شائقین کرکٹ‘ پاکستانی کرکٹ کو ایم کیو ایم کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے دیکھ کر یقیناً افسردہ ہیں‘ لیکن میدان میں کھیلنے والی ٹیم کے بارے میں آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ سب کے سب بہت خوش ہیں۔ آدھے اس بات پر خوش ہیں کہ شعیب ملک کا گروپ ہار گیا‘ اور باقی آدھے اس پر کہ شعیب ملک کا مخالف گروپ ہار گیا۔ ہار پوری ٹیم کی ہوئی لیکن شکست کی خوشی اس نے آدھی آدھی بانٹ لی۔ وہ بھی مزے میں ہیں اور ہم بھی مزے میں۔ رہ گئے پاکستانی عوام تو ان کے لئے خوشی کی وجہ ٹی وی چینلز پر چلتے ہوئے وہ اشتہار ہیں‘ جن میں ہمارے قومی ہیروز خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ چائے کی چسکی لیتے‘ بیوریج پی کر ڈکاریں مارتے‘ شیمپو لگا کر جھومتے‘ سیفٹی ریزر سے شیو کرتے‘ موٹر سائیکل چلاتے‘ فاسٹ فوڈ کھاتے اور طرح طرح کی فضول حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شروع میں اشتہاری کمپنیوں کی توجہ کھیلوں کی طرف مرکوز نہ تھی‘ مگر کرکٹ نے جیسے جیسے زور پکڑا‘ اشتہاری کمپنیاں بھی اس کی طرف متوجہ ہونے لگیں۔ وہی کھلاڑی جو ملک کی عزت اور وقار کے لئے محنت سے کھیل میں نام پیدا کیا کرتے تھے‘ اب اشتہاری کمپنیوں کی توجہ حاصل کرنے پر لگ گئے ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں اس کھلاڑی کی طرف کثرت سے متوجہ ہوتی ہیں‘ جو لڑکیوں میں زیادہ مقبول ہو۔ لیکن لڑکیوں میں یہی مقبولیت اب کھلاڑیوں کے لئے وبال جان بھی بننے لگی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی کھلاڑی ویرات کوہلی ہے‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیشنل کرکٹ میں ہیرو بن کے ابھرے۔ اس بھارتی کھلاڑی پر بھارت کی مقبول ترین اداکارہ‘ انوشکا فریفتہ ہو گئی اور پھر ایسی لپٹی جیسے ناگن‘ ناگ کو لپٹتی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر دونوں کے مداح ان سے نظریں پھیرنے لگے۔ شائقین کرکٹ‘ جو کوہلی کے دیوانے تھے‘ انوشکا کی وجہ سے خفا ہو گئے اور انوشکا کے پرستار‘ کوہلی کو رقیب سمجھ کر‘ اس سے منہ پھیرنے لگے۔ دونوں نے جب دیکھا کہ یہ عشق تو ہم کو مار دے گا‘ تو فوراً چوکنا ہوئے اور اپنا اپنا کیریئر بچانے کے لئے یا تو بالکل ایک دوسرے سے لاتعلق ہو گئے یا اپنے عشق کو سات پردوں کے پیچھے لے گئے۔ بہرحال دونوں نے اپنے اپنے پرستاروں کا غم و غصہ ٹھنڈا کر دیا‘ اور اب اپنے اپنے شعبے میں زبردست مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ویرات کوہلی کھیل میں اس درجے پر آ گیا ہے کہ لوگ اس کے کپتان بننے کی پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں‘ اور انوشکا کی فلم نے گزشتہ سال تین سو ارب روپے سے زیادہ کا بزنس کر کے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔
ہمارے کپتان‘ شاہد خان آفریدی اپنے زمانے میں کرکٹ کی دنیا کے ہیرو تھے۔ آج ہی ''بی بی سی اردو‘‘ میں ایک کشمیری لڑکی‘ صباح حاجی کا قصہ شائع ہوا‘ جو کچھ یوں ہے: ''سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میرے قریبی ہی نہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی شاہد خان عرف شاہد آفریدی عرف لالہ کے لیے میرا شرمندگی کی حد تک کا جنون‘ جان گئے ہیں۔ ایک بار ممبئی میں ایک تقریب میں (جس کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں تھا) شاہد آفریدی سے میرا تعارف میزبان نے ''شاہد آفریدی فین کلب کی صدر‘‘ کے طور پر کروایا تھا۔وہ ٹویٹر پر لالہ کے لیے میری دیوانگی جانتے تھے۔ مجھے لگا کہ ان کی رائے بہت مختلف نہیں تھی تاہم اور لوگ بھی آفریدی کے پرستار ہونے کا اعزاز جیتنے کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔ (ان کے لیے میں کہوں گی اور زور دے کر کہتی ہوں کہ گیند روکنے کے لیے دائیں ٹانگ اندر رکھ کر‘ کھڑے ہونے کا آفریدی کا سٹائل انتہائی خوبصورت ہوتا ہے‘ جو کبھی عجیب سا لگتا تھا۔ اس سے بڑی دلیل ہے کوئی؟) میری زندگی میں بہت سے مشکل دور آئے۔ اس دوران برسوں سے جمع کیے آفریدی کے پرانے دھندلے ویڈیوز بار بار دیکھتی تھی۔ اپنے دکھ اور خوف سے نکلنے میں‘ وہ بہت مددگار
تھے۔ میرے لیے 1996ء میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے میں‘ 37 گیندوں پر آفریدی کی دنیا کی سب سے تیز سنچری بہت بڑی بات تھی۔ (اب یہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے‘ لیکن مجھے دیکھئے‘ میں پروا نہیں کرتی) پھر حال ہی میں ایشیا کپ 2014ء میں بھارت اور پھر فائنل میں بنگلہ دیش کے خلاف ان کے چکا چوند کر دینے والے وہ چھکے یادگار ہیں جو فتح کا باعث بنے۔ مجھے سب سے عمدہ انتخاب میں انتہائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ نیٹ پر‘ لالہ اور ان کی کرکٹ پر‘ ہزاروں مونتاژ اور گیتوں کی بنیاد پر تیار کیے ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ ایک بار جب آفریدی شاندار طریقے سے چمکنے لگتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ تاریکی کا وقت آپ کو یا کسی کو بھی کیسے مایوس کر سکتا ہے۔ کس طرح کوئی کھیل میں آفریدی کے جادو اور پاگل پن پر شک کر سکتا ہے؟ اور پھر وہی تاریکی والا وقت آ جاتا ہے۔ دیکھئے‘ میں آفریدی کی بہت بڑی پرستار ہوں۔ جیسے میری بہن‘ جیسے میرا خاندان اور کرکٹ کو چاہنے والے بہت سے دیگر کشمیری۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں پاگل پن کی حد تک چاہنے والے پاکستان میں بھی ہیں‘ چاہے انہوں نے حال میں یہ بیان ہی کیوں نہ دیا ہو کہ ''میں پاکستان سے زیادہ محبت بھارت میں پاتا ہوں‘‘۔ جب انہوں نے ایک صحافی سے کہا کہ وہ ''گھٹیا‘‘ سوال نہ پوچھیں تو اس کا مطلب میں سمجھتی ہوں۔ (میں کئی دن اس پر ہنستی رہی‘ زیادہ تر ان کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے)۔ میں نے اس ستارے کو تب سے دیکھا ہے‘ جب وہ 90ء کی دہائی میں کرکٹ کی دنیا میں‘ زبردست طریقے سے ابھرا تھا۔ (اس وقت ایک انتہائی بورنگ مذاق چلتا تھا۔ ''ابھی وہ 17 سال کا ہی ہے! ہاہا!‘‘)۔ اب وہ کبھی کبھار ہی مخالفین پر اس طرح جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ لالہ کا بلے باز سے لیگ سپنر اور پھر فتح گر آل راؤنڈر بننے کا سفر‘ میرے بچپن سے جوانی کے سفر کا اہم حصہ رہا ہے۔ کتنا بہترین فیلڈر‘ کتنا مزیدار آدمی‘ کتنا باتونی شخص ہے یہ۔ اسے دیکھا گوتم گمبھیر کو فیلڈ سے رخصت کرتے ہوئے؟ آفریدی کی فارم اتنی غیر یقینی ہے کہ جب بھی وہ بلا تھامتے ہیں تو میرے اور مجھ جیسے لاکھوں لوگ جوش اور جذبے سے شرابور ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ان کے کسی بھی میچ کے لیے کہی جا سکتی ہے۔ ان میچوں کے لیے بھی جن میں وہ کچھ کرنے سے پہلے ہی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ ایک پل میں وہ اپنے ملک کی امیدیں توڑتے ہیں‘ وہیں کبھی وہ کچھ ایسا شاندار اور ناقابلِ یقین کر ڈالتے ہیں کہ آپ اگلی بار کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اصل میں یہی اس کا مزا ہے (پھر وہ دیکھنے میں بھی تو اچھے ہیں!)‘‘
ایک کشمیری لڑکی‘ جو اب یقیناً معزز خاتون ہو چکی ہو گی‘ نے شاہد آفریدی کے کھیل میں اونچ نیچ کا قصہ بیان کیا ہے۔ یہی کچھ پاکستان کی ان بدنصیب لڑکیوں کے ساتھ ‘ہوا ہو گا اور سب لڑکیوں سے زیادہ پاکستانی قوم کے ساتھ ہوا ہے۔ جن لوگو ں نے ہماری سہولت کے لئے ریکارڈ جمع کر کے رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی محنت کا نتیجہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاہد آفریدی نے کرکٹ کے کھیل میں جو کارنامے سرانجام دیے ہیں‘ ان کا عرصہ انتہائی مختصر ہے۔ یہی وہ عرصہ ہے‘ جس میں کمائے ہوئے نام اور شہرت کے بل پر‘ آفریدی دولت بھی کما رہے ہیں اور شہرت بھی بیچ رہے ہیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج وہی آفریدی‘ پاکستانی کرکٹ پر ایک بوجھ بن گئے ہیں۔ مختلف وجوہ کی بنا پر وہ پاکستانی کرکٹ میں گھس بیٹھئے بنے ہوئے ہیں۔ ماضی کی شہرت کی طاقت استعمال کر کے‘ وہ پاکستانی کرکٹ کی انتظامیہ کو دبائو میں لائے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف کرکٹ کی انتظامیہ بھی ایسی اناڑی ہوتی ہے کہ آفریدی کی پرانی شہرت کی چکا چوند سے دبائو میں آ جاتی ہے۔ بے شک شہریار خان کا کرکٹ کے گھرانے سے گہرا تعلق ہے۔ ان کے بھائی‘ انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ضرور رہے ہیں لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے ویرات کوہلی کا کوئی بھائی کرکٹ کی دنیا میں اکڑا پھرتا ہو۔ پھر بھی شہریار خان کا گھرانہ‘ عزت دار ہے مگر اب یہ عزت بھارت میں رہ گئی ہے۔ لیکن خان صاحب ہمارے لئے باعث عزت ہیں۔ نجم سیٹھی نے انہیں برائے نام چیئرمین کرکٹ بورڈ بنا کر کونے میں پھینک رکھا ہے۔ اصل طاقت ان کے پاس ہے۔ کرکٹ میں نجم سیٹھی کو نہ کوئی جانتا تھا اور نہ ہی نجم سیٹھی کسی کو جانتے ہیں۔ 2013ء کی عبوری حکومت کے دوران انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ ملی۔ چیف منسٹر ہائوس کا دفتر انہیں دے دیا گیا تھا۔ باقی سارے کام رائیونڈ میں ہوئے۔ ''خدا نے ن لیگ کو کامیابی عطا فرمائی‘‘۔ نجم سیٹھی اس کامیابی کا اعزاز اپنے گلے میں ڈال کر کرکٹ کے گلو بٹ بن گئے اور ہماری ٹیم پر ایسا ڈنڈا چلایا کہ کرکٹ سٹیڈیم جانے والا ہر کھلاڑی‘ ماڈل ٹائون کی گرائونڈ میں کھڑی ہوئی کاروں اور موٹر سائیکلوں کی طرح پھٹڑ ہو گیا۔ ہماری آج کی کرکٹ ٹیم انہی کھلاڑیو ں پر مشتمل ہے جو گلو بٹ کے ڈنڈوں کا مزا لے چکے ہیں۔