"NNC" (space) message & send to 7575

جادو کی جپھّی وغیرہ

''اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں تجزیہ ہے کہ ہماری جمہوری حکومت‘ فوج سے اپنے اختیارات واپس نہیں لے سکی۔کراچی میں امن و امان کی حالت دیکھتے ہوئے‘ وہاں کی لاچار حکومت کو مجبوراً اختیارات رینجرز کے ہاتھ میں دینا پڑے۔ اس بات کو تیسرا سال ختم ہونے کو ہے۔ نہ کراچی میں امن ہوا‘ نہ فوج واپس گئی۔ سچی بات ہے‘ فوج کی انتظامی صلاحیتیں ‘ سول حکومت سے بہتر ثابت ہوئیں۔ جمہوریت کے نام نہاد مدح خواںبھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رینجرز نے کراچی میں امن و امان کی بدترین حالت میں سدھار پیدا کیا۔ اس شہر میں‘ جہاں کوئی شہری گھر سے نکلتے وقت خود کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا‘ وہاں لوگ بغیرکسی خطرے کے شاپنگ کرنے لگے۔ تفریحی مقامات پر دوبارہ رونقیں لگ گئیں۔ مارکیٹیں کھل گئیں۔ خاندانی خریداریاں شروع ہو گئیں۔ مردوں اور بچوں کے ہجوم جا بجا ونڈوشاپنگ کرتے نظر آنے لگے۔ سینمائوں پر رش بڑھ گیا۔ بھتہ خوری کی شکایات بند ہو گئیں۔ دکاندار خود کو محفوظ سمجھنے لگے۔ ظاہر ہے‘ اس واضح تبدیلی نے ‘رائے عامہ کو رینجرز کے حق میں بدل دیا۔ اب کراچی کے کرپٹ حکمرانوں کو اختیارات کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ جتنے اختیارات سیاسی حکومت کے پاس چھوڑے گئے ہیں‘ وہ فوج کی دی ہوئی رعایت ہے۔ ورنہ سندھ اور کراچی کی رائے عامہ یہاں پر موجود حکومت کے خلاف ہے اور اگر فوج آگے بڑھ کر رسمی سا اعلان بھی کر دے‘ اسے کراچی کا کنٹرول سنبھالنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ جبکہ کراچی کے عوام بڑھ چڑھ کر فوج کا سواگت کریں گے۔ لیکن فوج کا اپنا فیصلہ ہے کہ اس مرتبہ وہ اقتدار پر قبضے کی حماقت نہیں کرے گی۔ جمہوریت کو پورا موقع دیا جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی جمہوریت اپنی طاقت عوام کے حق میں استعمال نہیں کرتی۔ بلکہ ذاتی دولت میں اضافے کے لئے‘ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لوگ پہلے ہی سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دونوں صوبوں میں اختیارات کس کے پاس ہیں؟ اور بغیر اختیارات کے ''حکومت ہماری ہے ‘‘کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی منتخب حکومت ‘پہلی مرتبہ اپنے صوبے میں عوام دوست اصلاحات نافذ کر رہی ہے۔ پولیس نے بتدریج نئے انتظامی ڈھانچے کے تحت کام سیکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اب تو ہمیں پنجاب میں بیٹھ کر باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ خیبرپختونخوا کی پولیس میں بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ وہاں پٹوار کا نظام بھی تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اپنے صوبے میں فوجی عمل دخل روکنے کے لئے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف شدید مزاحمت کر رہے تھے۔ صوبے میں امن و امان کی حالت روزبروز بگڑ رہی تھی۔ بادامی باغ اور یوحنا آباد میں کھلے عام عیسائیوں کے گھر جلائے گئے۔ گوجرہ میں پورے کے پورے گائوں جلا کے رکھ دیئے گئے۔ جھلس کر مرنے والوں میں مردوں کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ ان کی اب تک گنتی نہیں ہو پائی۔ تباہ حال خاندانوں کو امداد دینے کے دلاسے ضرور دیئے گئے۔ لیکن ان کی مدد کرنے کوئی نہیں آیا۔ دیہات میںڈاکے اور قتل و غارت گری روز کا معمول ہے۔ ن لیگ کے منتخب کارندے جو مقامی حکومتوں اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘ ان سب نے اپنے اپنے حلقے کو اپنا زیراقتدار علاقہ بنا رکھا ہے۔ کوئی شہری ان کی طاقت کے سامنے پر نہیں مار سکتا۔ انتخابات میں پولیس ‘ علاقائی چودھریوں کے ڈنڈے اور غنڈہ گردی ‘ اب مسلم لیگ کے روایتی انتخابی ہتھیاروں میں بدل چکے ہیں۔ دیہی علاقوں میں ڈاکو راج روزمرہ کا معمول ہے۔ راجن پور کے چھوٹو کی کہانی آج منظر عام پر آئی ہے۔ شہری آبادی کو اس کی طاقت کا اندازہ اب ہوا ہے۔ پولیس کو تو وہ خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا۔ وہاں کے افسروں اور سپاہیوں کی تقرریاں چھوٹو کی مرضی سے ہوتی تھیں۔ ان کے باہمی حساب کتاب برسرعام ہوا کرتے۔ فوج کی طرف سے جب اس کھلی لاقانونیت کو روکنے کی کوشش ہوئی‘ پنجاب کی حکومت نے سختی سے اس کی مزاحمت کی۔ حال میں چھوٹو کا ایک طاقتور گروپ سے تنازعہ ہوا‘ تو صوبائی حکومت نے حالات پر کنٹرول پانے کے لئے وہاں پولیس بھیجی۔ ظاہر ہے‘ چھوٹو کے تنخواہ دار‘ اس کے ساتھ کیا لڑائی کرتے؟ چھوٹو نے اپنے تنخواہ داروں کو لڑتے دیکھا‘ تو جوابی کارروائی کا حکم دیا۔ سات پولیس والے موقع پر جاں بحق ہو گئے اور 24 نے ہتھیار پھینک دیئے۔ صوبائی حکومت نے پورا زور لگا دیا لیکن چھوٹو گینگ پر وہ‘ اپنے ذرائع سے قابو نہ پا سکی۔ آخر مجبور ہو کر اسے فوج کی مدد مانگنا پڑی۔ فوج نے کارروائی شروع کی‘ تو اندازہ ہوا کہ ڈاکوئوں کا یہ گروپ کس طرح قلعہ بند ہو کر‘ حکومت کی مزاحمت کر رہا ہے؟ اس نے پانچ چھ دن تک ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح فوجی دستوں کی مزاحمت کی۔ آخر کار فوج نے مذاکرات کر کے‘ چھوٹو گینگ کو ہتھیار پھینکنے کے لئے تیار کیا۔ اب بھی اس کی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے یرغمالی پولیس والوں کو فوج کے حوالے کریںگے۔ ہم اپنے ہتھیار فوج کے سامنے پھینکیں گے۔ اب اس ڈیل پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ 
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ چھوٹو گینگ کے ساتھ تصادم سے پہلے لاہور میں گلشن اقبال پارک کا دھماکہ ہونے کے بعد ہی‘ فوج نے پنجاب کے حالات پر قابو پانے کے لئے عملی اقدام کا فیصلہ کر لیا تھا۔ غالباً بم دھماکے کے بعد ‘فوراً ہی فوج کے مقامی کمانڈروں نے ایک میٹنگ کر کے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہمیں پنجاب کی صورتحال زیادہ بگڑنے سے پہلے‘ خود قدم بڑھا کر‘ حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب چھوٹو کی مزاحمت اٹھارہ دنوں سے آگے نکلتی نظر آئی اور پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ چھوٹو پر قابو پانے میں ناکام رہی‘ تو فوج سے مدد مانگنا مجبوری بن گیا۔ جب فوج خود میدان میں اتری تو اسے اندازہ ہوا کہ چھوٹو نے کتنی طاقت جمع کر رکھی ہے؟ فوج کو بھاری اسلحہ لا کر‘ چھوٹو گینگ پر قابو پانا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ چھوٹو نے اپنی حفاظت کے لئے انتہائی مضبوط بنکر تعمیر کر رکھے تھے اور انتہائی طاقتور بم‘ ان بنکروں کو تباہ نہیں کر سکتے تھے۔ پنجاب کی حکومت نے اپنے حسن انتظام کا جو پراپیگنڈا کر رکھا تھا‘ اس کا بھید کھلنا شروع ہوا‘ تو تیزی سے کھلتا چلا گیا۔ گلشن اقبال کے بم دھماکے کا دھواں ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ چھوٹو اور پولیس کے مقابلے شروع ہو گئے۔ معاملہ صوبائی حکومت کے اختیار سے نکلتا معلوم ہوا‘ تو فوج نے مداخلت کر کے‘ باغیانہ سرگرمیوں پر قابو پایا۔ 
پرو یز مشرف کی حکومت ختم کر کے‘ آصف زرداری نے اقتدار سنبھالا‘ تو انہوں نے بھی سب سے پہلے فوج کو بنیادی پالیسیوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ پہلا قدم بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خاطر اٹھایا گیا۔ فوج نے فوراً ہی آگے بڑھ کر اس قدم کو روک دیا۔ لیکن آصف زرداری بھی بہت گہرے شخص ہیں۔ انہوں نے خاموشی سے اپنا قدم پیچھے ہٹا لیا۔ اس کے بعد جہاں بھی فوج نے کسی کام میں مداخلت کی‘ آصف زرداری کی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے بعد افتخار چودھری کو زرداری حکومت کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ انہوں نے ہر ممکن آئینی اور قانونی حملے کر کے‘ زرداری کو دفاعی پوزیشن میں ڈالا اور اس کے بعد تو موصوف خود سڑکوں پر آ گئے۔ وکلاء کی ایک ایسی تحریک شروع ہوئی‘ جس کے جلوسوں میں درحقیقت چند وکیل ہوا کرتے۔ میڈیا میں ان احتجاجی مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ لیکن کیا مجال ہے؟ آصف زرداری اشتعال میں آئے ہوں۔ وہ آخری دن تک‘ منتخب حکومت کے اقتدار کو محفوظ رکھتے آئے اور پھر اسے نوازشریف کے حوالے کر دیا۔ نوازشریف کو اپنے جمہوری دور میں منتخب حکومت کا اقتدار مستحکم کرنے کا جو موقع ملا تھا‘ وہ چاہتے تو بہتر حکمت عملی اختیار کر کے‘ جمہوریت کی طاقت میں اضافہ کر سکتے تھے۔ لیکن جیسا کہ میں لکھتا رہتا ہوں‘ میاں صاحب اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ عرصہ آرام سے نہیں رہ سکتے۔ وہ کہیں نہ کہیں ٹکر ضرور مارتے ہیں۔ یہی ہوا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی صرف چار نشستوں پر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ حقارت سے ٹھکرا کر‘ اپوزیشن کو ٹکر مار دی۔ جواب میں اپوزیشن نے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ میاں صاحب اتنے گھبرائے کہ اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ ان کی خوش نصیبی تھی کہ ساری پارٹیوں کی پارلیمانی طاقت ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور عمران خان کو اپنی ہی صفوں میں دھوکہ ہو گیا۔ نوازشریف کی حکومت نے قدم جما لئے اور جیسے ہی قدم جمے‘ ان کے رویئے میں تبدیلی آ گئی ۔ اس مرتبہ ان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے وزارت خزانہ کو بنئے کی طرح چلایا۔ جہاں بھی عوام کو معاشی ریلیف دینے کے مواقع آئے‘ ڈار صاحب نے ان سب کے فوائد تاجروں اور سرمایہ داروں کو منتقل کر دیئے۔ آج بھی ان کا یہی طرزعمل ہے۔ پاناما سکینڈل سے نمٹنے کے لئے انہوں نے سیاسی اور تکنیکی معاملات پر تحمل سے توجہ دینے کے بجائے‘ پھر ٹکر مار دی۔ ایسے سکینڈل مضبوط سے مضبوط حکومتوں کو بھی متزلزل کر دیتے ہیں۔ ڈار صاحب نے عالمی میڈیا کے سامنے‘ میاں صاحب کو جو خوشامدانہ جادو کی جپھّی ڈالی اور ڈالتے ہی چلے گئے‘ اس کا دنیا بھر میں مضحکہ اڑایا جا رہا ہے۔ یہی خوشامدانہ جپھّیاں ہیں‘ جو میاں صاحب کو سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتیں۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جمہوریت اور نوازشریف دونوں کی حفاظت کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں