ہم چپ رہے۔کسی نے پابندی نہیں لگائی۔ہم نے کوئی خبر نہیں چھاپی۔ ہم نے کوئی سچائی بیان نہیں کی۔ پھر بھی ہمارے دفتروں پر حملے ہوئے۔ دروازے اور فرنیچر توڑا گیا۔ صحافیوں پر تشدد کیا گیالیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اس کا جرم کیا ہے؟ حد یہ ہے کہ کوئی اخبار یہ نہیں چھاپ سکا کہ ان کے دفتروں پر حملے کس نے کئے تھے؟ کیوں کئے تھے؟ حملہ آور کون تھے؟ گزشتہ روز نیٹ پر لندن کا اخبار'' ٹیلی گراف‘‘ پڑھا تو اس میں ایک رپورٹ تھی‘ جس سے پتہ چلا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار نے انہیں 9گولیاں مار کے ہلاک کر دیا تھا۔ اہلکار کو پاکستانی قانون کے مطابق جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔ بریڈ فورڈ میں امام مسجد محمد عاصم حسین نے بتایا کہ انہیںاپنے فیس بک ایڈریس پر1لاکھ36ہزار تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں۔''یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس روز غازی ممتاز کوپھانسی دینے کا غلط اقدام کیا گیا۔ اس نے اللہ کی راہ میں جان دی۔ اس نے جو بھی کیا (یعنی سلمان تاثیر کو گولی ماری) وہ اس نے ناموس رسالتؐ کے تحفظ میں کیا‘‘۔ممتاز قادری پاکستان کی ایلیٹ فورس کے رکن تھے۔ان پر ڈسپلن اور قانون کی پابندیاںتھیں لیکن انہوں نے اللہ کی راہ میں سب کچھ بھلا کر‘ سلمان تاثیر کو ہلاک کر دیا‘ جن کی حفاظت پر وہ مامور تھا۔ممتاز قادری ایک تھا مگر کون جانتا ہے؟ کہ سیکورٹی فورسز میں اور کتنے لوگ اسی طرح کے بہادر اور شہادت کے لئے بے تاب ہوں۔ہماری مسلح افواج ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر چند اور ممتازقادری پیدا ہو جائیں اورانہیں مولوی حضرات کی تقریریں سن کر یقین آجائے کہ پاکستانی عوام اپنے گناہوں کی وجہ سے واجب القتل ہیں تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ میں اسی سوال پر آکر چپ ہو گیا۔ اس موضوع پر لکھ بھی نہیں سکتا۔ لکھوں گا تو چھپ نہیں سکتا۔ میں یہ دعا بھی نہیں مانگ سکتا کہ ہماری سیکورٹی فو رسز میں کوئی دوسرا ممتازقادری جنم نہ لے۔ جس طرح ممتاز قادری کی عزت و تعظیم کی گئی ہے‘ اسے دیکھ کر تو یہی بہتر لگتا ہے کہ میں خدا سے دعا مانگو ںکہ ہماری سیکورٹی فورسز میں مزید ممتاز قادری پیدا ہو جائیں اور میرے وطن میں اسلام کا بول بالا ہو جائے۔
میں نے حال میں داعش کے بارے میں ایک رپورٹ پڑھی ہے۔ اس کے مطابق ‘داعش نے سینکڑوں جوان یزیدی لڑکیاں اور عورتیںا پنے زیر قبضہ شہروں سے اغوا کیں اور انہیں مختلف ممالک میں سمگل کر دیا گیا‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔داعش کے زیر کنٹرول ایک شہر کے میئر نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ دہشت گردو ں کا گروپ‘ جوان لڑکیوں اور عورتوں کے لئے10ہزار پائونڈ تک وصول کر رہا ہے۔ یزیدی عورتوں اورلڑکیوں کوداعش کے دارالحکومت میں باقاعدہ نیلامی کے لئے پیش کر کے بولی لگائی جاتی ہے۔ سودے کی دلکشی اور خوبصورتی دکھانے کے لئے ان لڑکیوں کو بے لباس کر کے‘ بلند جگہ پر کھڑا کیا جاتا ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کی نمائش کریں۔شمالی عراق سے اٹھائی گئی درجنوں عورتوں کو مختلف ملکوں میں بیچا گیا۔ ان میں افغانستان‘ لبیا اور چیچنیا بھی شامل ہیں۔ وہاں انہیں جسم فروشی کے لئے بھی رکھا جاتا ہے اور ان کی حیثیت غلاموں اور لونڈیوں کی ہوتی ہے۔
جوان لڑکیوں اور عورتوں کو اٹھانے کے لئے ان کے گائوں یا شہر وںپر حملے کر کے غیر مسلح مرد آبادی کو قتل کر کے ان کی خواتین کو اغوا کر لی جاتی ہیں۔ایک یزیدی گائوں شنگال کے میئر نے بتایا کہ ان کے شہروں سے اٹھائی گئی عورتوں کو بیرون ملک فروخت کرنے کے علاوہ قریبی شہروں‘ موصل اور تل افار میں لے جا کر بیچ دیا گیا اور وہاں سے انہیں مجاہدین کے مضبوط مراکز میں منتقل کر دیا گیا۔ داعش کے شام میںدارالخلافہ رقہ میں بھی جوان لڑکیوں اور عورتوں کو کپڑے اتار کے ان کی بولیاں لگتی ہیں اور وہ مظلوم عورت یا لڑکی سب سے زیادہ بولی دینے والے کے حوالے کر دی جاتی ہے ۔ بولی کے لئے مقید کی گئی لڑکیوں اور خواتین کو سیل فون کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اپنے زندہ ہونے کی خبر دیں اور بتائیں کہ ان کی بازیابی کے لئے کتنی رقم لے کر انہیں کہاں آنا ہے؟ جس لڑکی یا خاتون کے ورثا تاوان کی رقم لے کر حاضر ہو جاتے ہیں لڑکی یا خاتون کو اہل خاندان کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق6ہزار لڑکیوں کو داعش نے اغوا کر کے صوبے سنجار میں منتقل کیا۔ان میں سے4ہزار لڑکیاں ابھی تک دہشت گردوں کی قید میں ہیں۔ کردستان کی علاقائی حکومت کے ایک اہلکار حسین کورو نے بتایا کہ بہت سی مغوی عورتوں کے ورثا تاوان دینے کے لئے پہنچے لیکن جولوگ تاوان دینے آئے تھے وہ اپنی مغویوں کی شناخت کی تصدیق نہ کر سکے اور تاوان اد اکئے بغیر لوٹ گئے۔بہت سے ورثا اپنی بیٹی یا بہن تک نہیں پہنچ پائے کیونکہ انہیں دھوکے بازوں نے پیسے کے لالچ میں بہکایا۔ بہت سے لٹ گئے اور جن میں ہمت تھی وہ بچ نکلے۔اسلامی ریاست کے میگزین ''دابزق‘‘ میں ایک جہادی دلہن نے اقرار کیا کہ'' جہادی دلہنیں‘ اصل میں غلام اور جسم فروش ہیں۔‘‘جہادی بتاتے ہیں کہ خوفناک جنسی جرائم ان کا طرز زندگی ہے۔ایک جہادی دلہن جس کا نام ام سماریہ المہاریہ ہے نے اپنی بہن کو دعوت دی کہ وہ شام میں آکراسلامی ریاست کے کسی مجاہد کی بیوی بن جائے۔ مقبوضہ علاقوں میں اسلامی ریاست کے مجاہدین یزیدیوں کو قیدی بنا کر انہیں انتخاب کا موقع دیتے ہیں کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا موت‘‘۔
اس رپورٹ کو پڑھ کر مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف اگرپاک فوج کاآپریشن خدانخواستہ پوری طرح سے کامیاب نہ ہو سکے تو میرا کیا بنے گا دوستو!۔ ہمارے میڈیا میں ٹاویں ٹاویں خبر آتی ہے کہ داعش نے پاکستان میں اپنی جڑیں پھیلانا شروع کر دی ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کی طرف سے کبھی تردید آجاتی ہے اور کبھی تصدیق کہ داعش پاکستان میں آرہی ہے۔ اگر پاکستان میں آرہی ہے تو لاہور میں بھی آئے گی اور لاہور میںآگئی تو میرا کیا بنے گا دوستو! ابھی ممتازقادری کے پیروکاروں نے میڈیا کو صرف ''خراج تحسین‘‘ پیش کیا ہے۔ ہم اسی پر فکر مند ہو رہے ہیں۔ جب انہوں نے صاف الفاظ میں ''دعوت ‘‘ دینا شروع کر دی کہ ''حضرت قادری کی امامت قبول کروگے یا میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کی گولی؟‘‘ تو میرا کیا بنے گا دوستو! دعوت قبول کرنے کی تیاری کروں یا گولی کھانے کی؟ عاجز آکر صرف اللہ سے دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ! ہماری پاک فوج کو سلامت رکھ اور کامیابی عطا فرما۔ قبل اس کے کہ وہ ممتازقادری کی راہ پر چل نکلے۔وہ بھی تو سیکورٹی فورس کا اہلکار تھا۔
گزشتہ روز جن لوگوں نے میڈیا کے دفاتر میں جا کر دھوم مچائی‘اثاثوں کی توڑ پھوڑ کی‘ جو صحافی ہاتھ لگا اس کی بھی تواضع کر ڈالی۔حتی کہ ہمارے پہلوان ٹائپ فورم انچارج رانا عظیم بھی دھر لئے گئے۔ مجھے تو ہمیشہ امید رہی کہ رانا صاحب کی شکایت آئے گی کہ '' انہوں نے کسی کو زدوکوب کر کے ہسپتال پہنچا دیا۔‘‘مگر جن لوگوں نے میڈیا کے دفاتر پر حملے کئے ‘ ان کا تو پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کون ہیں؟ ہمارے وزیرداخلہ نے بھی لاعلمی کا اظہار کر دیا۔میڈیا کے ساتھی کہاں فریاد کریں؟ کس کے پاس جائیں؟ اور میرا کیا بنے گا دوستو! میں تو ایک مضحمل اور بیمار سا آدمی ہوں۔ جوش ایمان سے بھرے ہوئے کسی گروہ نے مجھے گھیر لیا تو میرا کیا بنے گا؟ چوہدری نثار علی خان نے تو صاف جواب دے دیا کہ انہیں میڈیا پر حملے کرنے والوں کا کوئی علم نہیں۔