"NNC" (space) message & send to 7575

ایسی بلندی‘ ایسی پستی

19اپریل کو پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف ‘جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف بیان دیا‘ تو جتنے چوروں کی داڑھیوں میں تنکے تھے‘ سب کے سب درد سے کراہتے نظر آئے۔ بعض سیاستدانوں نے دبی زبان میں یہ مطالبہ کیا کہ فوج میں بھی احتساب کا عمل ہونا چاہیے اور آج یہ خبر جاری کر کے کہ بدعنوانی کے الزام میں 11 فوجی افسروں کو برطرف کر دیا گیا ہے‘ فوج نے ترُت جواب سامنے رکھ دیا۔ یہ کوئی چھوٹی سی تطہیر نہیں۔ برطرف ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل‘ ایک میجرجنرل‘ چار بریگیڈیئر‘ ایک کرنل‘ تین لیفٹیننٹ کرنل اور ایک میجر شامل ہیں۔ گویا مختلف بدعنوانیوں کے الزامات میں فوج سے جتنے لوگوں کو نکالا گیا‘ان میں اکثریت اعلیٰ افسروں کی ہے۔ یاد رہے کہ فوج کے اندر احتساب کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس وقت بھی متعدد افسروں کے خلاف کارروائی کے سلسلے جاری ہیں۔ کرپشن میں لتھڑی ہوئی بیوروکریسی کا اول تو کوئی احتساب ہوتا نہیں اور ہوتا ہے‘ تو حکومت چوری کے مال میں حصہ پتی کر کے‘ مجرموں کو آزاد کر دیتی ہے۔ یہ کام ایک ادارہ کرتا ہے‘ جسے جنرل مشرف نے قائم کیا تھا۔ سیاسی حکومتوں نے نیب کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے ‘ اس کے سربراہ کی تقرری کا عجیب طریقہ کار اختیار کیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے آپس میں طے کیا کہ چیئرمین نیب کا تقرر ‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی رضامندی سے ہو گا۔ ماضی میں منتخب حکومتوں کے زمانوں میںکرپشن کرنے کے لئے بیوروکریٹس صرف حکمران پارٹی کی سرپرستی سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ اپوزیشن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا‘ جسے استعمال کر کے‘ وہ بیوروکریٹس سے فوائد حاصل کر سکے۔ اس بار جھگڑا ہی ختم کر دیا گیا۔ اپوزیشن کا شور اور تنقید بند کرنے کے لئے‘ حکمران جماعت نے اپوزیشن کے ساتھ طے کر لیا کہ آئو! بانٹ کر فائدے اٹھائیں۔طے یہ پایا کہ نیب کے چیئرمین کی تقرری حکمران پارٹی اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے ہو گی۔ 
یہ ایک شاندار انتظام تھا۔ اپوزیشن اور حکمران پارٹی کے اس اشتراک عمل کے نتیجے میں افسروں کے وارے نیارے ہو گئے۔ اعلیٰ گریڈوں کے افسر‘ سیدھے وزیراعظم سے پوسٹنگ لیتے اور جن کی وہاں رسائی نہ ہوتی‘ وہ اپوزیشن لیڈر کے پاس پہنچ جاتے۔ گویا کوئی بھی محروم نہ تھا۔ کرپشن کی دیگ میں سب کی پلیٹیں‘ پیالے بھرنے لگے۔ دونوں فریق اسمبلیوں میں اپنے اپنے منتخب اراکین کو جی بھر کے نوازتے۔ ان نوازشات کے نتیجے میں ہر پارٹی کے منتخب ممبران‘ اپنے اپنے حلقوں میں مرضی کے بااختیار افسروں کی تقرریاں کرا رہے ہیں۔ منتخب حکومتوں کے اختیارات فوجی آمروں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ہر فوجی آمر کو شدیداپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ جمہوری حکمران ‘ اقتدار کی دیگ میں سے ‘اپوزیشن کو بھی تھوڑا بہت حصہ دے رہے ہیں۔ ران اور دستی کی بوٹیاں ‘ مقتدر نمائندوں کے حصے میں آرہی ہیں اور پسلیوں اور چھیچھڑوں سے اپوزیشن فیض یاب ہو رہی ہے۔ کسی کسی بوٹی پر چھینا جھپٹی ہو جاتی ہے‘ تو عوام کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی زورآزمائی کا منظر دکھا دیا جاتا ہے۔ جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں اصولی لڑائی ہو رہی ہے‘ جبکہ اندر سے زوردار تقریروں کی وجہ‘ بوٹیوں کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے وزیرداخلہ ‘ شورمچانے والے اپوزیشن لیڈروں کو چپ کرانے کے لئے‘ حسب ضرورت دھمکی دیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری فائلیں میرے پاس رکھی ہیں۔ وقت آنے پر پول کھول دوں گا۔ جس پر عمران خان کہتے ہیں کہ تم سرکاری اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ مخالفت کی اداکاری کرنے والوں کو ڈراتے ہو۔ اگر واقعی تمہارے پاس ثبوت ہیں‘ توقصوروار مخالفین کے خلاف قانونی کارروائی کرو۔ جس پر وزیرداخلہ چپ ہو جاتے ہیں۔ 
یہ جمہوری تماشا بظاہر بڑے آرام سے چل رہا تھا‘ لیکن دوسری طرف حکومت ‘ عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہی تھی۔ دنیا بھر میں پٹرول سستا تھا۔ جبکہ پاکستانی عوام کو مہنگا دیا جاتا تھا۔ حد یہ تھی کہ ادھر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی آتی اور ادھر ہمارے وزیرخزانہ اس کی قیمت میں اضافہ کر دیتے۔ بجلی کی فراہمی میں جتنی کمی آتی‘ اس کے ریٹ اتنے ہی بڑھا دیئے جاتے۔ یہی صورتحال گیس کی ہے۔ گیس کی فراہمی میں کمی آتی جا رہی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے‘ ہمارے وزیرخزانہ نے یا تو کبھی غربت نہیں دیکھی یا پھر اتنی دولت نہیں دیکھی‘ جتنی پاکستان کے خزانے میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈار صاحب کے پاس خزانے کی دو وزارتیں ہیں۔ ایک ذاتی اور ایک رائیونڈ کی۔ تیسری وزارت خزانہ کے ساتھ ڈار صاحب سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اس کے اپنے ذرائع آمدنی کو بے بسی بلکہ بے رحمی سے یوں نظرانداز کیا جاتا ہے‘ جیسے عوامی خزانے سے کوئی انتقام لیا جا رہا ہو۔ جس تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ ہوتا ہے‘ اس سے زیادہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ دوسری طرف خزانے کی جن دو وزارتوں کو ڈار صاحب چلا رہے ہیں‘ ان کے وارے نیارے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ عالمی مالیات کی منڈی میں ایک دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے سے دنیا کے بیشتر ملکوں کی حکومتیں لڑکھڑا گئیں‘ بہت سی گر گئیں‘ بہت سی ڈگمگا رہی ہیں اور بہت سی بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔ 
ہماری حکومت ابھی تک ہاتھ پائوں مارنے میں مصروف ہے۔ لیکن یہ جتنے زیادہ ہاتھ پائوں مارتی ہے‘ اتنی ہی پھنستی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم نوازشریف کو تاریخ نے کم از کم تین مرتبہ قومی ہیرو بننے کا موقع دیا۔ ایک بار جب وہ آمریت کے سیاسی اثرات سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے‘ ان پر آمرانہ قوتوں کا دبائو زیادہ بڑھ گیا‘ تو انہوں نے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے‘ آمریت کی نشانیوں کو للکارتے ہوئے کہہ دیا کہ ''میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔‘‘ آمرانہ حکومتوں کے ستائے ہوئے عوام کو اس نعرے نے موہ لیا اور میاں صاحب نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے‘ عوامی مقبولیت کے راستے پر قدم رکھ دیا۔میاں صاحب کی زندگی میں دوسرا موقع وہ تھا‘ جب انہوں نے ایٹمی دھماکہ کر کے‘ دیرینہ قومی خواہشات کو پورا کر دکھایا۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی قیادتوں کو احساس ہوا کہ اب ہمارے درمیان کوئی فریق بھی جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ دو ایٹمی قوتیں نہ کبھی ٹکرائی ہیں‘ نہ ٹکرا سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ دوطرفہ تباہی کا ایک ایسا احمقانہ کھیل ہو گا‘ جس میں کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے عظیم لیڈر واجپائی نے‘ اس تاریخی لمحے کو حقیقت میں بدلنے کے لئے پاکستان کے دورے پر آنے کا فیصلہ کیا۔یہ تیسرا موقع تھا‘ جب بھارتی وزیراعظم واجپائی‘ پاکستان کے تاریخی دورے پر آئے اور دونوں وزرائے اعظم نے تنازعہ کشمیر کے ایسے حل پر اتفاق کیا‘ جو دونوں ملکوں کے مفاد میں تھا۔ اس وقت عالمی سیاسی حلقوں میں پیش گوئیاں ہونے لگیں کہ اگلے سال کا نوبل امن ایوارڈ ‘دونوں وزرائے اعظم کو مشترکہ طور پر ملے گا۔ وہ لمحہ جو برصغیر کی قسمت بدل سکتا تھا‘ میاں صاحب کی مٹھی سے پھسل گیا اور جو قد آوری تاریخ نے انہیں پیش کی تھی‘ میاں صاحب اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 
جب تک میاں صاحب خود اپنی مرضی کی سیاست کرتے رہے‘ کامیابیوں کی طرف ان کی پیش قدمی جاری رہی۔ جب ان کے اہل خاندان نے‘ سیاست میں مداخلت شروع کی توان کی توجہ سیاست سے ہٹ کر دولت کمانے پر مرکوز ہو گئی اور اس دن کی بنیاد پڑ گئی‘ جس نے پاناما لیکس کا طوفان برپا کر کے ‘میاں صاحب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جو کچھ میاں صاحب کو قدرت نے دیا‘ اسے وہ گنوا بیٹھے اور جو کچھ انہوں نے خود جمع کیا‘ آج وہ ان کے لئے بوجھ بن گیا ہے۔کہاں ایک قومی ہیرو؟ اور کہاں پیسہ بچانے کی خاطر ہاتھ پائوں مارنے والاایک عام آدمی!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں