تحفظ خواتین بل پاس ہونے کے بعد‘ تحفظ اراکین اسمبلی بل ضروری ہو گیا ہے۔ ہمارے ملاحضرات نے جس جذبہ انتقام اور غم و غصے کے ساتھ یہ بل پیش کرنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں پر حملہ کیا ہے‘ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ بل پیش اور اس کی حمایت کرنے والوں کابرا حال کیا جائے گا۔ ہم نے سوشل میڈیا میں کراچی ایئرپورٹ کا ایک منظر دیکھ کر اندازہ کر لیا ہے کہ ملا حضرات کو چھیڑنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ایک وفاقی وزیر جو کراچی ایئرپورٹ پر عام مسافروں کے نرغے میں آ گئے تھے اگر پولیس نہ ہوتی‘ تو یہ سوچ کر جھرجھری آ جاتی ہے کہ ان کا حال کیا ہو جاتا؟ مخالفانہ نعرے بازی بڑے جوش و خروش سے ہو رہی تھی۔ بعض باحوصلہ شرفا‘ اشتعال انگیز نعرے لگانے والوں کو روک رہے تھے۔ پولیس بھی ان کی مدد کر رہی تھی۔ یہ وی آئی پی لائونج تھا۔ خدانخواستہ عام مسافروں کا لائونج ہوتا‘ تومشتعل مسافروں نے‘ وزیرصاحب کو وہیں فرش پر لٹا دینا تھا۔ ان کی وہ درگت بنتی‘ جو ملتان میں پکڑے گئے ڈاکوئوں کی بنی تھی۔ ''دنیا نیوز‘‘ پر وہ تین ڈاکو بار بار دکھائے گئے‘ جو زیورات اور دولت لوٹنے آئے تھے۔ لیکن لاتیں‘ جوتے اور گھونسے کھا کر گرفتار ہو گئے۔ انہیں بار بار ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ بہت دنوں سے چوروں اور ڈاکوئوں کو سزائیں دینے کا عمل خود عوام نے شروع کر رکھا ہے۔ کراچی ہو یا لاہور‘ لوگ یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ ہاتھ آئے چور ڈاکو کو‘ خود ہی عبرتناک سزا دے دی جائے۔ پولیس پر بھروسہ کرنے کا کیا فائدہ؟
پْلیس نو آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی؟
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی؟
اب تک جتنے لوگوں نے خود چور ڈاکو پکڑ کے پولیس کے حوالے کئے ہیں‘ ان کا تجربہ یہی ہے کہ پکڑے گئے چوروں اور ڈاکوئوں نے چند ہی روز بعد آزاد ہو کر‘ پکڑنے والوں کی وہ درگت بنائی کہ چوروں کے بجائے‘ چور پکڑنے والوں کو عبرت حاصل کرنا پڑی۔
جن وفاقی وزیرصاحب نے پنجاب میں خواتین بل پاس ہونے پر بڑے فخر سے یہ کہا تھا کہ ہم مارنے والوں کے ساتھ نہیں‘ مار کھانے والوں کے ساتھ ہیں‘ اگلے ہی روز وہ کراچی ایئرپورٹ پر مار کھانے والوں کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ ایک طرف بپھرے ہوئے مسافروں کا ہجوم تھا‘ جو وزیرصاحب کا کچومر نکالنے پر تلا ہوا تھا اور دوسری طرف نیم دل پولیس تھی‘ جو بظاہر اس شش و پنج میں مبتلا نظر آ رہی تھی کہ وزیرصاحب کو بچانا چاہیے یا انہیں عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے؟ ٹی وی پر دکھائے گئے منظر کے مطابق آخرکار بپھرے ہوئے عوام نے فیصلہ کیا کہ مار کھانے والوں کے ساتھی وزیرکو چھوڑ ہی دینا چاہیے۔ چنانچہ آخری منظر میں دکھایا گیا ہے کہ وزیرصاحب کو جہاز میں بیٹھنے سے پہلے ایک گھونسہ جڑ ہی دیا گیا۔ پیمرا نے ‘میڈیا کو جو قانونی دھمکیاں دی ہیں اور جس طرح انہیں سزائیں دینے کا منصوبہ بنایا ہے‘ اس پر تو عمل درآمد کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ لیکن عوام نے تو سزائوں کی فہرست مرتب کر کے‘ ان پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے۔ وزراء حضرات کی خیریت اسی میں ہے کہ وہ کھلے عام عوام کے درمیان جانے سے پرہیز کیا کریں۔ خصوصاً ہوائی اڈوں پر ممتاز اور بااختیار شہریوں والے لائونج میں جانا پڑے‘ تو اپنے تحفظ کا انتظام کر لیں اور جب تک ایسا انتظام نہ ہو‘ تحفظ خواتین بل سے مدد لے لیا کریں۔ ایسے وزیرصاحب‘ جنہوں نے چھاتی ٹھونک کر اعلان کیا ہے کہ ہم مار کھانے والوں کے ساتھ ہیں۔ ان کا اشارہ خواتین کے ساتھ ہے‘ جن کے تحفظ کے لئے حال میں پنجاب اسمبلی نے ایک بل پاس کیا ہے۔ جس کے تحت ایسے قوانین نافذ کئے جائیں گے‘ جو خواتین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف استعمال ہوں گے۔
پولیس تو ان قوانین کو بعد میں استعمال کرے گی‘ مولانا فضل الرحمن نے پہلے ان کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ وہ برسرعام وزیراعلیٰ پنجاب کو زن مرید کہہ کر طرح طرح کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق جو شوہر ‘ خواتین پر تشدد نہ کرے یا ایسا کرنے کے مواقع ضائع کرے‘ وہ زن مرید ہے۔ مولانا اتنے اشتعال کے عالم میں ہیں کہ اگر انہیں موقع ملا‘ تو وہ ہر کسی کی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔ ان کے بیانات سے تو یوں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر شوہروں نے اپنی بیویوں کو پیٹنا شروع نہ کیا‘ تو ملا حضرات ایک نئی مہم کا آغاز کر دیں گے اور وہ یہ کہ جہاں انہیں کوئی لڑتی بھڑتی بیوی نظر آئی‘ وہ رضاکارانہ طور پر آگے بڑھ کر‘ اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔ ملا حضرات پہلے ہی غیظ و غضب کا شکار ہیں۔ ان کے سدھائے ہوئے کارندوں نے عام آدمیوں کو بے تحاشا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ سکولوں کے بچے‘ ان سے محفوظ نہیں۔ یونیورسٹیاں ان سے محفوظ نہیں۔ شاپنگ سنٹر‘ ان سے محفوظ نہیں۔ مساجد میں گئے ہوئے مردوزن‘ ان سے محفوظ نہیں۔لوگ پہلے ہی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ تحفظ خواتین بل
نے‘ عوام کو مزید غیرمحفوظ کر دیا ہے۔ انہوںنے یہ باور کر لیا ہے کہ تحفظ خواتین بل پاس کرنے والے‘ سب کے سب زن مرید ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تو یوں مزے لے لے کرطنز کرتے ہیں کہ جیسے اس بل کی حمایت میں ووٹ دینے والے سب کے سب زن مرید ہیں۔ حد یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کا نام لے کر‘ وہ انہیں زن مرید ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ مولانا نے تحفظ خواتین بل کے خلاف جس طرح مہم چلائی ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارپیٹ کے معاملے میں میاں بیوی کے بیچ پولیس آ جانے پر‘ وہ شدیدخوفزدگی کا شکار ہیں۔ انہیں غصہ ہے کہ پولیس کو بیویوں کی مدد کرنے کا حق کیوں مل گیا؟ ان سے بیویوں کو مارنے کی آزادی کیوں چھین لی گئی؟ مجھے شک ہے کہ ہمارے ملا حضرات‘ بیویوں کی مارپٹائی کرنے کے لئے سرکاری مدد کے طلب گار تھے۔ جب سے تحفظ خواتین کا بل پاس ہوا ہے‘ مولانا حضرات بہانے بہانے سے خواتین اور ان کے حامیوں کو چھیڑ رہے ہیں۔ ملا حضرات اپنا مقام اور رتبہ دیکھیں اور وہ خواہشیں دیکھیں‘ جو وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف سے کر رہے ہیں۔صاف پتہ چل رہا ہے کہ ان کا دل وزیراعلیٰ کی بیگمات کو پٹتے ہوئے دیکھنے کو بے تاب ہے۔ لیکن مولانا خاطر جمع رکھیں۔ بل کے حق میں ووٹ دینے والا کوئی منتخب رکن‘ ان کے طعنوں سے اشتعال میں نہیں آئے گا۔ مہذب معاشرے میں بیگمات پر تشدد کرنے والے انسانوں کو باعزت اور تمیزدار سمجھا جاتا ہے۔ خواتین پر ہاتھ اٹھانے والے شخص کو‘ بنیادی اخلاقی پابندیوں سے بے نیازسمجھا جاتا ہے۔ خواتین کون ہیں؟ انہی میں ہماری مائیں اوربہنیں شامل ہیں۔ انہی میں ہماری بیٹیاں ہیں۔ جس رشتے کے تحت ملاحضرات‘ عورتوں پر تشدد کی آزادی مانگتے ہیں‘ وہ صرف ایک ہے۔ یعنی بیویاں۔ آپ مولانا حضرات کے بیانات پڑھ کے دیکھ لیں‘ وہ مہذب اور تمیزدار شہریوں کی طرح بیگمات پرتشدد سے پرہیز کرنے والوں کو بڑے فخر سے طنزیہ انداز میں زن مرید قرار دے رہے ہیں۔ بیویوں کو پیٹنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ مولانا کے تمام دلائل اور مطالبات سن کر یوں لگتا ہے کہ بیویوں کو پیٹنے پر پابندی لگنے سے وہ کسی حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی خواہش یہ لگتی ہے کہ ان سے بیوی کو پیٹنے کا حق نہ چھینا جائے۔ وہ جب چاہیں‘ راہ چلتی بیوی سے چھیڑخانی کریں اور وہ غصے میں آئے‘ تو اس کی پٹائی کر دیں۔
''اپنی بیوی کی؟‘‘
''نہیں۔ کسی کی بیوی بھی ہو!‘‘
''مولانا ایسے لگتے تو نہیں۔‘‘
''ان کے انداز اور لہجے کو غور سے دیکھئے اور پھر سوچئے کہ وہ لگتے ہیں یا نہیں؟‘‘