیں بول کر پھٹ جائے گا۔ یہ پرانی بات ہے۔ آج کل ڈار صاحب نے پی آئی اے کے ملازمین کو چیلنج دے رکھا ہے۔ آج ہی ان کے حامیوں نے دعوی کیا ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین نے ہڑتال کی تو انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ پی آئی اے ملازمین پر لازمی سروس کا قانون نافذ اور یونینزپر پابندی لگا دی جائے گی۔دوران سروس کوئی ملازم غیر حاضر نہیں رہ سکے گا۔مظاہرہ یا ہڑتال کرنے والے کو نوکری سے ہاتھ دھونے کے علاوہ‘ جیل بھی جانا پڑے گا۔ایک اور وزارتی اعلان ہوا کہ ہڑتال کرنے والوں کے پر کاٹ دیں گے۔پی آئی اے والوں کے پر تو‘ جہاز کے بازو ہی ہوتے ہیں۔گویا حکومت خود اعلان کر رہی تھی کہ وہ پی آئی اے کے ملازمین کے پر کاٹ د ے گی۔جہازوں کے پر کٹ گئے تو ہڑتالیوں کو ازخود نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔نہ جہاز چلیں گے‘ نہ ان کی نوکری رہے گی۔آج ہڑتال کے اعلان پر عملدرآمد کا پہلا دن تھا۔حکومت کے سارے دعوے‘ سہ پہر تین بجے تک آزمائے جا چکے تھے۔ صبح سے خبرنامے دیکھے تو ان میں اعلان ہو رہا تھا کہ یا تو حکومت انقلابی ہو گئی ہے یا پی آئی اے کے ہڑتالی‘ سر چھپا کے اپنے کاموں پر پہنچ گئے ہیں لیکن ان میں سے کچھ بھی نہ ہوا۔حکومت نے ہڑتالیوں کو روکنے کے لئے رینجرز بلا رکھی تھی۔ پولیس بھی کمربستہ کھڑی تھی۔ اور کچھ''نجی‘‘جنگجو بھی بلائے گئے تھے۔ میڈیا کے ایک نمائندے نے '' ناکام‘‘ ہڑتال کے بارے میںیہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہڑتال کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ خالی کائونٹر‘ خالی ورکشاپ‘ خالی کیفے ٹیریا اور خالی انتظار گاہیں‘ ہڑتالیوں کے لئے کامیاب ہڑتال کی نشانی ہوتی ہیں لیکن میڈیا کے جو صاحب ‘ہڑتال کی ناکامی کا اعلان کر رہے تھے ‘ شایدانہیں یہ سب دیکھ کر اچھا نہیں لگا۔ کسی سر پھرے کا میڈیا کے ایک نمائندے سے بھی دھول دھپا ہو گیا۔ مجھے اس کے ساتھ ہمدردی ہے مگر کیا کیا جائے؟ ایسے حالات میں حکومت کا ساتھ دینے کا مطلب‘ کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔ 
جیسے جیسے وقت بڑھتا گیا اور دوپہر گزری۔ ہڑتال نے اپنے سائے پورے ملک میں پھیلا دیے اور پر کاٹنے والوں کے اپنے پر کٹ کے بکھر چکے تھے۔پی آئی اے کے محنت کشوں نے اپنے خون کے نذرانے پیش کر دیے ۔ بحث اب یہ ہو رہی ہے کہ انہیں ایک قومی ادارے کو بچانے کی جدوجہد میںجام شہادت نصیب ہو گیا اور یہ ''کار خیر‘‘ انجام کس نے دیا؟ اس کا اعزاز حاصل کرنے سے ہر کوئی شرما رہا ہے۔ رینجرز والے کہتے ہیں کہ ہم نے تو گولی نہیں چلائی۔جان دینے والے ہماری گولی سے نہیں مرے۔پولیس کہتی ہے گولی ہم نے بھی نہیں چلائی۔پتہ نہیں یہ لوگ مر کیسے گئے؟ ہڑتالیوں میں ہر کوئی نہتا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں بندوق یا پستول نہیں تھا۔ ورنہ ابھی تک سرکاری ترجمان‘ نہ صرف یہ دعویٰ کر چکے ہوتے کہ گولی چلانے والا تحریک انصاف کا کارکن تھا۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکے۔ اول تو یہ کہ تحریک انصاف کے کارکن‘ دو فروری کے احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ دوم یہ کہ تحریک انصاف کے کارکن سیاسی لوگ ہیں۔ ا ن کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ‘ خود تو گولیاں کھا کر جان دے دیتے ہیں مگر کسی کی جان لیتے نہیں۔ لیکن حکومتی مشینری پلاّجھاڑ کے‘ عمران خان کے پیچھے پڑی ہے‘ ایسے کسی بھی واقعے پر حکومتی ترجمان‘ قتل کا الزام تحریک انصاف پر لگانے کا موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔رینجرز کے بعد دوسری مسلح فورس پولیس کی تھی۔ اس کی طرف سے بھی صاف انکار ہے کہ مرنے والوں کو ہماری گولی نہیں لگی۔پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین‘ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔حکومت کے جس ترجمان کا بیان سنئے یا پڑھیے تو آپ کو ایک ہی تاثر ملے گا کہ موصوف‘ حکومت پر اپنی جان قربان کر سکتے ہیں۔ اس کے خلاف نعرے یا تبرے بازی نہیں سن سکتے۔بہت سے بندوقوں اور گنوں والوں میں‘ کوئی نہ کوئی تو حکمرانوں کا فدائی ہو گا۔ خاص طورسے پولیس میں تو حکمرانوں کی قصیدہ گوئی کئے بغیر کوئی کسی اچھے عہدے پر فائز ہی نہیں ہو سکتا۔ رینجرز فوج کی ایک شاخ ہے۔ اسے نہتوں پر گولی چلانے کی تربیت نہیں ہوتی۔عادت بھی نہیں ہوتی ۔ صرف پولیس رہ جاتی ہے ‘ جو ہڑتالیوں کی ہلاکتوں کا سہرا‘ اپنے سر باندھ سکتی ہے لیکن یہ عجیب پولیس تھی ‘ جس نے ہڑتالیوں کو مارنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یقینی طور سے صوبائی اور وفاقی سیاست کے جھگڑے کے باعث ایسا ہوا۔ رینجرز کو قائم علی شاہ بہت دنوں سے آنکھیں دکھا رہے ہیں لہٰذا ان کے زیر اقتدار شہر میں‘ رینجرز کے سپاہی یا افسر ‘ہڑتالیوں کا منہ کیوں بند کرتے؟شاہ صاحب‘ رینجرز پر خوش نہیں۔ رینجرز‘ شاہ صاحب پر خوش نہیں۔ اس لئے سائیں سرکار کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔انہوں نے صرف ڈیوٹی نبھائی۔ ہڑتالیوں کو گولیاں مارنے کا کام صرف پولیس کر سکتی ہے لیکن اس کی ذمہ داری‘ شاہ صاحب قبول نہیں کریں گے۔ ان کے اوروفاقی وزیرداخلہ کے درمیان‘ پہلے ہی سے اندرون لاہور کی گلیوں والی لڑائی چل رہی ہے۔موجودہ حکومت کے وزیروں میں آپس کی لڑائی بھی‘ اندرون لاہور کی گلیوں جیسی ہوتی ہے۔اس کے وزیر برملا کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ایسی حکومت دنیا میں شاید ہی کہیں پائی جاتی ہو۔ کیونکہ کابینہ ایک ہی قائد کے انتخاب کے تحت بنتی ہے ۔ قائد خود ان کا انتخاب کرتا ہے اور وہ سب قائد کے‘ احکامات اور منصوبوں کے تحت کام کرتی ہے لیکن جس کابینہ کے دو وزیروں کی آپس میں ہی بول چال بند ہو اور وہ‘ برملا اس کا تذکرہ بھی کرتے ہوں تو قائد کو چاہئے کہ آج والی ہڑتال کا کوئی موقع پیدا ہو جائے تو ایک وزیر کو پولیس کی وردی پہنا کر بھیج دے اور دوسرے کو ہڑتالیوں میں شامل کر دے۔ ظاہر ہے دونوں میں سے ایک ہی وزیر گھر لوٹے گا اور جھگڑا ختم ہو جائے گا۔
میں نے کالم کے اصل موضوع پر ابھی تک کوئی بات نہیں لکھی۔ پی آئی اے کو اسحاق ڈار صاحب بیچنے پر تلے ہیں۔جس بات پر ڈار صاحب ڈٹ جائیں‘ اس سے انہیں کوئی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ ہرباخبر شخص یہ جانتا ہے کہ چوہدری صاحب‘ وزیراعظم سے روٹھ جائیں تو‘ انہیں دوسرا کوئی نہیں منا سکتا۔شہباز شریف ان کے گہرے دوست ہیں لیکن روٹھے ہوئے چوہدری صاحب کو منانا ان کے بس میں بھی نہیں۔ماسوائے اس کے کہ لندن میں شام کی چہل قدمی کرتے وقت‘ کوئی جھلک ان دونوں کو اتفاق رائے کرنے پر مجبور کر دے۔ کسی عمارت کی خوشنما رونق‘ کسی پھول کی خوشبو‘ کسی شوکیس کی آرائش یا زندگی کو مہکا دینے والا کوئی خوشنما منظر۔ پچھلے دنوں چوہدری صاحب‘ سندھ کے وزیراعلیٰ ‘قائم علی شاہ سے روٹھے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کر دیا تھا۔ مثلاً انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے‘ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ‘قائم علی شاہ سے ملاقات کے لئے نہیں کہا۔ قائم علی شاہ اس معاملے میں درست بیان نہیں دے رہے۔مگر خبر ہے کہ چوہدری صاحب نے قائم علی شاہ سے فون پر بات کر لی ہے۔شاید کسی بھی وقت وہ‘ کراچی کے دورے پر چلے جائیں۔ روٹھنے میں شاہ صاحب بھی کسی سے کم نہیں لیکن صرف ایک شخصیت کے اشارے پر‘ وہ اپنی ضد چھوڑ دیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں‘ یہ اشارہ کس کا ہو سکتا ہے۔آصف زرداری کے سوا کوئی ہے؟۔زیر نظر کالم کی بے معنویت آج پی آئی اے کی ہڑتال اور جناب اسحاق ڈار کی بیجا ضد کے مظاہرے پر‘ میرا تبصرہ ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین اگر اس ایئر لائنز کا آپریشن روک سکتے تو یہ گھاٹے میں کبھی نہ جاتی اور حکومت اسے بیچ سکتی تو کبھی کا بیچ چکی ہوتی۔ آپ کی طرح میں بھی سوچ رہا ہوں کہ نتیجہ کیا ہو گا ؟ کچھ حصہ پی آئی اے کا بک جائے گا۔ کچھ حصہ ملازمین کے رحم و کرم پر رہ جائے گا اور جو حصہ پی آئی اے کو چلنے نہیں دے رہا‘ وہ گھر چلا جائے گا۔ سٹیل ملز سے لے کر ریلوے تک‘ کوئی بھی ادارہ فروخت کیا جا سکا ہے؟ وہ جھگڑا پس پردہ ہے‘ جس کی وجہ سے پی آئی اے کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ ایک طرف اسحاق ڈار صاحب ہیں‘ دوسری طرف اصل خریدار۔
خوشخبری-: ایک سرکاری ترجمان کے مطابق اورنج لائن‘ غریبوں کا منصوبہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں