"NNC" (space) message & send to 7575

معافی مانگ لیں

وزیر اعظم جناب نواز شریف نے وہ کام کر دکھایا‘ جو آج تک کوئی نہ کر سکا۔ مخالفین‘ کرپشن کو صرف حکمران خاندان کی بدعنوانی سمجھتے تھے۔ باقی جتنے بھی لوگ اقتدار میں آئے‘ ان میں سے کسی کے بارے میں چھان بین نہیں کی گئی کہ اقتدار میں آنے والے کس کس شخص نے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنی دولت کمائی؟ نواز شریف نے ایک ہی ماہ کے اندر‘ قوم سے اپنے تیسرے خطاب میں تحقیقات کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا ہے کہ ان کے خاندان تک پہنچنے سے پہلے سارے جج اور سپریم کورٹ کے بنائے ہوئے کمیشن کے سارے اراکین‘ اللہ کے فضل و کرم سے قبروں میں جا چکے ہوں گے‘ اور پھر بھی حکمران خاندان کے احتساب کا وقت نہیں آئے گا۔ جناب وزیر اعظم نے پورا انصاف کرنے کی خاطر ان سب لٹیروں کو احتساب کے دائرے میں لپیٹ لیا ہے‘ جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک آف شور کمپنیاں بنائیں‘ کرپشن کا پیسہ باہر بھیجا اور ایسے موجودہ و سابقہ حکمرانوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے گا‘ جنہوں نے قرضے معاف کرائے۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں‘ جنہیں نہ کبھی کسی بینک نے قرضہ دیا نہ میں نے پیسہ باہر بھیجا اور نہ ہی میں عدالتی کمیشن کے دائرہ اختیار میں آئوں گا۔ کوئی بینک میرا مقروض ہو تو ہو‘ میں کسی بینک کا مقروض نہیں۔ میں نے اس پر نہ صرف خدا کا شکر ادا کیا بلکہ اپنے بچوں کے حق میں دعائیں بھی کیں کہ کہیں وہ احتساب کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ جہاں تک مجھے پتہ ہے‘ میرے تینوں بیٹے قرض کی معیشت پر یقین رکھتے ہیں۔ تنخواہ میں کسی کی بھی گزر اوقات نہیں ہوتی۔ وہ مجھ سے جو قرض لیتے ہیں‘ وہ باپ کا مال سمجھ کے ہضم کر جاتے ہیں۔ 
اعتزاز احسن نے اپنی ایک انقلابی نظم میں لکھا ہے کہ ''ریاست ماں جیسی ہوتی ہے‘‘۔ جن لوگوں نے آج تک اپنے قرضے ماں کے نام پر لے کر ہضم کئے‘ وہ بھی غالباً کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔ ابھی تک اولاد جو کچھ ماں سے لیتی ہے‘ وہ اس کا جائز حق ہوتا ہے اور جو بچے ماں سے قرض لیں‘ اسے ہضم کر جانا اولاد کے فرائض میں شامل ہے۔ چونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے‘ اس لئے ریاست کا پیسہ کھانا کوئی جرم نہیں۔ ماں کے مال پر اولاد کا حق ہوتا ہے۔ اگر کمیشن نے شروع میں ہی جناب وزیر اعظم سے پوچھ لیا کہ آپ نے یہ دولت کہاں سے لی؟ اور وزیر اعظم نے جواب میں یہ موقف اختیار کر لیا کہ میں نے اپنی ساری دولت ماں سے لی ہے‘ تو کمیشن کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ بیٹے کے حق میں مداخلت کرے۔ ماں کا مال ہر بیٹے پر حلال ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت‘ اس رشتے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب نواز شریف لندن جانے والے تھے‘ تو انہوں نے جہاز کی سیڑھی میں والدہ محترمہ کو بٹھا کر ان سے پیار لیا تھا۔ اس ایک پیار میں میاں صاحب کو سکون اور اطمینان کی جو دولت عطا ہو گئی‘ اس کے مقابلے میں پاناما کے سارے کھاتے داروں کی جمع شدہ ساری دولت بھی حقیر ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کل کے اخباروں میں پھر یہ خبر شائع ہو گئی کہ میاں صاحب ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ کے مالک ہیں۔ لوگ تو پاناما کا حساب کتاب پوچھ رہے ہیں‘ پاکستانی میڈیا نے جو ڈیڑھ ارب روپیہ ‘ میاں صاحب کے کھاتے میں ڈھونڈ نکالا ہے‘ اگر وزیر اعظم اس کا حساب بھی دکھا دیں‘ تو عوام کا بھلا ہو گا اور انہیں تسلی بھی ہو جائے گی۔ ڈیڑھ ارب روپیہ کم نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم نے عدالتی کمیشن کی چھان بین کے لئے وقت کا جو سمندر سامنے رکھ دیا ہے‘ اس میں تو ہر سرمایہ دار اور ہر حکمران کے اثاثوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم قائد اعظمؒ کے بینک اکائونٹ میں کتنی رقم نکلی تھی؟ مگر کراچی اور لاہور میں ان کی جائیدادیں کروڑوں اور اربوں روپے کی ہیں۔ کیوں نہ قائد اعظمؒ کے اس سرمائے کی چھان بین کی جائے؟ ان کے اثاثے ہمارے وزیر اعظم سے کم ہی نکلیں گے۔ حالانکہ قائد اعظمؒ اپنے زمانے کے امرا میں شمار ہوتے تھے۔
شہید ملت لیاقت علی خان‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ اس وقت پاکستان میں بے تحاشا دولت پڑی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ شہید ملت نے پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ حالانکہ وہ چاہتے تو ہندوئوں اور سکھوں کی اربوں روپے کی جائیداد‘ یہاں لاوارث پڑی تھی۔ لیاقت علی خان کو کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی‘ جتنی چاہتے‘ دولت سمیٹ لیتے۔ مگر وہ عجیب آدمی تھے کہ شہادت کے بعد جب ان کے اثاثے دیکھے گئے‘ تو گھر بھی اپنا نہیں نکلا اور جیب سے جو رقم برآمد ہوئی‘ وہ غالباً تیس پینتیس روپے کے قریب تھی اور انہوں نے دہلی میں اپنی جو محل نما کوٹھی‘ نوزائیدہ ملک پاکستان کو بطور عطیہ دے دی تھی‘ اس میں آج بھی پاکستانی ہائی کمیشن قائم ہے اور اس پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے۔ اگر تحقیقاتی کمیشن نے قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے اثاثوں کا جائزہ لے لیا‘ تو دونوں کی روحیں شرمندہ ہوں گی‘ کیونکہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم کے مقابلے میں تو ان دونوں کے اثاثے بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ تو خیر عظیم شخصیتیں تھیں۔ پاکستان میں واقعی جن لوگوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں‘ وہ بھی اپنے اپنے زمانے کے انتہائی رئیس لوگ تھے۔ آج ہمیں ان کے نام بھی یاد نہیں‘ لیکن قوم کو یہ فائدہ ضرور ہو جائے گا کہ جتنے لوگوں سے بینکوں کی دولت برآمد ہو گی‘ وہ پاکستان کے کام آ جائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے سارے خزانے ڈار صاحب کو منتقل ہو جائیں۔
آئیے! مجوزہ عدالتی کمیشن کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیں۔ واضح رہے کہ عدالتی کمیشن کا جو دائرہ کار متعین کیا گیا ہے‘ اس کی حدود ساری دنیا میں پھیلی ہیں۔ مثلاً پاناما اور برطانیہ میں جا کر اسے چھان بین کرنا ہی پڑے گی‘ کیونکہ اس عدالتی کمیشن کے ذمہ داری ہے کہ وہ آف شور کمپنیوں میں موجود پاکستانیوں کی دولت کی تحقیقات کرے۔ اس کے علاوہ تمام سابقہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے‘ کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔ کمیشن کے ضابطہ کار کے تحت کہا گیا ہے کہ وہ حلف نامے پر دستاویزات وصول کرے گا‘ اور دستاویزات پیش کرنے والے شخص پر جرح بھی کی جا سکے گی۔ عدالتی کمیشن اپنے مقررہ وقت پر کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرنے کے بعد‘ کمیشن اپنی سربمہر رپورٹ‘ وفاقی حکومت کو پیش کرے گا۔ عدالتی کمیشن ان قرضوں کا بھی سراغ لگائے گا‘ جو سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے معاف کرائے
گئے۔ کمیشن کے سامنے وقت کا لامحدود سمندر پھیلا کر‘ اسے کہا گیا ہے کہ وہ اس میں سے مچھلیاں پکڑے۔ کمیشن اپنا عرصہ حیات پورا ہونے کے بعد جب نامکمل تحقیقاتی رپورٹیں چھوڑے گا‘ تو انہیں مکمل کرنے کے لئے اس وقت کی سپریم کورٹ‘ ایک اور کمیشن مقرر کرے گی۔ تحقیقات کا سلسلہ وہ نیا کمیشن پھر سے شروع کرے گا۔ یوں ایک کے بعد ایک کمیشن تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اگلی صدی میں اگر تحقیقات مکمل ہو گئیں‘ تو جس وزیر اعظم کی خدمت میں رپورٹ پیش کی جائے گی‘ وہ حیرت سے پوچھے گا کہ یہ کیا چیز ہے؟ جب اگلی صدی کا تحقیقاتی کمیشن اس رپورٹ کے بارے میں وزیر اعظم کو بریف کرے گا‘ تو وہ ان رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے لئے اس وقت کی سپریم کورٹ سے ایک اور فرمائش کرے گا کہ اس رپورٹ کی ریسرچ کے لئے نیا کمیشن مقرر کیا جائے‘ جو عدالت کی نگرانی میں کام کرے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک نہ ایک دن ایسا آئے گا‘ جب گزشتہ 68 سالوں کے دوران بینکوں کے قرضے ہضم کرنے والے سارے سابق اور حاضر ارباب اقتدار پکڑ لئے جائیں گے‘ تو تحقیقاتی رپورٹوںکے پلندے‘ حسن اور حسین کی ساتویں نسل کے گھر پہنچا دیئے جائیں گے۔ رائیونڈ کے محلات اور ان کے اندر سارے میدانوں میں سارے ٹرکوں میں بھری ہوئی تحقیقاتی رپورٹیں پہنچا دی جائیں گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ جناب وزیر اعظم کی ساتویں پشت بے گھر ہونے کے بعد سوچے گی کہ جو دولت ہم تک پہنچی ہی نہیں‘ اس کے بہی کھاتوں کا ہم کیا کریں؟ 50ء کے عشرے میں قاسم بھٹی نامی ایک شخص بے پناہ دولت جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کی موت کے چند سال بعد‘ اس کے بچے چھوٹے چھوٹے کاروبار کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ ہمارے وزیر اعظم نے سپریم کورٹ سے جو کمیشن بنوا کر تحقیقات کے لئے کئی نسلیں سامنے رکھ دی ہیں‘ ان کی چھان بین کے لئے مزید کتنی نسلوں کی ضرورت ہو گی؟ میں تو اندازہ کر کے ہی پریشان ہو گیا ہوں۔ ہمارے وزیر اعظم نے کہیں اپنی قوم کی کئی آنے والی نسلوں کو سزا دینے کا فیصلہ تو نہیں کر لیا؟ مناسب ہو گا‘ ہم اپنے وزیر اعظم پر لگائے گئے سارے الزامات واپس لے کر معافی مانگ لیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں