عرصہ ہوا پاکستان میں کرکٹ نہیں ہو رہی۔ کرکٹ پر بحث ہو رہی ہے۔ ہر بحث کی طرح یہ بحث بھی چلتے چلتے لڑائی تک آ پہنچی ہے۔جیسے میں نے کل بھی لکھا تھا کہ ہر کوئی ایک دوسرے کی پگڑی اتارنے پر لگا ہے اور جس کی پگڑی اترنے والی ہو‘ وہ الگ اپنے سر کو چھپاتا ہوا پھر رہا ہے۔ پگڑی اس کی بھی محفوظ نہیں‘ جو گھر پہ بیٹھا ہے اور اس کی بھی‘ جو قذافی سٹیڈیم کے دفتر یا میدان میں کہیں پایا جاتا ہے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں کرکٹ کا یہ چہرہ بھی دیکھوں گا۔ میں نے انٹرنیشنل کرکٹ کا پہلا ٹیسٹ میچ 1955 ء میں جم خانہ گرائونڈ میں دیکھا۔ یہ ہرا بھرا گرائونڈ تھا۔ میں بائونڈری کے قریب بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کن لگی‘ وہ نیوزی لینڈ کے بائونڈری پہ متعین کھلاڑی کا طرزعمل تھا۔ میں چائے کے وقفے کے بعد پہنچا تھا۔دھوپ ڈھل رہی تھی۔سورج مغرب کی طرف جانا شروع ہو گیا تھا۔ پاکستان کھیل رہا تھا۔ ہمارے ایک کھلاڑی نے اونچا شاٹ مارا۔ گیند بائونڈری لائن کے ذرا پار گری۔ امپائر نے چوکے کا اشارہ دے دیا۔ بائونڈری لائن پر بیٹھے تماشائیوں نے شور مچایا۔ امپائر دوڑتا ہوا ہمارے قریب پہنچا۔ اس نے گواہیاں مانگیں۔ مجھ سمیت سارے تماشائیوں نے بتایا کہ یہ چھکا تھا۔ امپائر نے واپس جا کر اعلان کر دیا کہ یہ چھکا تھا۔ آج کے زمانے کی طرح ری پلے کی سہولت‘ اس زمانے میں دستیاب نہیں تھی۔ لاہور میں زیادہ ٹیسٹ جم خانہ ہی کے گرائونڈ میںہوا کرتے۔ جم خانہ کا یہ گرائونڈ باغ جناح میں واقع تھا اور آج بھی ہے۔ آج بھی جم خانہ کے کھلاڑی وہیں پریکٹس کرتے ہیں۔ اب ایک مدت سے قذافی سٹیڈیم لاہور کا معروف سٹیڈیم ہے۔ اپنی جوانی میں زیادہ کرکٹ میچ میں نے وہیں دیکھے ہیں۔ آج میں نے کولکتہ کے ایک صحافی بوریا مجمدار کا مضمون دیکھا‘ جس میں دنیا کے معروف کرکٹ گرائونڈوں کی تعریف لکھی ہے۔ ظاہر ہے‘ زیادہ ذکر کولکتہ کے ‘ ایڈن گرائونڈ کا ہوا‘ جو شاید آج بھی دنیا میں نمبر ون ہے۔ چونکہ ان دنوں ہمیں‘ ٹی 20ورلڈ کپ میں یادگار شکست کا بخار چڑھا ہوا ہے اور ہم ایک دوسرے پر دھڑا دھڑ گرج برس رہے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر نے ٹائم دے رکھا ہے۔ میں انہی چند سطروں کے ساتھ ‘ مجمدار کا مضمون نقل کرتے ہوئے‘ ہسپتال کی طرف بھاگ رہا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ دنیا کے معروف کرکٹ گرائونڈوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے آپ کو مزہ آئے گا۔ شاید تکلیف بھی ہو۔ کیونکہ ہم اپنے ملک میں بہترین کرکٹ سٹیڈیمزمیں انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لطف سے قریباً 7سال پہلے محروم ہو چکے ہیں۔ اب تیسرے درجے کی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو مہنگے داموں اپنے ملک میں بلا کر ‘ پاکستانی شائقین کو زبردستی کا انٹرنیشنل میچ دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیموں سے کھیلنے کے لئے ‘ہمیں اپنے خرچ پر‘ دبئی اور شارجہ جانا پڑتا ہے۔ ہماری حالت مسافر کرکٹرز کی ہے۔ میں جن تین گرائونڈز کا ذکر کر رہا ہوں‘ وہاںکبھی ناغہ نہیں پڑا۔ ٹیسٹ میچ مسلسل ہوتے ہیں اور برسوں سے ہو رہے ہیں۔ ہماری گرائونڈوں کے مقابلے میں یہ تین گرائونڈیں خوش نصیب کہی جا سکتی ہیں‘ جہاں ٹیسٹ میچ باقاعدگی سے ہو رہے ہیں۔ جبکہ ہماری گرائونڈیں چوکوں‘ چھکوں اور ان پر بجنے والی تالیوں کے شور سے محروم ہیں۔
''اگر مجھے دنیا کے تین بہترین کرکٹ میدانوں کے نام بتانے کے لیے کہا جائے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا، لارڈز کرکٹ گرؤانڈ انگلینڈ، ایڈن گارڈن کولکتہ اور میلبرن کرکٹ گرؤانڈ آسٹریلیا۔ان تینوں میدانوں میں کھیلنے کی بات ہی کچھ اور ہے کہ جو دنیا کے کسی دوسرے اور میدان کی نہیں۔لارڈز کرکٹ گرؤانڈ، کرکٹ کا گھر ہے، ایڈن گارڈن میں تمائشائیوں کی تعداد اور جوش و خروش ‘ کسی اور میدان میں نہیں ملتا اور میلبرن کے گراونڈ کی ہیبت ہی ایسی ہے ‘جہاں کھیلنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ 1850ء اور 1860ء کی دہائی تھی‘ جب ایڈن گارڈن میں پہلی گیند کرائی گئی تھی۔ اس کے بعد 1933ء اور 1934ء کے سیزن میں یہاں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، جب انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم، ڈگلس جارڈن کی قیادت میں انڈیا کے دورے پر گئی تھی۔اس کے بعد سے اب تک ایڈن گارڈن نے بے شمار تاریخی اور بڑے میچ دیکھے ہیں۔ 1987ء کا ورلڈ کپ فائنل، 1989ء کا نہرو کپ فائنل، ہیرو کپ سیمی فائنل اور فائنل۔۔۔ اس سطح کے میچوں کی فہرست بہت طویل ہے۔تاریخ، روایت، احساسات اور جذبات ‘اگر آپ ان سب کو یکجا کریں تو آپ کو ایڈن گارڈن کے سحر کا اندازہ ہوگا، جو کہیں اور نہیں ملے گا۔اس کا ہیبت ناک حجم، تماشائیوں کی تعداد اور ان کے شور سے لرزتی ہوئی فضا اور تماشائیوں کا کرکٹ کے لیے غیر معمولی جنون، یہ سب اسی میدان کا خاصا ہیں۔ یہ سب عناصر اس میدان کو ایڈن گارڈن بناتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا جبکہ اس سٹیڈیم میں ‘ ایک لاکھ تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اسے اب کم کر کے ستر ہزار کر دیا گیا ہے لیکن یہاں جوش اور جنون میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔آپ انڈیا میں کرکٹ کا شوق رکھنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیں کہ اس کا پسندیدہ گرؤانڈ کونسا ہے؟ اس کا جواب ہوگا ایڈن گارڈن۔ ایڈن گارڈن میں اچھی کارکردگی یا سنچری کسی بھی کھلاڑی کے کیریئر کی معراج ہوتی ہے۔ اسی لیے ایڈن گارڈن انڈیا کا بہترین کرکٹ گرؤانڈہے۔
میرا تعلق کولکتہ سے ہے، اسی لیے یہ قدرتی امر ہے کہ میں نے بہت کم عمری ہی میں کرکٹ دیکھنی شروع کر دی تھی۔مجھے یاد ہے کہ 1979ء اور 1980ء کے سیزن میں میں پہلی مرتبہ ایڈن گارڈن گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک ایڈن گارڈن میں ہونے والا کوئی میچ میں نے چھوڑا نہیں۔ایڈن گارڈن میں کھیلے جانے والے کئی ایک میچ میرے یاد گار میچ ہیں۔1987ء کا ورلڈ کپ فائنل، ان میں سے ایک ہے۔ انڈیا اس میچ میں کھیل نہیں رہا تھا اور یہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہو رہا تھا۔ سٹیڈیم میں ایک لاکھ شائقین موجود تھے۔ گو کہ انڈیا نہیں کھیل رہا تھا لیکن کرکٹ ہو رہی تھی اور سب کو اس کا جنون تھا۔ایک اور یاد گار ترین میچ 1993ء کا ہیرو کپ سیمی فائنل ہے۔ یہ پہلا میچ تھا جو فلڈ لائٹس میں کھیلا جا رہا تھا۔ یہ میچ آدھی رات کے قریب ختم ہوا۔ سچن ٹنڈولکر کی جنوبی افریقہ کے خلاف نہ بھولنے والی اننگز۔ ہم خوشی سے پاگل ہو رہے تھے اور ہم نے اپنی قمیضیں اتار کر ان سے مشعلیں بنا لیں۔اس کے بعد 2001ء میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ ہنڈرڈ۔وی وی ایس لکشمن نے 281 رنز بنائے تھے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد گرؤانڈ میں موجود تھے۔ وہ انڈیا کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔ ذرا تصور کریں کہ آسٹریلوی کھلاڑی کتنے دباؤ میں ہوں گے؟ایڈن گارڈن پر میچ دیکھنے کا اپنا الگ ہی مزا ہے۔آج بھی جب میں کلب ہاؤس جاتا ہوں اور پریس باکس میں داخل ہوتا ہوں، اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ میچ دیکھتا ہوں، میکسیکن ویو یا شائقین جو لہریں بناتے ہیں، ایک سرے سے اٹھتی ہیں اور سٹیڈیم میں گھوم جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسا مسحور کن تجربہ ہے جو کہیں اور نہیں ملتا۔
ایڈن گارڈن میں شائقین کے ہنگاموں کی بھی ایک تاریخ ہے۔یہ 1960 ء کی دہائی میں شروع ہوتی ہے۔سب سے زیادہ بدنام زمانہ واقعہ 1967ء کا ہے۔ پولیس کو صورت حال قابو میں کرنے کے لیے، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کرنا پڑ گیا تھا۔ سر گیری سوبر اور ان کے ساتھ ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم کو میدان سے ‘اپنے ہوٹل تک بھاگ کر جانا پڑا تھا۔ انہیں بھاگنا پڑا کیونکہ انہیں یہ لگا کہ شائقین ان پر حملہ کر دیں گے۔ لیکن وہ ان کا نشانہ نہیں تھے۔ یہ مسئلہ سٹیڈیم میں گنجائش سے زیادہ شائقین کا تھا‘ جس سے ہنگامہ شروع ہوا اور لوگ مشتعل ہو گئے۔اس کے دو سال بعد 1969ء کی بھگدڑ میں چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔1999ء میں انڈیا اور پاکستان کے ٹیسٹ میچ کے دوران ‘پولیس کو سٹیڈیم خالی کرانا پڑگیا تھا اور پھر خالی سٹیڈیم میں میچ ہوا تھا۔ ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب سچن ٹنڈولکرکو غلط آؤٹ دے دیا گیا اور شائقین آپے سے باہر ہو گئے تھے۔لیکن اب سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ تلاشی کے ساتھ ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں؟ ان کی فہرست بھی واضح کر دی گئی ہے۔ جیسے کہ آپ پانی کی بوتل لے کر میدان میں نہیں جا سکتے اور آپ گرؤانڈکی طرف کچھ نہیں پھینک سکتے۔لہٰذا میرے خیال میں اب شائقین کی ہنگامہ آرائی کا کوئی امکان نہیں رہا۔ وہ دن اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔‘‘