ایک پراسرار کہانی۔ جس کا انجام‘ اچانک سامنے آ گیا۔ جیسے الفریڈہچکوک کی کسی فلم کا آغاز ہو۔ جس میں انجام حیرت انگیز انداز میں ناظرین کو دکھا کر‘ دھچکا لگا دیا گیا ہو۔ پھرساری فلم دیر تک ہچکولے کھاتے کھاتے اپنے انجام تک گئی ہو اور آخر میں جا کے پہلا سین دہرا کر‘ کہانی ختم کر دی گئی ہو۔ ایسا ہی سلمان شہباز کے ساتھ ہوا۔ کہانی گلبرگ لاہور سے اچانک شروع ہوئی اور بلوچستان کے ایک گائوں کچلاک میں بالکل اسی طرح ختم ہوئی‘ جیسے شروع ہوئی تھی۔ گلبرگ کی ایک سڑک سے‘ دن دیہاڑے ‘ سلمان تاثیر کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا۔ بعد میںحسب معمول میڈیا میں شورمچا۔ ایجنسیوں کے حوالے سے مرحلہ وار خبریں آتی گئیں۔ دن گزرتے گئے اور پھر سلمان تاثیر کی یاد اور غم دونوں‘ ان کے محل نما گھر کی دیواروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ ایک ماں تھی‘ جو ہر شب آنسو بہاتی ۔ ایک بیوی تھی‘ جو اپنی تنہائی کے بستر پر دہکتی راتوں میں کروٹیں بدلتی۔ ایک بھائی تھا‘ جو کبھی اپنے دائیں کندھے کی طرف دیکھتا اور کبھی بائیں کندھے کی طرف۔ دونوں کندھے خالی تھے۔ ایک بہن تھی‘ جس کے آنسو اور آہیں‘ اس کی تنہائی کی طرح خالی تھے۔ جدائی اور غم کے ساتھ ساتھ‘ اس چھوٹے سے خاندان کو انتظار کی ہر وقت سلگتی اذیت میں جینا پڑا۔ میڈیا کے بولنے اور لکھنے والوں نے‘ بڑی آسانی کے ساتھ ساڑھے چار سال کا عرصہ بتا دیا۔میڈیا کی نظر میں یہ محض چند لفظ تھے۔ مگر جس خاندان پر یہ عرصہ گزرا‘ اس کے لئے روز کا جینا اور روز کا مرنا تھا۔آج لاہور اور اپنے خاندان میں‘ شہباز کا پہلا دن ہے۔ ابھی تو اس نے گھر کے ایک ایک فرد کی جدائی کے علیحدہ علیحدہ پھولوں کو چھو کر بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ابھی وہ جدائی میں ڈوبی ہوئی محبتیں سمیٹ رہا ہو گا۔ اپنے آپ کو یقین دلا رہا ہو گا کہ خوشیوں کے یہ لمحے اسے واقعی نصیب ہو گئے ہیں۔ وہ برصغیرکے عظیم استاد‘ شاعر اور محفلوں کے شگفتہ شہزادے‘ ایم ڈی تاثیر کا پوتا ہے اور ان کے محفل ساز فرزند‘ سلمان تاثیر کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ سلمان سے میری دوستی اکیلے پن کی تھی۔ اس کے گھر میں بھی آنا جانا تھا۔ مگر ہم ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر اپنی پسند کے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے‘ تبادلہ خیال کرتے۔ میں اپنی بونگی ٹائپ باتیں کرتا اور سلمان علم و خبر سے آراستہ گفتگو کے گل کھلاتا۔ مشروب کے ساتھ ساتھ ہمیں گھر کے اندر سے گرما گرم غذائیں‘ قسطوں میں مہیا ہوتی رہتیں۔ میرے لئے سلمان کا گھر اسی ایک کمرے تک محدود تھا یا بہار کے موسم میں کبھی کبھار‘ اس کے سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھ کر گپ شپ کی جاتی۔ قربت بہت تھی۔ لیکن صرف سلمان کی ذات تک۔ اہل خانہ سے کوئی خاص میل جول نہیں تھا۔ سلمان جب گورنرہائوس میں تھا‘ تو سرکاری ذرائع سے اطلاع ملی کہ دہشت گردوں نے مجھے آخری سفر پر بھیجنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ متعدد ذرائع سے یہی ایک خبر موصول ہوئی۔ ان ذرائع میں ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ جب چاروں طرف سے مصدقہ خبریں آنے لگیں‘ تو مجھے ماہرین کا مشورہ ملا کہ میں چند روز کے لئے اپنے گھر جانابند کر دوں۔ میں نے سلمان سے اس کا ذکر کیا‘ تو اس نے فوراً کہا کہ ''بہتر ہے ‘ تمہیں جیل میں ڈال دوں۔‘‘ میں حیران ہوا۔ سلمان نے جواب دیا کہ ''تمہیں بوریا بستر اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی کتاب پڑھتے ہو‘ تو اپنے ساتھ لے کر یہیں گورنرہائوس میں منتقل ہو جائو۔ یہاں مہمانوں کی رہائش کے لئے کئی کمرے ہیں۔ ان میں سے ایک کمرے پر قبضہ جمائو اور مفت کے کھانے اڑائو۔‘‘ میں اپنی کار کے ساتھ گورنرہائوس منتقل ہو گیا اور قریباً ڈیڑھ مہینہ وہیں قیام کیا۔ دوسرے تیسرے دن‘ سلمان چائے پر بلاتا اور اپنی روایتی دلکش ہنسی کے ساتھ کہتا ''تم تو زندہ ہو۔‘‘ افسوس! اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد‘ سلمان کا سانحہ ہوا اور اس کے بعد سلمان کبھی نہ ملا اور میں اسے کبھی نہ کہہ سکا کہ ''تم تو زندہ ہو۔‘‘
مجھے سلمان کے اغواشدہ بیٹے ‘ شہبازتاثیر کی بازیابی کی انگنت کہانیوں میں‘ ہمیشہ ایک مختلف کہانی چھلکتی دکھائی دیتی رہی۔ کچلاک کی کہانی‘ میڈیا کے نمائندوں اور ''ذرائع ‘‘ کی طرف سے جابجا پھیلے ہوئے ٹوٹے ''اتفاقات‘‘ نظر آتے ہیں۔ کچھ ٹوٹے میں نے بھی جوڑے ہیں۔ ان جڑے ہوئے ٹوٹوں میں‘ مجھے وہ رابطے اور ٹیلیفونوں کے سلسلے عام نظر آتے ہیں‘ جن کے ذریعے سلمان کے اہل خاندان کے ساتھ سودے بازی کی گئی۔یہ ایک جداگانہ کہانی کے ٹوٹے تھے‘ جن میں کبھی اربوں کی رقم مانگی جاتی‘ جو آخر میں کروڑوں تک جا پہنچی۔ رقم میں کمی بیشی کا انحصار ‘ میدان جنگ میں رونما ہونے والے واقعات سے تھا۔ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں‘ جیسے جیسے اغواکاروں کی تلاش میں مشکوک مقامات کے قریب پہنچتیں‘ تو اغوا کار‘ شہباز کو لے کر کسی اور کمین گاہ کی طرف منتقل ہو جاتے۔ ایجنسیوں کی جستجو اور اغوا کاروں کی روپوشیوں میں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ اغوا کار نشانے کی زدپر نہیں آئے اور ایجنسیاں انہیں یقینی نرغے میں نہ لے سکیں۔ اس طرح وہ بھی بھاگتے اور چھپتے رہے اور ایجنسیوں کے لوگوں نے بھی‘ اس احتیاط کے ساتھ جستجو جاری رکھی کہ اغوا کاروں کواس طرح نشانے پر نہ رکھا جائے کہ شہبازتاثیر کو نقصان پہنچے۔ آنکھ مچولی کا یہ کھیل‘ ضرب عضب تک آسانی سے جاری رہا۔ مگر جیسے ہی پاک فوج نے ضرب عضب کا آغاز کیا‘ تو دہشت گردوں کی کھلی چھوٹ ختم ہو گئی۔ اب جس طرف بھی وہ
جاتے‘ فوج کی گولیاں‘ چنگاریاں چھوڑتی دکھائی دیتیں۔ توپوں سے گولے نکلتے نظر آتے اور آسمان سے برستی آگ‘ انہیں جھلسانے کے لئے لپک رہی ہوتی۔ اغواکاروںنے اپنے مغوی کو لے کر راہ فرار اختیار کی۔ یہ کہانی مفرور دہشت گردوں میں گردش کرتی رہی۔ کئی جگہ شہباز کے سودے ہوئے۔ کوئی نہیں جانتا کس گروہ نے اسے کتنے میں خریدا؟ دوسری طرف اغوا کار‘ سلمان کی فیملی سے سودے بازی میں لگے رہے۔ میرا قیاس یہ کہتا ہے کہ شہبازتاثیر کی زندگی کو خطرے میں دیکھ کر فیملی‘ تاوان کی رقم کو اربوں سے کم کرتے کرتے دسیوں کروڑوں تک لائی۔ دوسری طرف اغواکاروں کے حوصلے پست ہوتے گئے۔ آخرکار انہوں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق‘ جو چند کروڑ پیش کئے گئے‘ وہی لے کر شہباز کو کچلاک کے ہوٹل پر چھوڑا اور جان بچا کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب کچلاک کے ہوٹل میں اکیلے پائے جانے والے شہباز کو دیکھ کر‘ اس کی تلاش میں سرگرداں سکیورٹی کے جاں فروش آن پہنچے اور اس کے بعد کہانی میڈیا کے ہاتھ لگ گئی۔ میں شہباز کی بازیابی کا کریڈٹ اس کی فیملی اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو دوں گا۔ فیملی نے اغوا کاروں کے ساتھ سودے بازی میں ‘ انہیں مایوس نہیں ہونے دیا۔ اربوں روپے کے جو مطالبے وہ کر رہے تھے۔ انہیں پورا کرنا بھی فیملی کے اختیار میں نہیں تھا۔ کسی بھی سرمایہ کار کے پاس‘ اربوں کی نقدی نہیں ہوتی۔ اثاثوں میں پھنسی ہوتی ہے۔ اچانک موت کی آغوش میں جانے والا شخص اپنے خاندان کو ان رقوم کی تفصیل نہیں بتا سکتا۔ اس کے باوجود سلمان کی فیملی نے اغواکاروں کے ساتھ سودے بازی میں انتہائی کامیابی سے وقت کو ٹالا اور ایسا موقع نہیں آنے دیا کہ اغوا کار پوری طرح مایوس ہو کر‘ شہباز کو زندگی سے محروم کر دیتے۔اس کا زندہ سلامت رہنا‘ شہباز کی غمزدہ ماں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور کمانڈروں کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ شہباز کی بازیابی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ ‘سلمان کا غم ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گیا ہو گا۔ خوشی اور غم کے ملے جلے آنسوئوں میں‘ یہ خاندان طویل مدت کے بعد یکجا ہوا ہے۔ بیشک وہ اپنی خوشیوں میں سب کو شریک کر رہے ہیں۔ لیکن جو ملے جلے جذبات ان کے دلوں کے اندر ہیں‘ انہیں کوئی دوسرا محسوس نہیں کر سکتا۔ کئی دن‘ کئی ہفتے‘ کئی مہینے وہ انہی جذبات کے ساتھ رہیں گے اور پھر زندگی معمول پر آ جائے گی۔ مگر سلمان تاثیر کے پسماندگان کی زندگی کتنی قیمت ادا کر کے معمول پر آئی ہے؟ اسے صرف وہی جانتے ہیں۔ میں نے لکھ تو دیا ہے کہ زندگی معمول پر آ جائے گی۔ لیکن کیا معلوم ‘کب آئے؟سلمان تاثیر کے قاتل کو شہباز کی بازیابی سے‘ تھوڑے ہی دن پہلے پھانسی دی گئی تھی۔ لیکن بڑے آدمی کے چھوٹے بیٹے‘ آتش تاثیر نے کہا ''خون کے بدلے خون پر کوئی خوشی نہیں منائی جا سکتی۔‘‘ یہ بات ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کا پوتا اور سلمان تاثیر کا بیٹا ہی کہہ سکتا ہے۔