لندن میں وزیراعظم پاکستان ‘جناب نوازشریف نے‘ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ'' ان کی حکومت کسی کو بھی ملک کی ترقی کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘ ظاہر ہے‘ سرمایہ داروں کی نگاہ میں ملک کی ترقی‘ ان کی اپنی ترقی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جتنی ترقی وہ اور ان کا خاندان کرے گا‘ درحقیقت وہ ملک کے اندر ہو گی‘ اس لئے وہ ملک کی ترقی ہے۔ پہلے تو میں اس خیال کا حامی تھا کہ ملک کے اندر جتنے لوگ بھی ترقی کرتے ہیں‘ وہ ہم سب کی ترقی ہے۔ لیکن اب یہ تصور بدلتا جا رہا ہے۔ جو لوگ ہر قیمت پر اور ہر جگہ اپنی ترقی پر زور دیتے ہیں‘ وہ اسی کو ملکی ترقی سمجھتے ہیں۔ مثلاً پاکستان سے دولت کما کر‘ پاناما میں جمع کر دی جائے‘ تو ہمارے حکمرانوں کی نظر میں وہ پاکستان کی ترقی ہے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے‘ کراچی کے بھتہ خوروں نے اپنے کاروبار کو فروغ دیا۔ اس مقصد کے لئے رینجرز کو ترغیب دی گئی تاکہ وہ بھتہ خوری ختم کرے۔ لیکن رینجرز نے پوری کوشش کے باوجود بھتہ خوری کا خاتمہ نہیں کیا۔ یہ وبا‘ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔حکمرانوں کے اس اصول کے تحت بہت سے لوگ‘ بہت سی دولت کما رہے ہیں۔ ہماری حکومت کابنیادی اصول یہ ہے ''جیسے چاہو‘ نوٹ کمائو۔‘‘ڈیرہ غازی خان کے ضلع راجن پور میں‘ نوٹ کمائو کے مخصوص علاقے میں کوئی سرکاری ادارہ موثر نہیں رہا۔ وہاں ایک چھوٹو گینگ آزادی سے اپنا کاروبار کرتا ہے۔ جس طرح ہمارے حکمران خاندان کو ہر طرح کی آزادی ہے۔ کوئی سرکاری محکمہ انہیں تنگ نہیں کرتا۔ کوئی پولیس‘ کوئی رینجرز ‘ ان کا ہاتھ روکنے کی جرأت نہیں کرتی۔ کوئی عدالت انہیں سزا نہیں دیتی۔ کیونکہ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ چھوٹو خاندان کو دولت بٹورنے سے روک سکے۔ شاہی خاندان کے بچے اور چھوٹوکے چیلے‘ بلاروک ٹوک دولت کما رہے ہیں۔ ہمارے حکمران خاندان کے بچوں کی دولت پاناما میں پکڑ لی گئی۔ ہمارے شاہی خاندان کے بچوں کے گرفت میں آتے ہی‘ ناجائز دولت کا تصور بدل دیا گیا۔اب وہ جائز کمائی ہے۔ ایک سرکاری ترجمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر عمران خان‘ ہمارے بچوں کے گھر پہ ‘مظاہرہ کرے گا‘ تو ہم اس کے بچوں کے گھر پر مظاہرہ کریں گے۔شاہی خاندان کے'' بچے‘‘ جو سن بلوغت سے آگے نکل چکے ہیں ‘ان کے بارے میں ایک آرڈی نینس تیار کیا جا رہا ہے‘ جس کے تحت شاہی خاندان کے بچوں کو 25 سال کی عمر تک‘ نابالغ رہنے کا حق دے دیا جائے گا۔ اس آرڈی نینس کے تحت حسن اور حسین دونوں نابالغ ٹھہریں گے۔ اگر ان میں سے کوئی سال دوسال اوپر ہو گیا‘ تو آرڈی نینس میں ترمیم کر کے‘ بلوغت کی حد بڑھا دی جائے گی۔ دنیا میں کوئی بھی دوسرا ملک‘ ہمارے قوانین کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اگر کسی بھی دوسری حکومت نے‘ یہ اعتراض کیا کہ بچے کو 25سال کی عمر میں نابالغ نہیںسمجھا جا سکتا‘ تو ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارے قانون کے مطابق 25سال کا نوجوان نابالغ ہے‘ کوئی دوسرا کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟ ہم ایسی مداخلت کے خلاف‘ اپنا کیس اقوام متحدہ میں لے جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ لوگ کشمیر پر ہمارا مطالبہ نہیں مان رہے‘ تو تھوڑی دیر کے لئے ہمیں کشمیر ہی دے دو تاکہ ہمارے بچے سکون سے ''بالغ ‘‘ہو سکیں۔ہمارے بچوں کو 50سال کی عمر تک نابالغ رہنے کا حق دیا جائے۔
ہمارے وزیراعظم نے لندن میں یہ بھی کہاکہ ''ہماری حکومت ملک کی ترقی کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘ اگر پاکستان کے حکمران خاندان کے بچے‘ 50 سال کی عمر تک دولت کمانے کے لئے نابالغ رہیں گے‘ تو ہماری ترقی کا راستہ نہیں روکا جا سکے گا۔ ہماری حکومت نے تو ترقی کرنے کے لئے‘ چارو ں شانے ‘ہندومت میں لت پت بھارتی وزیراعظم کو بھی پاکستان کے دوست کی حیثیت میں قبول کر لیا ہے۔ بھارت کے ساتھ موجودہ حکمرانوں کی نئی نئی محبت کے اثرات‘ کافی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر ‘دنبے اور بچھڑے سے بھی تگڑی این جی او ہضم کرنے والے‘ سابق صحافی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ''پاکستان کی پہلی کابینہ میں دو ہندو وزیر بھی شامل تھے۔ ایک جوگندر ناتھ منڈل اور ایک آئی آئی چندریگر۔‘‘موجودہ پالیسی کے تحت ‘ ہم چاہیں بھارت کو خوش کرنے کے لئے ‘ پاکستان کی پہلی کابینہ کے دو تین مزید وزیروں کو ہندو بنا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا بس چلے‘ تو وہ 1972ء سے پہلے کی ہر کابینہ کے دوچار وزیروں کو‘ ہندو قرار دے سکتی ہے۔ اس کا بس چلتا تو وہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے‘ سارے وزیروں کو ہندو کہہ سکتی تھی۔ جماعت اسلامی اور اسی طرز کے دوسرے ملائوں نے‘ عام شہریوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کے درجنوں کارخانے لگا رکھے ہیں۔ میں بھی اہل جماعت کے بعض ''صالحین‘‘ سے میل جول کر بیٹھا تھا لیکن اچانک میری آنکھیں کھل گئیں اور میں غیرمسلم ہونے سے بچ گیا۔ ویسے کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مجھے مناسب وقت پر ہندو بنا دیا جاتا‘ تو آج میرے لئے سنہری زمانہ آ گیا تھا۔ میں جیسے چاہتا اور جتنے چاہتا نوٹ کماتا‘ پاناما میں جمع کرتا اور مونچھوں کو تائو دے کر کہتا کہ یہ میری حق حلال کی کمائی ہے‘ کوئی مجھ سے اس کا حساب نہیں لے سکتا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میری مونچھیں ہی نہیں۔ میرے پاس تائو دینے کے لئے اور بھی کوئی چیز نہیں ۔
''حکومت نے کسی کو بھی ملک کی ترقی کا راستہ روکنے کی اجازت نہ دینے کی ٹھان رکھی ہے۔‘‘ پرانے اور دقیانوسی قوانین پر عمل درآمد کرنے والی انتظامیہ کے اہلکار‘ جنگلوں اور صحرائوں میں دھکے اور گولیاں کھا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ جنگلوں اور صحرائوں میں رہتے ہیں‘ اس لئے انہیں جنگل کی زندگی سے نجات دلانے کی خاطر‘ حکومت نے ان کے پیچھے پولیس اور رینجر لگا رکھی ہے۔ لیکن یہ مقابلہ برابر کا نہیں۔ ڈاکو‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پولیس اور فوج کو جائز سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں اور پھر تاوان لے کر حق حلال کی روٹی کھاتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے چھوٹو گینگ‘ پولیس اور رینجرز کے مشترکہ حملے کا سامنا کر رہا ہے۔ تادم تحریر 6پولیس اہلکار جام شہادت پی چکے ہیں۔ مسلح سرکاری فورسز کے 24 جوانوں کو یرغمال بنایا جا چکا ہے۔ 4 پولیس اور رینجرز کے زخمی اہلکاروں کو حملہ آور فورسز کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ کتنی شریفانہ لڑائی ہے؟ اس کا موازنہ اگر دہشت گردوں اور پولیس کے درمیان ہونے والے مقابلوں سے کیا جائے‘ تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ دہشت گرد پہلے اپنے آپ کو بم سے اڑاتے ہیں اور اسی بم سے پولیس اور شہریوں کو بھی مار دیتے ہیں۔ البتہ تناسب بڑا تکلیف دہ ہے۔ دہشت گرد ایک مرتا ہے اور سکیورٹی فورسز اور عوام کے درجنوں افراد کو اپنے ساتھ لے مرتا ہے۔ یہ سخت ناانصافی ہے۔ کیا آپ محسوس نہیں کر رہے ؟ کہ میرا دل پتھر کا ہو گیا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ 20برس سے جیسی حکومتوں کے تکلیف دہ زمانوں سے میں گزرا ہوں‘ اس میں زندہ رہ کر‘ انسانی احساسات باقی ہی نہیں رہتے۔ مجھے بھی عام انسانوں کے قتل پر کوئی رنج نہیں ہوتا۔ جو لوگ ہمارے حکمران بن کر بیٹھتے ہیں‘ ان کے دل بھی پتھروں کے بطن میں گھس بیٹھتے ہیں۔ یہ ایسی پناہ گاہ ہے‘ جہاں چھپنے والے پر‘باہر کی دنیا سے برسنے والے پتھروں کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے ہمارے وزیراعظم کی حالیہ تاریخی تقریر سنی ہو‘ تو ان کے چہرے پر سکون اور اطمینان دیکھ کر ‘ دہشت گردوں کا خیال آ گیا۔ دہشت گرد‘ دس پندرہ انسانوں کو مار کے مطمئن رہتا ہے۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم نے اربوں کی دولت اکٹھی کر کے‘ خدا جانے کتنے غریبوں کا لہو استعمال کیا ہوگا؟ کتنی مائوں کو بچہ پیدا کرنے سے پہلے مارا ہو گا؟ کتنے نوجوانوں کو لوہے کی بھٹیوں اور کوئلے کی کانوں میں مشقت کرتے ہوئے جانیں دینا پڑی ہوں گی؟ لیکن ترقی کا یہ تصور بہرحال غالب آ رہا ہے کہ ''ترقی کا راستہ روکنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘پاکستان کی ترقی نچوڑ کے‘ پاناماکے بینکوں میں جمع کرائی جاتی رہے گی۔ ووٹوں کے میلے لٹتے رہیںگے۔ حکومتیں بنتی رہیں گی۔ مگر انہیں گرانا مشکل ہو گا۔کم از کم میری عمر کے لوگ تو نہیں گرا سکیں گے اور میری عمر ہی کتنی باقی ہے؟