"NNC" (space) message & send to 7575

نہیں‘ کالے دن نہیں

میں پاکستان کے عیسائی لیڈروں کی تحسین کرتا ہوں کہ انہوں نے27مارچ کے سانحہ کو مذہبی تصادم کا نام دینے سے گریز کیا۔ درجن سے زیادہ لاشیں اٹھا کر اپنے گھروں کو لے گئے اور قریباً اتنی ہی ہسپتالوں کے اندر بکھری پڑی ہیں اور جب ورثا لینے کے لئے جاتے ہیں‘ تو انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہیں یہ لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ملیں گی۔ لیکن انہیں لیڈروں نے سمجھا دیا ہے کہ وہ اس سانحے کو اپنی کمیونٹی کے خلاف نفرت کا اظہار نہ قرار دیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک اور مذہبی سانحے سے محفوظ رہ گیا۔ تفصیلات منظرعام پر آنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ جماعت الاحرار کالاہور میں چوتھا حملہ تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان‘ جماعت الاحرار کا گزشتہ دو سالوں میں یہ چوتھا حملہ ہے‘ جس کی انہوں نے براہ راست ذمہ داری قبول کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے نہ تو عوامی مقامات پر حملے کرنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اس گروہ کی بڑے شہروں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت میں کوئی خاص کمی آئی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے اگست 2014ء میں علیحدہ ہونے کے فوراً بعد نومبر میں اس نے پہلا بڑا حملہ لاہور کے قریب ہی واقع واہگہ بارڈر پر کیا تھا‘ جس میں 50 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔ یہ حملہ بھی پریڈ گرائونڈ سے 600میٹر دور عوامی مقام پر ہوا‘ جس میں جانی نقصان کافی زیادہ رہا۔ اس واقعے کی ذمہ داری جند اللہ نامی ایک تنظیم کے گروپ نے قبول کی تھی لیکن جماعت الاحرار کے ترجمان‘ احسان اللہ احسان نے کہا تھا کہ وہ اس حملے کی ویڈیو جاری کریں گے اور انہوں نے یہ حملہ وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے جواب میں کیا تھا۔ چند روز بعد اس گروپ نے امن کمیٹی کے اراکین کو مہمند ایجنسی میں نشانہ بنایا‘ جس میں 6 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ برس مارچ میں اس نے لاہور کے یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر حملے کئے ‘جس سے 15افراد ہلاک ہوئے۔ اس گروپ نے حال میں لاہور کے گلشن اقبال پارک میں کارروائی کی‘ جہاں مسیحی برادری کو‘ جو ایسٹرکا تہوار منانے کے لئے جمع تھی‘ ہدف بنایا۔ لیکن اس گروپ کو لاہور میں مذہبی فسادات پھیلانے کی مذموم کوشش میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ یاد رہے‘ یوحنا آباد میں مذہبی فساد کی آگ بھڑکا نے کی کوشش کی گئی تھی‘ جو بری طرح ناکام رہی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ممتاز قادری کے حامی گروپ کی کارروائی ہو سکتی ہے‘ جس نے ان کی پھانسی کے نتیجے میں ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کسی گروپ کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ کارروائی قادری کے چہلم کے دن ہوئی‘ جس کی وجہ سے اس کا ذمہ دار قادری گروپ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ القاعدہ کے کئی زیرزمین گروپ بھی سرگرم ہیں۔ انہیں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ممتاز وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ حکومت کو مدرسوں کے معاملے میں گومگو کی پالیسی ترک کرنا پڑے گی۔ کیونکہ لوگ اب آدھا جھوٹ‘ آدھا سچ قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے ''بی بی سی‘‘ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ پنجاب میں بھی دینی مدارس اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعلق موجود ہے۔ اگرچہ حکومتی وزراء کا اصرار ہے کہ مدرسوں میں عسکریت پسندی نہیں پائی جاتی۔ لیکن جب دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے‘ اس کے تانے بانے مدرسوں سے جا ملتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت مدرسوں کے معاملے میں مبہم حکمت عملی ختم کرے کیونکہ اس سے لوگوں کا حکومت پر اعتبار ختم ہو رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے اتوار کے واقعات میں دہشت گرد تنظیموں کی کارفرمائی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ اسی دن اسلام آباد میں ہزاروں افراد کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور سلمان تاثیر کے محافظ کی پھانسی کے درمیان کوئی تعلق پایا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ تعلق بالکل واضح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ ممتاز قادری کی پھانسی کا ردعمل ہے۔ یہ معاملہ کئی دنوں سے چل رہا تھا اور ابال بڑھ رہا تھا۔ ممتاز قادری کے حامیوں کا کہنا تھا کہ کئی افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے‘ جبکہ بعض مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ کیونکہ انہی دنوں ایسے مجرموں کی پھانسی پر عملدرآمد نہیں کیا گیا‘ جن کی تاریخ آ چکی تھی۔ جبکہ ممتاز قادری کے معاملے میں‘ سزا پر کوئی دیر نہیں لگائی گئی۔ عاصمہ جہانگیر کے بقول اگرچہ لوگوں کی اکثریت اس فیصلے کو منصفانہ قرار دیتی ہے۔ چونکہ ممتاز قادری کے حامیوں اور مذہبی طبقات کے پاس احتجاج کا دوسرا بہانہ نہیں بچا تھا‘ اس لئے انہوں نے ممتاز قادری کی پھانسی کو جواز بنا کر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ مظاہرین اس معاملے کو احتجاج بنا کر‘ ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت‘ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کرتی‘ تو اسے سختی سے کچل دیا جاتا۔ یہ مظاہرے‘ وہ لوگ کر رہے ہیں‘ جنہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ اس لئے لوگ ان پر تنقیدکرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح نہیں۔ ''ایک طرف وہ کہتے ہیں اچھے برے طالبان میں کوئی فرق نہیں کیا جا رہا۔ لیکن دوسری طرف حکومت کے اپنے ادارے ‘طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے نظر آتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تمام دہشت گردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو مکمل آزادی ملی ہوئی ہے‘ جو مذہب کو استعمال کر کے‘ لوگوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت واقعی دہشت گردی اور انتہاپسندی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے تو انہیں مدرسوں پر سختی کرنا پڑے گی۔‘‘ عاصمہ جہانگیر نے کہا ''پاکستان میںاصل فیصلے فوج کرتی ہے اور فوج کے ہاں شفافیت نہیں پائی جاتی۔اسی لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کادایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے اور بایاں ہاتھ کدھر جا رہا ہے؟ دہشت گردی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اورحکومت کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ کیونکہ فوج ہر چیز کا کریڈٹ لے لیتی ہے۔ لیکن جب دہشتگردی کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ردعمل سامنے آتا ہے ‘تو الزام سویلین حکومت پر لگا دیا جاتا ہے۔‘‘ عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا ''سویلین آئینی حکومت جاری ہے اور ہر فوجی آپریشن کی نگرانی سول حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔ کیونکہ آپریشن کی آڑ میں فوج ‘ طاقت اپنے ہاتھ رکھنا چاہتی ہے۔ اگر فوج طاقت اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے ‘تو ملک میںایک مرتبہ پھر بحران پیدا ہو جائے گا اور ہم اسی مقام پر کھڑے ہوں گے‘ جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔‘‘ ایک بہت بڑا گروپ پنجاب میں رینجرز کے دائرہ کار میں وسعت پر جو خیال آرائیاں کر رہا ہے‘ میں اس کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتا۔ فوج کا موجودہ کردار بھی امن و امان کی بحالی تک محدود رہنا چاہیے۔ جو لوگ اپنی خواہشات فوج کے ذریعے پوری کرنے کے خواہشمند ہیں‘ درحقیقت وہ موجودہ جمہوری حکومت کو ہٹا کر‘ غیرجمہوری قوتوں کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ آمریت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ریڈزون کا دھرنا ہو یا گلشن اقبال کا بم دھماکہ‘ ان دونوں کی آڑ میں دہشت گردوں کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں