پاکستانی عیسائیوںکی دل دہلانے والی ایک خبر دیکھنے کو ملی‘ جس سے عجیب و غریب معلومات حاصل ہوئیں۔ اس کا تو مجھے علم تھا کہ پاکستان کے بیروزگار لوگ‘ روزگار کی تلاش میں غلط طریقوں سے دوسرے ملکوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے سفر کے جو طریقے اختیار کرتے ہیں‘ وہ خطرات سے بھرپور ہیں۔ بے رحم ایجنٹ‘ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سفر کا جو انتظام کرتے ہیں‘ وہ درحقیقت موت کا سفر ہوتا ہے۔ مثلاً انہیں کنٹینر میں بند کر کے بحری جہازوں میں رکھ دیا جاتا ہے۔ سفر کے دوران ان پر جو گزرتی ہے‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ زندہ سلامت انسان کو ایک ایسے بند ڈبے میں قید کر دیا جاتا ہے‘ جس کے اندر ہوا کا آسانی سے گزر نہیں ہوتا۔ کنٹینر میں لوہے کی جڑی ہوئی چادروں کے درمیان جو معمولی سی جگہ ہوتی ہے‘ وہیں سے ہوا گزر کے اندر داخل ہوتی ہے۔ اسی میں سے کنٹینر کے اندر آلوئوں کی طرح بھرے ہوئے انسانوں کو اپنے لئے آکسیجن ڈھونڈنا پڑتی ہے‘ جسے حاصل کرنے کے لئے زور زور سے سانس لے کر مضمحل سی ہوا کو بزور اپنے ہانپتے ہوئے پھیپھڑوں میں کھینچنا پڑتا ہے۔ اکثر تو سانس کی جدوجہد میں ہی جان گنوا بیٹھتے ہیں‘ اور اگر ان کے نصیب زیادہ خراب ہوں تو انہیں کنٹینر میں بند کرنے والے خود ہی اسے سمندر میں پھینکوا دیتے ہیں۔ اگر قسمت نے یاوری کی اور زندہ سلامت منزل پر پہنچ گئے‘ تو کنٹینر کھلنے کے بعد‘ بچ رہنے والے ایک چوتھائی یا اس کے لگ بھگ انسان جہاں پہنچتے ہیں‘ وہاں سے انہیں کشتیوں میں بٹھا کر سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جن ملکوں میں یہ کشتیاں داخل ہوتی ہیں اگر وہاں کی سکیورٹی فورسز انہیں پکڑ لیں تو گرفت میں آنے والوں کی خوش نصیبی ہوتی ہے کیونکہ اس کے بعد وہ قانونی مراحل سے گزر کے اچھی بری زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں‘ اور جو کھلے سمندروں میں رہ جاتے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا عرض کروں؟ وہ پانی اور سمندری مخلوق کی غذا بننے کے لئے خدا جانے کیسے کیسے مراحل سے گزرتے ہیں؟ لیکن غریب الوطنی کا ایک اس سے بھی زیادہ دردناک انجام ہے‘ جو ہزار سے زیادہ پاکستانی عیسائیوں کا ہو چکا ہے۔ یہ کہانی میری نظر سے پہلی بار گزری ہے۔ ہمارے پاکستان میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے جابجا مدرسے بنے ہیں۔ وہ لاکھوں اور کروڑوں کے چندے جمع کرتے ہیں۔ انسان پروری اور مظلوموں کی داد رسی‘ اسلامی تعلیمات کا نمایاں ترین حصہ ہے‘ لیکن انہی مساجد اور مدارس کو چلانے والوں نے‘ دوسرے مذاہب کے ساتھ جو
ظلم روا کر رکھا ہے‘ ہم آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود‘ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ مثلاً ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کون سی اقلیتوں پر پاکستان میں کیسے کیسے مظالم ڈھائے جاتے ہیں؟ گزشتہ چند سال سے اہل کتاب عیسائی‘ ہمارے تنگ نظر اور علم دشمن ملائوں کی وحشت و درندگی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے بے رحمی کے واقعات تسلسل سے بیرونی میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ آج مجھے ''بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘ میں پڑھنے کو ملا۔ ملائوں اور ان کے دہشت گردوں کی پابندیوں کا نشانہ بن کر مجھے اپنی زندگی بڑھتی ہوئی اذیت میں گزارنا پڑتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو اس زندگی کے عذاب کے لئے تیار کر رکھا ہے‘ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عیسائی‘ جو ہمارے مذہبی اعتقادات کے تحت‘ خدا کے بھیجے ہوئے نبی کی امت ہیں اور جنہیں ہم اپنے کسی بھی مذہبی عقیدے یا اعتقاد کے تحت دکھ پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے‘ پاکستان میں اس اہل کتاب طبقے کی زندگی بھی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ اب میں ''بی بی سی اردو‘‘ کی ناقابل یقین رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اسے پڑھ کر شاید ہی کسی کو یقین آئے کہ پاکستان میں مظلوم اہل کتاب کے ساتھ‘ ایسا لرزہ خیز سلوک بھی کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کی تفصیل درج ذیل ہے۔
''بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ سیاحوں کی مہمان نوازی کے حوالے سے مقبول تھائی لینڈ ایک ایسا ملک بن چکا ہے‘ جو روزانہ کی بنیاد پر پناہ کی تلاش میں آنے والے تارکین وطن کو گرفتار کر کے زیرِ حراست رکھتا ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر پاکستانی عیسائی ہیں جو اپنے ملک سے مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے فرار ہوئے۔ اِن میں سے کچھ بچے ہیں۔ اور وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے رجسٹر شدہ پناہ گزین ہونے کے باوجود گرفتار ہیں اور اقوامِ متحدہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اْن کی حفاظت کرے۔پاکستانی عیسائی تھائی لینڈ آتے ہیں کیونکہ اس ملک میں ایک مختصر مدتی سیاحتی ویزے پر داخل ہونا آسان ہے۔ لیکن شاید ہی تھائی لینڈ میں اْن کا استقبال کرنے والی کوئی کمیٹی ہو۔ یہ ملک کہیں سے بھی آنے والے پناہ گزینوں کو نہیں رکھنا چاہتا۔ یہ اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے کنونشن کے معاہدے میں شامل نہیں ہے اور کوئی بھی جس کے پاس درست ویزا یا ملازمت کا ویزا نہیں ہے اس کے لیے خطرات ہیں کہ اْسے گرفتار کر لیا جائے اور اْس پر غیر قانونی نقل مکانی کا مقدمہ قائم کرکے اْسے جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔
تھائی لینڈ نے اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی ایجنسی، یو این ایچ سی آر کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ظلم و ستم کی وجہ سے بھاگنے کا دعویٰ کرنے والوں کی ساکھ کے متعلق تحقیقات کریں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے وطن واپسی یا پھر کسی دوسرے ملک منتقلی کی صورت میں دو نتائج نکل سکتے ہیں‘ لیکن بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی سالوں سے اقوامِ متحدہ کی جانب سے اقدامات کے منتظر ہیں اور نہ وہ کوئی ملازمت کر سکتے ہیں، نہ تعلیم تک اْن کی رسائی ہے اور نہ ہی اْنہیں طبی سہولیات میسر ہیں۔ اپنے کیس کے نتائج کے انتظار میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی پناہ گْزینوں نے بنکاک کے نواح میں ٹاور بلاکس کے نیٹ ورک کے تنگ و تاریک کمروں میں اپنے عارضی گھر قائم کر لیے ہیں۔ وہ لوگ جو خوش حال زندگیاں گزار رہے تھے یہاں تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ پہنچے‘ اْن کا کرایہ اور کھانے کے خرچ کی ادائیگی مقامی عیسائی خیراتی اداروں کی جانب سے کی جاتی ہے اور وہ مسلسل خوف کی فضا میں رہ رہے ہیں۔ تھائی لینڈ کی نقل مکانی کے حوالے سے پولیس، اقوامِ متحدہ کی جانب سے پناہ گزینی کے منتظر افراد کے مقدمات کا عمل وقت پر مکمل نہ کرنے کی وجہ سے اپنا صبر کھو چکی ہے۔ ایک نوجوان شخص جس نے اپنے بازوؤں میں ایک 25 ماہ کی کمزور سی بچی تھام رکھی تھی، مجھے بتایا کہ 'وہ ہر جگہ سے لوگوں کو اْن کے کمروں سے اْٹھا کر لے جا رہے ہیں وہ کسی بھی وقت چھاپہ مار سکتے ہیں ہر وقت پریشانی سی رہتی ہے۔‘
میں نے سْنا کہ امیگریشن پولیس قریبی کمروں پر چھاپہ مار رہی ہے اس لیے میں سیدھا وہیں گیا اور میں نے دیکھا کہ درجنوں کی تعداد میں خواتین رو رہی ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے۔پولیس نے دروازوں کو توڑا اور اْن تمام خواتین کے شوہروں کو لے گئی۔ دوسرے رہائشی حصے سے خواتین اور بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ سب نے بتایا کہ 50 سے زائد پاکستانی پناہ گزینوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مجھے وہ ایک مقامی عدالت میں ملے جہاں اْنہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں، اْن پر غیر قانونی نقل مکانی کا مقدمہ قائم تھا، اْن پر 90 یورو کا جرمانہ عائد تھا اور اس کے بعد اْنہیں بنکاک کے حراستی مرکز بھیجا گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تمام رجسٹر شدہ پناہ کے خواہش مند افراد کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک دستاویز کا اجرا کیا گیا ہے، جس کے تحت تصدیق کی گئی ہے کہ 'وہ بین الاقوامی سطح پر اقوامِ متحدہ کے تسلیم شدہ افراد ہیں۔ ‘ (جاری)